بھارتی پروردہ شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت

تھرڈ امپائر۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارتی پروردہ شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت
تحریر: محمد ناصر شریف
دنیا کی دستیاب تاریخ میں کئی ایک نامور حکمرانوں اور بادشاہوں کی طاقت، دبدبے اور پھر ان کے بدترین انجام کا تذکرہ ملتاہے۔ اسی کرہ ارض پر کبھی نمردو کی حکومت تھی جس نے طاقت اور غرور کے نشے میں خود کو خدا سمجھ لیا تھا لیکن اس کی خدائی لمحوں میں ختم ہوگئی اور دنیا آج تک اس کو اس کے بدترین انجام کیلئے جانتی ہے۔ اسی دنیا میں کبھی شداد کی بادشاہت تھی جس نے یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ خدا ہے، وہی سب سے طاقتور ہے اور پھر دنیا نے اس کا بھی بدترین حشر دیکھا ، جو خود کو سب سے طاقتور، سب سے سپر پاور سمجھ رہا تھا، ایک مچھر سے بھی نجات حاصل نہ کر سکا اور بدترین انجام کا شکار ہوا۔ اس دنیا میں فرعون، ہامان اور قارون کا انجام بھی سبھی کیلئے درس عبرت ہونا چاہئے ۔ طاقت، عقل اور دولت کے نشے میں فرعون اور اس کے ساتھیوں نے خود کو خدا اور کائنات کا خالق سمجھ لیا تھا۔ اقتدار کا نشہ سوار ہونے کے بعد رعایا اور عوام پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیا تھا کا اس کا دعویٰ تھا کہ وہی خدا ہے، اس سے بڑی کوئی اور طاقت ہے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرکے خود کو خدا سمجھ لیا لیکن پھر اس کا انجام بھی دنیا کیلئے عبرت بن گیا اور اپنی رعایا کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوگیا۔
بھارتی پروردہ شیخ حسینہ واجد کو بنگلادیش کی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ون نے انسانیت کیخلاف جرائم کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنا دی۔ ان کی پارٹی عوامی لیگ پر پابندی بھی برقرار رکھی گئی ہے۔ ان کی جماعت اب سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گی۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ون نے معزول و مفرور وزیراعظم شیخ حسینہ اور ان کے دو اعلیٰ عہدیدار ساتھیوں کے خلاف گزشتہ سال جولائی کی بغاوت کے دوران انسانیت کیخلاف جرائم کے جرم میں یہ فیصلہ دیا ہے۔ مقدمے میں سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال اور سابق انسپکٹر جنرل پولیس چودھری عبداللہ المامون کو بھی شریک جرم نامزد کیا گیا ہے۔ اسد الزماں تاحال مفرور ہیں جبکہ مامون زیر حراست ہیں اور اعتراف جرم کیا ہوا ہے۔ مامون ریاستی گواہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ 2010ء میں ٹریبونل کے قیام کے بعد سے وہ ریاستی گواہ بننے والے پہلے مجرم ہیں۔ کیس کا فیصلہ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ کی سربراہی میں تین رکنی ٹریبونل نے 453صفحات پر مشتمل فیصلے کا حصہ پڑھنے کے بعد دیا۔ اس سے قبل ٹربیونل نے 78سالہ شیخ حسینہ واجد کو بھارت سے واپس آکر ٹرائل میں پیش ہونے کی ہدایت دی تھی جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے ہدایت کو مسترد کر دیا تھا۔ استغاثہ نے ٹربیونل سے تینوں مجرموں کے اثاثے ضبط کرنے اور متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تشدد پر اکسانے، قتل کے حکم، مظاہرین کیخلاف کریک ٹائون کے الزام میں حسینہ کو عمر قید اور دیگر 3الزامات میں سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ لیک فون کال کے مطابق حسینہ واجد نے مظاہرہ کرنیوالے طلبا کے قتل کے احکامات دیئے۔ ملزمہ شیخ حسینہ واجد نے طلبا کے مطالبات سننی کے بجائے فسادات کو ہوا دی۔ ملزمہ نے طلبا کی تحریک کو طاقت سے دبانے کیلئے توہین آمیز اقدامات کئے۔ عدالت نے کہا کہ حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسد الزماں کمال ابھی تک مفرور ہیں، پیشی کیلئے بھیجے گئے متعدد نوٹسز کے باوجود دونوں ملزمان کا مفرور ہونا ان کے جرم کا اعتراف ہے، المامون واحد ملزم ہے جو عدالت میں موجود تھے۔ جولائی میں سماعت کے دوران انہوں نے اعتراف جرم کیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ حفاظتی اور تعزیری اقدامات کرنے میں ناکام رہیں۔ ملزمہ شیخ حسینہ نے الزام نمبر2کے تحت ڈرون، ہیلی کاپٹر اور مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دیکر انسانیت کیخلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔ فیصلے کے موقع پر گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے دوران مارے جانے والے افراد کے لواحقین بھی عدالت میں موجود تھے۔
