Column

ماحولیاتی تحفظ اور سماجی ذمہ داریاں

ماحولیاتی تحفظ اور سماجی ذمہ داریاں
تحریر: شاہد ندیم احمد
دنیا بھر میں بد لتی موسمیاتی تبدیلی کے انتہائی منفی اثرات مر تب ہو رہے ہیں ، اس منفی اثرات کے تدارک کیلئے اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنسیں ( یا COPs) ہر سال منعقد ہوتی ہیں اور یہ دنیا کا واحد کثیر جہتی فیصلہ ساز فورم ہے، جو کہ دنیا کے ہر ملک کی تقریباً مکمل رکنیت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر فیصلہ سازی کرتا ہے، اس کانفرنس میں دنیا ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے طریقوں پر متفق ہونے کے لئے اکٹھی ہوتی ہے، جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5ڈگری سیلسیس تک محدود کرنا، کمزور کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے میں مدد کرنا اور 2050ء تک کاربن کے اخراج کو صفر تک محدود کرنا شامل ہیں۔
اس بار اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس برازیل میں منعقد ہوئی ہے اور اس میں دنیا بھر سے ہزاروں سفارت کار اور ماہرین شرکت کے لیے برازیل میں ایمازون خطے کے شہر بیلیم پہنچے، جہاں موسمیاتی اقدامات کے وعدوں کو عملی صورت دینے اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے مزید کڑے اقدامات پر اتفاق رائے کی کوششیں کی جائیں گی، کیوٹو سے شرم الشیخ تک ایسی بہت سی سالانہ کانفرنسوں اور ان میں کیے جانے والے وعدوں کے باوجود زمین مسلسل گرم ہو رہی ہے اور اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومتوں اور بڑی کمپنیوں پر باتوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کے لیے دبائو کہیں زیادہ ہے، کیا یہ دبائو عملی اقدام پر مجبور کر پائے گا اور کیا اس گرم ہوتی زمین کو ٹھنڈا بھی کر پائے گا ؟ یہ اہم سوالات ہیں، لیکن اس کے جوابات، اس کانفرنس میں ہی ملیں گے۔
اس وقت کوئی جتنا بھی چاہے، دنیا میں بد لتی موسمیاتی تبدیلیوں سے نظریں چرا سکتا ہے نہ ہی فضائی آلودگی کو نظر انداز کر سکتا ہے، اس لیے ہی بڑے فلیٹ فارم پر بڑی اجلاس کیے جارہے ہیں، یہ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن ( یو این ایف سی سی سی) کی کانفرنس موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے دنیا کا سب سے اہم عالمی فورم ہے، اس کے فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں اور اس میں تعاون کو فروغ ملتا ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے، ان سے موافقت پیدا کرنے اور مالی وسائل کی فراہمی میں پیش رفت ہو سکے، گزشتہ دہائیوں کے اجلاسوں میں کئی تاریخی معاہدے طے پائے ہیں اور ان پر کسی حد تک عمل درآمد بھی ہورہا ہے، مگر اس کے خاطر خواہ نتائج ابھی تک سامنے نہیںآ رہے ہیں۔
اس بار کانفرنس بھی ایسے ہی حالات میں ہوئی ہے کہ جب کر ہ ارض کا ماحولیاتی بحران شدت اختیار کر تا جارہا ہے، عالمی حدت خطرے کے نشان سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں کسی ایک ملک کیلئے تنہا موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانا ممکن نہیں رہا ہے، بلکہ اس کیلئے اجتماعی اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، اس تناظر میں مغربی ممالک جنہوں نے اپنی صنعتی ترقی کیلئے کاربن اخراج میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے، ان کیلئے ماحولیاتی تحفظ میں حصہ بقدر جثہ ناگزیر ہے، یہ حصہ عالمی ماحولیاتی فنڈنگ کے اعلانات کے ساتھ بروقت فراہمی کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے؟۔ اگر بات بحث و مباحثہ اور اعلانات تک ہی محدود رہے گی تو اس عالمی بحران پر کیسے قابو پایا جاسکے گا؟
اگر دیکھا جائے تو اس قسم کی ماحولیاتی کانفرنسز میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے فنڈنگ کے بڑے بڑے اعلانات تو کئے جاتے رہے ہیں، مگر یہ اعلانات عملی شکل اختیار نہیں کر پائے ہیں، اس جانب ماحولیاتی کانفرنس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست تو جہ دلائی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں، اس لیے ماحولیاتی تحفظ کیلئے سب کو ہی مل کر کام کرنا ہو گا، اس ضمن میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بھی اپنا کردار ضرور ادا کرنا ہو گا، تاکہ اعلانات کی عملی شکل واضح طور پر دکھائی دے، اس کیلئے سارے ممالک کو اعلانات سے آگے بڑھتے ہوئے باہمی مشاورت سے مل کر عملی اقدامات کر نا ہوں گے تو ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے عہدہ برا ہوا جاسکے گا۔
دنیا بھر کی ساری ہی سماجی تنظیمیں بھی کانفرنس سے بیلیم طریقہ کار تشکیل دینے کا ہی مطالبہ کر رہی ہیں، تاکہ منصفانہ منتقلی کی عالمی کوششوں کو مربوط کیا جا سکے اور کمزور ترین ممالک کو ٹیکنالوجی اور مالی وسائل تک بہتر رسائی فراہم ہو سکے، یہ بر وقت ایک اچھا مطالبہ ہے، اس پر عملدرآمد ممکن بنانے کے ساتھ دیگر ممالک کو اپنے طور پر بھی عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر مقامی اقدامات کی بات کی جائے تو ماحولیاتی تحفظ صرف سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس میں عام شہریوں کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے، جتنا کہ حکومت کا ہے، عام شہریوں کو چاہیے کہ وہ شجرکاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، صنعتوں میں غیرمعیاری ایندھن استعمال نہ کریں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیں، یہ اقدامات یقینی طور پر مجموعی فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button