ایک دن مردوں کے لئے بھی
ایک دن مردوں کے لئے بھی
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری۔۔۔
مردوں کے عالمی دن کی بنیاد واقعی 1999ء میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو میں رکھی گئی تھی، اور اس کے پیچھے ڈاکٹر جیروم ٹیلکسنگ کا اہم کردار تھا، جو یونیورسٹی آف ویسٹ انڈیز کے تاریخ کے لیکچرر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اس دن کی ضرورت اس لیے محسوس کی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مردوں کے مسائل، جیسے کہ صحت، مساوات، معاشرتی کردار، اور معاشرتی دبا پر توجہ دی جائے۔
آج کے وقت میں یہ دن تقریباً 80سے زائد ممالک میں منایا جاتا ہے، اور اس کا مقصد نہ صرف مردوں کی صحت اور فلاح و بہبود کو اجاگر کرنا ہے بلکہ مثبت مردانہ رول ماڈلز کو فروغ دینا اور صحت مند معاشرتی تعلقات کو بڑھانا بھی ہے۔دنیا میں ہر طرح کے دن منائے جاتے ہیں۔
پھولوں کا دن، کتابوں کا دن، پرندوں کا دن، اور یہاں تک کہ چائے کا دن بھی۔
ان سب کے درمیان ایک دن مردوں کے لیے بھی مخصوص ہے۔
جب لوگ ’’ مردوں کا عالمی دن‘‘ سنتے ہیں تو اکثر لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ یہ مسکراہٹ کبھی حیرت کی ہوتی ہے، کبھی طنز کی، اور اکثر ایک خاموش تعجب کی بھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دن مردوں کی چھپی ہوئی کہانیوں، ان کی خاموش محنت اور ان کے جذبات کو مان دینے کا دن ہے۔
مرد، دنیا کے کم سمجھا جانے والے کردار۔
مرد کی کہانی عجیب ہے۔ وہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے، دنیا اس پر توقعات تہہ در تہہ رکھتی جاتی ہے۔ بچپن سے اسے سکھایا جاتا ہے: ’’ مرد بنو، رو مرد! مرد مضبوط ہوتا ہے‘‘، ’’ مرد ذمہ دار ہوتا ہے‘‘۔
یہ جملے حوصلہ بھی دیتے ہیں اور دبائو بھی۔
مرد کی ہنسی بظاہر خوشی ہوتی ہے، مگر دل میں اکثر درد چھپا ہوتا ہے۔
وہ چلتا ہے، مگر قدموں میں ذمہ داریوں کی بیڑیاں ہوتی ہیں۔
وہ گھر لوٹتا ہے، مگر اپنے اندر ایک طویل سفر کی تھکن لیے ہوئے ہوتا ہے۔
مسکراہٹ کے پیچھے چھپا ہوا وجود
لوگ سمجھتے ہیں مرد کی مسکراہٹ حقیقی ہوتی ہے، مگر سچ یہ ہے کہ وہ اکثر ایک نقاب ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے تھکن، تشویش، ضرورتیں، اور ایک بے نام تنہائی چھپی ہوتی ہیں۔ مگر وہ سب چھپا لیتا ہے، کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے دکھوں کا وزن دوسروں کی خوشیوں کو متاثر کر دے گا۔
بیوی کو لگتا ہے وہ بدل گیا ہے، بچوں کو لگتا ہے وہ مصروف ہو گیا ہے، دوستوں کو لگتا ہے وہ دور ہو گیا ہے۔ مگر کسی نے کبھی اس کی آنکھوں کی سرخی کو پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
گھر کے ستون کی کہانی
کہا جاتا ہے کہ گھر مرد کے سہارے کھڑا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مرد خود اپنی ذات کے سہارے نہیں کھڑا رہ پاتا۔صبح سے شام تک اس کی محنت
جیسے ریت کے گھر کو بار بار بنانے والا شخص، جو سمندر کی ہر آتی ہوئی لہر کو روکنے کے بجائے صرف نئی بنیادیں رکھتا رہتا ہے۔ مرد اپنے گھر کے لیے جیتا ہے، اپنی خواہشیں قربان کرتا ہے، اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے، اور پھر بھی اگر کوئی شکایت کرے تو وہ خود کو ظالم سمجھنے لگتا ہے۔
مرد کے رونے کا حق
سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ مرد کو رونے کا حق نہیں دیا جاتا۔ اگر آنکھیں نم ہوں بھی جائیں تو روتے نہیں، صرف پلکوں کو جھپک کر نمی چھپا لیتے ہیں۔ ایک مرد جب روتا ہی تو وہ ٹوٹتا نہیں، بلکہ ہلکا ہوتا ہے۔ مگر معاشرے نے اسے ٹوٹنے کا حق ہی نہیں دیا۔ اسی لیے کئی مرد مسکراہٹ میں دفن ہو جاتے ہیں، باتوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں، یا خاموشیوں میں گم۔
مرد کے کندھے، جہاں جذبات سے زیادہ بوجھ رکھے جاتے ہیں
