CM RizwanColumn

واشنگٹن، اہم بیٹھک، اللّٰہ خیر

جگائے گا کون؟
واشنگٹن، اہم بیٹھک، اللّٰہ خیر!
تحریر: سی ایم رضوان
سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان 7 سل بعد دورہ امریکہ پر واشنگٹن پہنچ گئے ہیں، محمد بن سلمان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لئے وائٹ ہائوس آمد کا مقصد بظاہر تو دونوں طاقتوں کے درمیان طویل عرصے سے قائم دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط کرنا، تیل اور سکیورٹی تعلقات کو بڑھانا اور تجارتی، تکنیکی اور ممکنہ طور پر جوہری توانائی کے شعبے میں تعلقات کو وسعت دینا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہ دونوں ممالک عالمی سیاسی شطرنج کے بڑے مہرے ہیں اور ان کی چالوں سے ہی عالمی منظرنامے پر حالات و واقعات ترتیب پاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عرب اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے کیا خفیہ اور اعلانیہ فیصلے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سعودی ولی عہد کا 2018ء کے بعد امریکا کا پہلا دورہ ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ 600بلین ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کی یقین دہانی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جو مئی میں ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کے دوران طے ہوئی تھی۔ اس موقع پر انسانی حقوق پر بات کرنے سے گریز کیا گیا اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ دوبارہ جاری رہے گا۔ اس وقت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان غزہ جنگ بندی کے بعد پہلی بار امریکی صدر ٹرمپ سے براہ راست ملاقات کر رہے ہیں ان کی وائٹ ہاس آمد سے بیانیوں کے حوالے سے دو اہم نتائج ہی اخذ کئے جا سکتے ہیں ایک دوستانہ ملاقات اور دوسرے متعدد معاہدوں پر دستخط۔ البتہ دونوں فریق یہ چاہیں گی کہ اس ملاقات کے بعد کوئی بڑا معاہدہ یا ایسی پیش رفت بھی سامنے آئے جو اس ملاقات کو شاندار کامیابی ثابت کرے۔ ٹرمپ کوشش کریں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کریں تاہم ایم بی ایس کے لئے یہ دورہ سیاسی منظر نامے پر ان کی مکمل واپسی کی علامت ہے۔ گزشتہ 80برس کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایک ہمہ جہت شراکت داری میں ڈھل چکے ہیں، جو دفاع، تجارت، تعلیم، سیاحت اور دیگر کئی شعبوں پر محیط ہے. یہ تعلقات سرکاری عہدیداروں سے لے کر عام شہریوں تک رابطوں کے ذریعے ہر سطح پر برقرار ہیں۔ یاد رہے کہ 14فروری 1945ء کو امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے یالٹا کانفرنس کے بعد امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کی تھی۔ علاوہ ازیں 1974ء سے اب تک چھ امریکی صدور سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ہر سطح پر رابطوں سے یہ تعلقات مستحکم ہوئے ہیں، چاہے وہ حکومتی سطح پر ہوں یا عوامی سطح پر ہیں۔ تعلقات میں یہ مضبوطی دوطرفہ ہمہ گیر تعاون میں نمایاں ہے، چاہے وہ سکیورٹی معاملات ہوں یا تجارت و ثقافت یا پھر سوڈان، یمن اور دیگر مقامات پر علاقائی تنازعات کو حل کرنے کی مشترکہ کوششیں ہوں۔ واشنگٹن اور ریاض کے درمیان دفاع اور توانائی کے میدان میں ابتدائی تعاون سے لے کر تعلیم، ٹیکنالوجی، سیاحت اور فنون لطیفہ جیسے جدید شعبوں میں اشتراک تک، دو طرفہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ گہرے ہوتے چلے گئے ہیں جو علاقائی حالات، عالمی تبدیلیوں اور باہمی مفادات میں مزید مضبوط ہوتے گئے۔ تاہم تعلیم ان تعلقات کی ایک بنیادی ستون رہی ہے خصوصاً کنگ عبداللہ سکالر شپ پروگرام کے ذریعے جس کے تحت ہزاروں سعودی طلبہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے گئے۔ اسی طرح امریکی طلبہ بھی اسلامک یونیورسٹی مدینہ اور تبادلہ پروگراموں جیسے فلبرائٹ پروگرام اور ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی اور سعودی وزارت تعلیم کے درمیان شراکت جیسے منصوبوں کے تحت سعودی عرب آئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب کے ’’ ویژن 2030‘‘ نے سعودی امریکی تعاون میں نئی جان ڈال دی ہے جس کے تحت تعلیم کے تبادلے نے مواقع پیدا کیے ہیں اور اربوں ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ کی طرح سعودی عرب بھی اختراع، کاروبار اور تکنیکی ترقی کو اہمیت دیتا ہے۔ بعض ماہرین ان تعلقات میں نئی شروعات ٹرمپ کے 2017ء کے سعودی عرب کے دورے یا’’ ویژن 2030‘‘ سے جوڑتے ہیں لیکن ان کی بنیادیں کئی دہائیوں قبل رکھ دی گئی تھیں۔ یہ تعلقات 1940ء کی دہائی میں اسی وقت قائم ہوئے جب شاہ عبد العزیز آل سعود نے نجد اور حجاز کے قبائل کو متحد کر کے 1932ء میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی تھی۔ پھر 14 فروری 1945ء کو دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے قریب صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے یالٹا کانفرنس کے بعد سویز کینال میں موجود یو ایس ایس کوئنسی بحری جہاز پر شاہ عبد العزیز سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات ایک تاریخی موڑ ثابت ہوئی۔ روز ویلٹ نے یورپ سے یہودی پناہ گزینوں کے مسئلے پر شاہ سے مشورہ کیا اور جنگ کے بعد کے عالمی نظام میں سعودی عرب کو ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر دیکھا۔ روز ویلٹ جانتے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی ایک نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے اور امریکہ کو سعودی عرب جیسے ملک سے دوستی کرنی ہے جو مذاہبِ اور تاریخی تناظر میں تفاوت کے باوجود اب دنیا میں ایک مثال ہے۔
اب موجودہ دور میں اس سے پہلے ایم بی ایس کا آخری دورہ امریکہ 2018ء میں ہوا تھا، جو سعودی ناقد جمال خاشقجی کے قتل کے باعث تنازع کا شکار رہا۔ اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن کی پالیسی سعودی عرب کے حوالے سے مختلف تھی جبکہ اب ٹرمپ کے اقتدار کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات بڑی حد تک بحال ہو چکے ہیں۔ جنوری 2025 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنے تو ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ریاض کا تھا، جہاں انہوں نے امریکہ میں 600ارب ڈالر (517ارب یورو) کی سعودی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جبکہ اس بار واشنگٹن میں دونوں فریقین کے درمیان مصنوعی ذہانت، سرمایہ کاری، دفاع، سلامتی اور جوہری امور پر بات چیت متوقع ہے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں سلامتی کی نازک صورتحال کے پیشِ نظر۔ یاد رہے کہ اس سال جون میں اسرائیل اور امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے، جن کے نتیجے میں کئی روز تک جھڑپیں جاری رہیں۔ ستمبر میں اسرائیل نے قطر میں حماس کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا تھا اور اکتوبر میں امریکہ کی ثالثی سے ایک نازک جنگ بندی عمل میں آئی، جس نے غزہ میں تقریباً دو سالہ جنگ کو روک دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سعودی ولی عہد واشنگٹن سے جس دفاعی معاہدے کے خواہاں ہیں وہ کم از کم قطر کو صدر ٹرمپ کی جانب سے دی گئی ان سکیورٹی ضمانتوں کے برابر ہو جو قطر کو اسرائیلی حملے کے بعد ٹرمپ کی جانب سے ملا تھا اور جو انتظامی حکم کے ذریعے نافذ ہوا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لئے امریکہ کی ثالثی میں ایک معاہدہ زیر غور تھا، جس میں سکیورٹی ضمانتیں اور سعودی جوہری پروگرام شامل تھے۔ تاہم غزہ جنگ کے بعد سعودی عرب نے واضح کر دیا تھا کہ اسرائیل سے کسی بھی معاہدے کے لئے دو ریاستی حل ضروری ہے، جسے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مسترد کر دیا تھا۔ دوسری طرف ٹرمپ کا ماننا ہے کہ سعودی عرب بالآخر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو گا، لیکن فی الحال ایم بی ایس اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر آمادہ نہیں۔ اس کی بجائے سعودی عرب امریکہ سے فلسطینی ریاست کے لئے مضبوط حمایت اور غزہ میں جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر زور دے گا، جس میں اسرائیل کا انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا، عبوری انتظامیہ اور کثیر القومی سکیورٹی فورس کی تعیناتی شامل ہے۔
