توانائی ۔۔۔ فاسٹنگ ۔۔۔ زندگی
توانائی ۔۔۔ فاسٹنگ ۔۔۔ زندگی
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
انسانی جسم ایک ایسا نظام ہے جس کی پیچیدگی اور کمالات آج بھی سائنس دانوں کے لیے ایک معمہ ہیں۔ یہ محض ہڈیاں، پٹھے، خون یا اعضا کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک خود مختار جادو نگری ہے جس میں ہر لمحے لاکھوں خلیے بنتے، مرمت ہوتے اور کبھی ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ مسلسل خود کو برقرار رکھنے کا عمل ہماری صحت، توانائی، ذہنی استقامت اور بڑھاپے کی رفتار کا تعین کرتا ہے۔
ہم اکثر بیماری کو باہر سے آنے والے دشمن کی مانند دیکھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم کے اندر ایک خاموش مگر مسلسل لڑائی جاری رہتی ہے۔ اس لڑائی میں کامیابی یا ناکامی کا دارومدار بنیادی طور پر انسولین پر ہے، وہ ہارمون جو خوراک کو توانائی میں بدلنے کا حکم دیتا ہے اور توانائی کے بہائو کو کنٹرول کرتا ہے۔
جب ہم بار بار کھاتے ہیں، زیادہ چینی اور آٹا استعمال کرتے ہیں، اور زیادہ وقت بیٹھے رہتے ہیں، تو جسم انسولین کے سگنل کو نظرانداز کرنے لگتا ہے۔ یہی حالت انسولین ریزسٹنس کہلاتی ہے، جو جسم کی توانائی کے بنیادی نظام میں خلل پیدا کر دیتی ہے۔
انسولین ریزسٹنس کے جسمانی مظاہر واضح ہیں: چربی جمع ہونا، خصوصاً پیٹ اور کولہوں کے گرد؛ توانائی میں کمی، صبح سے شام تک تھکن؛ دماغی دھند، یادداشت اور ارتکاز میں کمی؛ نیند میں خلل؛ بھوک میں اضافہ؛ اور بلڈ پریشر و شوگر کے ابتدائی آثار۔ یہ وہ لمحے ہیں جب لوگ کہتے ہیں کہ جسم تھک گیا ہے، حالانکہ اصل میں انجن بند نہیں ہوا، بس فیول کے راستے بند ہو گئے ہیں۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ انسولین ریزسٹنس کی ابتدائی علامات اکثر 10سے 15سال پہلے ظاہر ہو جاتی ہیں، مگر زیادہ تر لوگ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف وزن یا تھکن تک محدود نہیں، بلکہ دل، دماغ، جگر، گردے اور ہڈیوں کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
خدا نے جسم کے اندر ایک قدرتی ’’ صنعتی صفائی کا نظام‘‘ رکھا ہے، جسے آٹو فائجی (Autophagy)کہتے ہیں۔ آٹو فائجی کا مطلب ہے ’’ خود کھانا‘‘، یعنی جسم خراب یا غیر ضروری خلیوں کو توڑ کر نئے خلیے پیدا کرتا ہے۔ یہ اس وقت فعال ہوتا ہے جب جسم کچھ گھنٹوں کے لیے خوراک نہ پائے، انسولین کم ہو اور توانائی اپنے اندرونی ذخائر سے حاصل کی جائے۔
روزانہ سولہ گھنٹے کی فاسٹنگ، مثلاً رات آٹھ بجے سے اگلے دن دوپہر بارہ بجے تک، جسم میں آٹو فائجی کو بڑھا دیتی ہے۔ اس کے فوائد بہت وسیع ہیں:
خراب خلیوں کی تجدید اور مرمت
سوزش میں کمی
دماغی دھند صاف ہونا
قوتِ مدافعت مضبوط ہونا
بڑھاپے کی رفتار میں کمی
تحقیقات کے مطابق، فاسٹنگ نہ صرف وزن کم کرنے کے عمل کو تیز کرتی ہے بلکہ دماغ کے نیورونز اور دل کے خلیوں کی مرمت میں بھی مددگار ہے۔
انسان کا بنیادی ایندھن گلوکوز نہیں بلکہ چربی ہے۔ ہزاروں سال انسان نے اناج کے بغیر زندگی گزاری، مگر توانائی سے خالی نہیں رہا۔ جب ہم کاربوہائیڈریٹس کم کرتے ہیں تو جسم کیٹونز (Ketones)پیدا کرتا ہے، جو صاف، مستحکم اور موثر ایندھن ہیں۔ کیٹونز کے فوائد میں شامل ہیں:
انسولین ریزسٹنس میں کمی
دماغ کی کارکردگی میں اضافہ
سوزش میں کمی
توانائی میں استحکام
کیٹو ڈائٹ اور سولہ گھنٹے فاسٹنگ کا امتزاج دماغی اور جسمانی صحت کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کیٹونز دماغ کے لیے زیادہ مفید ہیں اور انسولین حساسیت کو بحال کرتے ہیں۔
روزانہ سولہ گھنٹے فاسٹنگ اور کیٹو ڈائٹ کے فوائد یہ ہیں:
کھانے کے وقفے انسولین کو کم رکھتے ہیں۔
کیٹو ایندھن صاف اور موثر توانائی فراہم کرتا ہے۔
دماغ اور جسم کی مرمت کے عمل کو فعال کرتا ہے۔
جسم کے لیے فطری اور محفوظ توانائی کے نظام کو بحال کرتا ہے۔
انسولین ریزسٹنس کی وجہ سے ذیابیطس ٹائپ 2، موٹاپا، فٹی لیور، PCOS، بلڈ پریشر، کولیسٹرول، اور میٹابولک تھکن جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں، یہ علامات نہیں بلکہ اصل مسئلے کی نشانی ہیں۔ دوا صرف علامات کو کم کر سکتی ہے، اصل حل انسولین کے سگنل کو درست رکھنا اور جسمانی مرمت کو فعال کرنا ہے۔
روزمرہ زندگی میں عملی اقدامات درج ذیل ہیں:
کھانے کے وقفے رکھیں: شام پانچ بجے تک کھانا ختم کریں اور اگلے دن گیارہ بجے تک فاسٹنگ کریں ( پانی، ہربل چائے یا کالے کافی کی اجازت )۔
کیٹو غذائیں استعمال کریں: صحت مند چربی ( ناریل، زیتون، مکھن)، پروٹین ( گوشت، انڈے، مچھلی)، کم کارب سبزیاں۔
روزانہ کم از کم 30منٹ واک کریں، ہلکی ورزش اور تنائو کم کریں۔
سات سے آٹھ گھنٹے معیار والی نیند لیں۔
جسم کا نظام پیچیدہ نہیں، ہم نے اسے خود پیچیدہ کر دیا ہے۔ سولہ گھنٹے فاسٹنگ اور کیٹو ڈائٹ جسم کو اصل توانائی اور انسولین کے صحیح سگنل کی طرف واپس لے جاتی ہیں۔ انسولین کو اپنا کام کرنے دیں، جسم خود مرمت کرے گا، توانائی واپس آئے گی اور زندگی کی روانی محسوس ہوگی۔ یہ کوئی ڈائیٹ نہیں بلکہ انسانی وجود کی اصل فطرت کی طرف واپسی ہے۔ اسی شعور میں شفا، توانائی، زندگی اور واپسی ہے اپنے اصل بدن کی طرف۔
شوگر کا مرض، جو آج کل پاکستان میں سر فہرست ہے، صرف بے ضابطہ خوراک سے پیدا نہیں ہوتا۔ آپ کی سوچ اور طرزِ زندگی بھی اس میں برابر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ نشاستے کے عناصر، جیسے آٹا اور چینی، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جسم کو غیر متوازن توانائی فراہم کرتے ہیں۔ سادہ اور متوازن خوراک، بہتر نیند، مشقت کی عادت اور پریشان کن سوچ سے آزادی، شوگر اور دیگر بیماریوں سے نجات کی کنجی ہے۔ دعا ہے کہ ہم اس فلسفے کو سمجھیں اور تھری ڈی (Doctor, Drug, Disease)سے بچیں۔