شیخ حسینہ واجد اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے بھارت میں رہائش پذیر ہیں جبکہ سابق وزیر داخلہ اسد الزمان کمال بھی روپوش رہے ہیں۔ بنگلہ دیش نے بھارت سے حسینہ واجد کی حوالگی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ بھارت شیخ حسینہ اور سابق وزیر داخلہ کو حوالے کرنے کا پابند ہے۔ حسینہ واجد نے فیصلہ سیاسی اور جانبدارانہ قرار دیدیا۔ فیصلے پر شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ دفاع کا منصفانہ موقع نہیں ملا۔ دھاندلی زدہ ٹریبونل نے میرے خلاف فیصلہ دیا۔ حکومت کے پاس کوئی جمہوری مینڈیٹ نہیں ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے مظالم کا شکار جماعت اسلامی بنگلادیش کے سیکرٹری جنرل میاں غلام پرور نے کہا کہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی عدالتی کارروائی شفاف، غیر جانب دار اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوئی ہے۔ اس فیصلے سے ثابت ہوا کہ کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر نہیں۔ اگرچہ متاثرہ خاندانوں کے نقصان کی تلافی ممکن نہیں، لیکن آج کے فیصلے سے ان کے دلوں کو کچھ تسکین ہوئی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
فیصلے پر بھارتی حکومت اور ان کے گودی میڈیا کی جانب سے جس غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ شیخ حسینہ درحقیقت بھارت کی علاقائی حکمت عملی کا سب سے اہم ستون تھیں۔ وہ دہلی کے مفادات کو ترجیح دیتی تھیں، جس کی وجہ سے بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں کی سکیورٹی اور ٹرانزٹ کے حوالے سے مکمل تحفظ حاصل تھا۔ ان کے جانے سے، بھارت نے اپنا بنگلہ دیش میں سب سے بڑا سیاسی مہرہ کھو دیا ہے اور اس کا علاقائی تسلط شدید کمزوری کا شکار ہوا ہے۔ شیخ حسینہ کے قریبی بھارتی جھکاؤ کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تناؤ رہا۔ اب جبکہ ایک بھارت نواز حکومت کا سیاسی انجام ہو چکا ہے، بنگلہ دیش کی نئی قیادت کو یہ موقع ملے گا کہ وہ غیر ملکی دباؤ سے نکل کر پاکستان سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر متوازن تعلقات قائم کرے۔ یہ پاکستان کیلئے خطے میں امن اور سارک (SAARC)جیسے پلیٹ فارمز کو فعال کرنے کا بہترین سفارتی موقع ہے۔
دیکھا جائے تو بھارتی پروردہ شیخ حسینہ واجد نے اقتدار کے 15برس میں جس طرح جھوٹے مقدمات کی سیاست کو فروغ دیا، عدالتی فیصلوں کو انتقام کا ہتھیار بنایا اور فسطائیت پر مبنی طرز حکمرانی اپنائی وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ حسینہ واجد بھارتی سرپرستی اور اس کی ہدایات پر قومی مفادات کا سودا کرنے کے باوجود وہ نہ نئی نسل کو گمراہ کرنے میں ہوسکیں نہ ہی عوامی لیگی فسطائیت کو دائمی بنا سکیں، بالاخر اسی کے قائم کردہ خصوصی ٹریبونل نے حسینہ واجد کیخلاف انتہائی سزا کا فیصلہ سنایا۔ یہ وہی عدالت ہے جس کے ذریعے انہوں نے بے شمار محب وطن شخصیات کو یکطرفہ مقدموں کے عبرتناک ڈرامے کے بعد پھانسی کے تختے پر چڑھایا۔ حسینہ واجد کو دی جانے والی سزا پوری دنیا کے لئے ایک ایسا عبرت ناک درس ہے اور ان تمام جابروں، ظالموں، جھوٹ اور ظلم پر مبنی حکمرانی چلانے والوں اور عدل و انصاف کا خون کرنے والوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے کہ انجام بالاخر برا ہی ہوگا، لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ دنیا میں کسی کردار سے سبق سیکھنے کی روایت دم توڑ گئی ہے، اب کسی کو کسی کی کچھ پروا نہیں ہے، طاقت کے حصول کی دوڑ کہیں نہ کہیں جاری ہے، اور یہ سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔





