ٹرمپ کا غزہ منصوبہ: حقیقت اور خیال کے درمیان ایک سفر

ٹرمپ کا غزہ منصوبہ: حقیقت اور خیال کے درمیان ایک سفر
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ٹرمپ کے منصوبے کو تائید دی تو اسے صرف ایک قرارداد سمجھنا غلط ہوگا۔ یہ ایک لمحہ تھا جو مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے میں ایک نیا فصل شامل کر رہا تھا۔ ایک نیا دور شروع کر رہا تھا۔ تیرہ ممالک کی حمایت سے یہ واضح ہو گیا کہ امریکی نقطہ نظر کو بین الاقوامی سطح پر کتنی تسلیم ہے۔ لیکن روس اور چین کا ووٹ سے اجتناب بھی اتنا ہی بولتا ہے۔ یہ اجتناب ایک خاموش تسلیم ہے۔ یہ کہنے کا محتاط طریقہ ہے کہ ہم اس سے متفق نہیں ہیں ۔ اس سے ہی اندازہ لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو توازن ہے، وہ کتنا بدل چکا ہے، اور امریکی اثر و رسوخ اب کتنا حقیقی ہے۔ یہ سب کچھ ہوا ہے چپکے سے۔ کوئی شور نہیں تھا، کوئی بڑی تیاری نہیں۔ بس ایک فیصلہ آ گیا اور سب کچھ بدل ہو گیا۔ یہ سیاست کا سفر ہے جو ہر لمحے بدلتا ہے اور تاریخ کو دوبارہ لکھتا ہے۔لیکن جو منصوبہ تصویب پایا ہے اس میں کتنی پیچیدگی ہے۔ کتنے گہرے سوالات ہیں۔ اول تو حماس کی غیر مسلح کاری۔ یہ محض ایک فوجی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک نظریاتی مسئلہ ہے جو تاریخ سے آتا ہے۔ حماس کے لیے ہتھیار صرف ایک سامان نہیں بلکہ ایک شناخت ہے۔ ایک نظریہ ہے۔ ایک سیاسی بیان ہے۔ جب آپ حماس سے کہتے ہیں کہ اپنے ہتھیار رکھ دو تو دراصل آپ اس سے کہہ رہے ہیں کہ اپنی موجودگی رکھ دو۔ اپنے نام ختم کر دو۔ حماس کے سپاہیوں، کارکنوں، اور سیاست دانوں کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہتھیار کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ نہ ایک سیاسی طاقت، نہ ایک عسکری قوت۔ صرف خاموش صدائیں۔ اسرائیل سے دفاع تو ایک سبب ہے، لیکن اصل سبب غزہ میں اپنا سیاسی کردار برقرار رکھنا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی تو پہلے سے ہی ضعیف ہے۔ عام فلسطینی اس پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اگر حماس بھی غیر مسلح ہو جائے تو غزہ میں سیاسی اختیار کا ادارہ کون ہوگا؟ کون سے ہاتھ سے حکومت کی رسیاں بندھی ہوں گی؟ یہ سوال منصوبے کی بنیاد ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو کبھی صاف طریقے سے جواب نہیں دیا گیا۔
دوسرا نقطہ بین الاقوامی استحکام فوج کا ہے۔ انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، یہ ممالک اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ فوج کیا کرے گی؟ کیا وہ محض سرحدوں کو پہرے دار بنائے گی؟ یا یہ حماس کے ہتھیاروں کو ضبط کرنے کے لیے کام کرے گی؟ اگر یہ دوسرا کردار ہے تو غزہ میں یہ درحقیقت ایک مسلح پولیس فورس بن جائے گی۔ ہزاروں نوجوان ہیں غزہ میں جو یہ فوج دیکھتے ہی اسے قابض طاقت کا حصہ سمجھیں گے۔ وہ اسے ایک دوسرے قابض کے طور پر دیکھیں گے۔ شاید دوسرے لباس میں، دوسری زبان میں، لیکن قابض بھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بیرونی فوجیں عام طور پر حل نہیں ہوتیں۔ بلکہ وہ مسائل میں اضافہ کرتی ہیں۔ خاص طور پر جب وہ کسی دوسری طاقت کے ذریعے نافذ کی جائیں۔ یہ ایک خطرناک سڑک ہے۔ اور خطرناک سڑکوں پر چلنے والے اکثر کہیں نہیں پہنچتے۔ایران کے بارے میں سوچیں۔ ایران کو اس منصوبے سے مکمل طور پر الگ رکھا گیا ہے۔ نہ ISFمیں، نہ بورڈ آف پیس میں۔ یہ ایک منطقی منصوبہ بندی ہے۔ ایران کو کھیل کے باہر رکھ دیا گیا۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا ایران سچ میں کمزور ہو رہا ہے یا یہ ایک عارضی تنہائی ہے؟ یہ سوال پیچیدہ ہے۔ حماس، حزب اللہ، حوثی۔ یہ تمام تنظیمیں ایران سے جڑی ہوئی ہیں۔ اگر یہ تنظیمیں ضعیف ہو جائیں تو ایران خود محدود ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایران ایک ملک ہے۔ وہ صرف اپنے حلیفوں پر منحصر نہیں۔ شاید یہ موقع ہے ایران کے لیے اپنی حکمت عملی کو بدلنے کا۔ امریکہ کے ساتھ نئی بات چیت شروع کرنے کا۔ دو دہائیوں کی مخالفت سے نکل کر ایک نیا باب شروع کرنے کا۔ لیکن ایران کی داخلی سیاست میں سخت گیر عناصر ہیں جو کسی بھی مغربی انجام تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ یہ ایک طویل اور پیچیدہ کھیل ہے۔ اس کے نتائج برسوں بعد نظر آئیں گے۔ شاید کبھی بھی نہ آئیں۔
بورڈ آف پیس کا تصور بھی بہت غیر معمولی ہے۔ ٹرمپ خود اس کی سربراہی کریں گے۔ ایک امریکی صدر جو سیکڑوں داخلی مسائل سے جوجھ رہے ہوں۔ وہ غزہ کے روزمرہ کے انتظام کی نگرانی کریں گے؟ اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ شاید یہ محض ایک نام ہے۔ ایک علامت۔ ایک ڈھکاوا۔ شاید حقیقی کام ٹونی بلیئر کریں گے۔ لیکن بلیئر کے نام سے فلسطینیوں کو برطانوی نوآبادیات کی یادیں آتی ہیں۔ ان کے لیے بلیئر کا نام معاہدوں کو توڑتے ہوئے لوگوں کے نام کی طرح ہے۔ یہ شروع سے ہی ایک خطرناک انتخاب تھا۔ لیکن شاید یہی سیاست ہے۔
غزہ کی تعمیر نو کے لیے ستر بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے۔ ایک ناممکن رقم۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ امریکہ کے پاس اس وقت خود زیادہ تشویش ہے۔ اپنی اندرونی معیشت سے۔ سعودی عرب کچھ دے سکتے ہیں لیکن اتنا نہیں۔ یورپی ممالک ہچکچاتے ہیں۔ یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ اگر حل نہ نکلے تو یہ منصوبہ خیال ہی رہے گا۔ صرف ایک خوبصورت منصوبہ۔ صرف ایک دستاویز۔ غزہ کی تعمیر نو نہیں ہوگی۔ لوگ بھوکے رہیں گے۔ بے گھر رہیں گے۔ ٹوٹا پھوٹا رہے گا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو منصوبوں میں نظر نہیں آتی۔ یہ بہت سادہ لیکن سب سے اہم بات ہے۔
پاکستان کے لیے یہ حالات بہت حساس اور اہم ہیں۔ کیا اسلام آباد ISFمیں شامل ہو؟ اگر ہو تو کیا حقیقی فوائل ہیں؟ اگر نہ ہو تو کیا نقصان ہے؟ یہ بالکل سادہ سوال نہیں۔ سعودی عرب ہمارا طویل مدتی دوست ہے۔ ایران ہمارا سرحد سے ملنے والا پڑوسی ہے۔ دونوں سے تعلقات اہم ہیں۔ ہمیں توازن رکھنا ہوگا۔ ایک نازک توازن۔ نہ بہت قریب، نہ بہت دور۔ یہ سیاست کا فن ہے۔ یہ ایک کمزور رسی پر چلنے جیسا ہے۔
یہ منصوبہ کامیاب ہو یا ناکام، مشرق وسطیٰ نے تبدیلی کا سفر شروع کر دیا ہے۔ وہ روایتی تنازعات اب جیسے تھے ویسے نہیں رہے۔ نئے اتحادات بن رہے ہیں۔ نئی سمجھ ہو رہی ہے۔ اگر ہم عقل سے سوچیں تو یہ منطقی ہے۔ لیکن غزہ میں ابھی بھی بچے ہیں۔ عورتیں ہیں۔ خاندار ہیں جو بے گھر ہو گئے ہیں۔ یہ انسانی حقیقت ہے جو کبھی منصوبوں میں آتی نہیں۔ لوگ منصوبہ بناتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں انسان رہتے ہیں۔ خوشیاں اور غمیں رکھتے ہوئے۔ اپنے خواب اور اپنی خرابیاں۔ یہ سب سیاسی منطق میں خود بخود آ نہیں سکتے۔ لیکن یہی سب سے اہم اور حقیقی ہے۔