واضح رہے کہ 7اکتوبر 2023 ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے قبل، جس نے غزہ میں جنگ کو بھڑکایا، اسرائیل اور سعودی عرب امریکی ثالثی میں تعلقات معمول پر لانے کے ایک معاہدے کے قریب تھے، جو ابراہیمی معاہدوں کا حصہ تھا۔ دیگر عرب ممالک بشمول بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش، پہلے ہی 2020ء اور 2021ء میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے تھے کیونکہ اس سے پہلے 12ستمبر 2020ء کو وائٹ ہائوس کے جنوبی لان، میں ابراہیمی معاہدے پر دستخط کی تقریب کا منظر عالمی میڈیا میں نشر ہو چکا تھا جس میں بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف بن راشد الزیانی، اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید بن سلطان النہیان وائٹ ہائوس میں ابراہیمی معاہدے پر دستخط کے بعد خوشی کا اظہار کرتے نظر آ رہے تھے۔
سعودی عرب کے لئے یہ معاہدہ ایک سہ فریقی ڈیل ہوتا، جس میں امریکہ سکیورٹی ضمانتیں دیتا یعنی وہ تحفظ اور تعاون جو نیٹو کے رکن ممالک کو ملنے والی حمایت کے برابر ہو اور اس معاہدے میں سعودی عرب کے لئے ایک سول نیوکلیئر پروگرام بھی شامل ہوتا۔ تاہم غزہ میں جنگ کے آغاز کے ساتھ، سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کو اُس وقت تک کے لئے مسترد کر دیا جب تک کہ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی قابل اعتبار راستہ نہ نکلے۔
اُدھر اس منصوبے کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے عوامی طور پر مسترد کر دیا ہے لیکن اس تضاد کے باوجود ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب بالآخر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔ نومبر کے اوائل میں ایک ٹیلی ویعن انٹرویو میں ٹرمپ نے پیش گوئی کی تھی کہ سعودی مملکت فلسطینی ریاست کے حوالے سے پیش رفت کے باوجود جلد ہی معاہدے میں شامل ہو جائے گی۔
لیکن یہ طے ہے کہ ریاض حکومت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کو ’’ فیز ٹو‘‘ میں منتقل کرنے کے عزم کے ساتھ، فلسطینی ریاست کے لئے مضبوط امریکی حمایت پر زور دے گی۔ اس مرحلے میں غزہ سے اسرائیل کا انخلائ، حماس کو غیر مسلح کرنا، ایک عبوری اتھارٹی کا قیام اور غزہ میں ملٹی نیشنل سکیورٹی فورس کی تعیناتی شامل ہو گی۔ تاہم ان تمام جاری تنازعات کے ساتھ ساتھ، دونوں فریق تیل کی پیداوار پر اختلاف رکھتے ہیں۔ امریکہ پیداوار میں اضافہ چاہتا ہے، جبکہ ریاض حکومت کمی کی خواہاں ہے کیونکہ قیمتیں اس کی توقعات کے مطابق نہیں ہیں۔
ایک اور حساس مسئلہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال کا بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم سفارتی کامیابیوں کے حصول کے تناظر میں توقع یہی کی جا رہی ہے کہ یہ اختلافات اس ملاقات پر غالب نہیں آئیں گے اور یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک نتیجہ خیز اور دوستانہ ملاقات ہو گی اب دیکھنا صرف یہ ہو گا کہ یہ کس سمت جاتی ہے کیونکہ ان دونوں طاقتوں کے سامنے کئی جغرافیائی سیاسی سوالات ہیں، جنہیں انہوں نے حل کرنا ہے اور ان کا حل یقینی طور پر انسانیت کے لئے تو کوئی اتنا خوش کن نہیں ہو گا البتہ ان دونوں کے سیاسی مفادات اور ترجیحات کے ضمن میں دنیا اور خاص طور پر خطہ میں کچھ بھی نیا ہو سکتا ہے۔ جسے آپ دنیا کے نئے مستقبل کی پیش بندی بھی کہہ سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button