مرد پر دنیا کے سارے بوجھ رکھے جاتے ہیں: گھر کا خرچ، فیصلے کی ذمہ داری، غلطیوں کا الزام، وقت کا حساب، محبت کی فراہمی، صبروں کا ذخیرہ، اور سب سے بڑھ کر ہمیشہ مضبوط رہنے کا بوجھ۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ان کندھوں پر اتنی جگہ ہے بھی یا نہیں۔ وہ کندھے جو باپ کے لیے سہارا، بیوی کے لیے تحفظ، بچوں کے لیے پہاڑ، اور دنیا کے لیے بھروسہ ہیں، کیا کبھی یہ کندھے تھکے بھی؟
خاموش شکستیں اور قربانیاں
مرد ٹوٹتا ہے، مگر خاموشی کے ساتھ۔ اتنی خاموشی کہ خود ٹوٹنے کی آواز بھی اس کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔ وہ ٹوٹ کر بھی ڈیوٹی پر جاتا ہے۔ ٹوٹ کر بھی بچوں کو کندھے پر اٹھاتا ہے۔ ٹوٹ کر بھی ہنستا ہے۔ ٹوٹ کر بھی اپنے والدین کی امیدیں پورا کرتا ہے۔ یہ سب کون جانتا ہے؟ شاید کوئی نہیں۔
مرد کی روزمرہ جدوجہد
مرد جانتا ہے کہ کئی بار اسے خاموش رہ کر جیتنا ہوتا ہے۔ کئی بار غلط نہ ہوتے ہوئے بھی معافی مانگنی پڑتی ہے۔ کئی بار اپنے حق قربان کرنے پڑتے ہیں، صرف اس لیے کہ گھر بچا رہے۔ وہ خود الجھتا ہے، مگر دوسروں کی گتھیاں سلجھاتا ہے۔وہ خود روکتا ہے، مگر محبت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ وہ خود ٹوٹتا ہے، مگر دوسروں کے خواب سنبھالتا ہے۔
مرد بھی محبت چاہتا ہے
مرد محبت مانگنے میں شرمندہ ہوتا ہے۔ وہ کہہ نہیں پاتا: ’’ مجھے بھی سراہو، مجھے بھی کسی کا یقین چاہیے،۔ وہ سب کچھ اپنے اندر رکھ لیتا ہے۔ مگر مرد کی سب سے بڑی خواہش، جو کبھی زبان پر نہیں آتی، یہ ہوتی ہے: کوئی ہو جو اسے سمجھے، بغیر کہے۔
مرد کی غلطیوں کا بوجھ
مرد غلطی کرے تو معاشرہ اسے کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اکثر اس کے دفاع کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔ مگر وہ پھر بھی خود کو قصوروار سمجھتا ہے، حتیٰ کہ کبھی کبھی وہ غلط بھی نہیں ہوتا۔ اس کی غلطی اس کی تھکن ہوتی ہے، اس کی خاموش بغاوت ہوتی ہے، یا اس کے اندر دبی ہوئی کوئی پرانی تکلیف۔
مردوں کا عالمی دن، ایک احساس
آج کے دن ہمیں مرد سے یہ نہیں کہنا کہ’’ مضبوط بنو، سب سنبھالو‘‘ بلکہ ہمیں کہنا چاہیے: ’’ تم بھی انسان ہو، تم بھی تھکتے ہو، تمہیں بھی محبت چاہیے‘‘۔ یہ جملے مرد کے بوجھ کو کم کر دیتے ہیں، اس کے درد کو محسوس کرنے کے لیے راستہ کھولتے ہیں، اور اسی انسان ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔
اختتام
یہ دن مردوں کی جیت کا دن نہیں، بلکہ ان کے ادھورے پن، قربانی، اور خاموشیوں کو مان دینے کا دن ہے۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ مرد نہ صرف ایک کردار ہے، بلکہ ایک مکمل انسان ہے، جس کی آنکھوں کے پیچھے کہانیوں کی دنیا چھپی ہوتی ہی۔ جب ہم اپنے گھر کے مرد کو دیکھتے ہیں، باپ، بھائی، بیٹا، شوہر، کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے کیا ہے؟ یا ہم بھی اس مسکراہٹ کو صرف ایک مضبوط چہرے کی طرح دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں؟مردوں کا عالمی دن مرد کو نہیں، اس کے درد کو شناخت دینے کا دن ہے۔ اس کی تھکن، اس کی ہنسی، اور اس کی خاموشی کو سراہنے کا دن ہے۔
افسانچہ: خاموش دھڑکن
صفدر علی حیدری
بشیر صبح کی ہلکی روشنی میں کھڑکی کے پاس کھڑا تھا، چائے کا کپ ہاتھ میں، گھر میں خاموشی چھائی ہوئی۔آج مردوں کا عالمی دن تھا، مگر کسی نے جشن نہیں منایا۔ وہ جانتا تھا کہ اس دن کی حقیقت کسی تہوار میں نہیں، بلکہ اس کے اندر چھپی زندگی میں ہے۔ بیوی اور بچوں کے درمیان، وہ ستون کی طرح کھڑا تھا، اپنے درد کو چھپا کر سب کے لیے جی رہا تھا۔ رات کو جب سب سو گئے، بشیر نے اپنی تھکن محسوس کی، اور خاموشی میں کہا: ’’ میں بھی محسوس ہونے کا حق رکھتا ہوں۔ میری ہنسی میں چھپا درد، میری خاموش دھڑکن، اور میری چھپی ہوئی کہانیاں اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ ‘‘





