ColumnImtiaz Aasi

اٹارنی جنرل کے قاتل کی گرفتاری، فراری ، موت کی سزا

اٹارنی جنرل کے قاتل کی گرفتاری، فراری ، موت کی سزا
نقارہ خلق ( امتیاز عاصی)
پندرہ برس پہلے کی بات ہے سابق اٹارنی جنرل سردار محمد خان جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قریبی دوست تھے کو جائیداد کے تنازع پر اجرتی قاتل اور اس کے ساتھیوں نے قتل کر دیا جس کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں درج ہوا۔ ملزم روح اللہ اور اس کا ساتھی گرفتار ہو کر سنٹرل جیل اڈیالہ آگئے۔ روح اللہ مالی لحاظ سے خاصا مستحکم تھا وہ جتنا عرصہ جیل میں رہا جیل ہسپتال اس کا مسکن رہا۔ پنجاب کی جیلوں میں عام طور پر انہی قیدیوں اور حوالاتیوں کو ہسپتال میں رکھا جاتا ہے جو میڈیکل افسر اور جیل حکام کے ساتھ سب اچھا کرنے کی سکت رکھتے ہوں ورنہ تو کوئی قیدی علیل ہو اسے بیرک سے ہسپتال نہیں لے جایا جاتا۔ اس ناچیز کے مشاہدات کے مطابق کئی سال پہلے تک کینسر کے مریض قیدیوں کو علاج معالجہ کے لئے جیل سے باہر ہسپتال نہیں بھیجا جاتا تھا ۔چند سال قبل مجھے ڈسٹرکٹ جیل اٹک جانے کا اتفاق ہوا تو قتل کے ایک ملزم کو جیل ہسپتال دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی وہ صحت مند اور نوجوان قتل کے مقدمہ میں جیل آیا تھا ۔ اگرچہ میری اس کے ساتھ جان پہچان نہیں تھی لیکن اس سی ملاقات کرنے والوں کو میں جانتا تھا۔ چند ماہ بعد وہ رہا ہوگیا لیکن جتنا عرصہ وہ جیل رہا ہسپتال میں ہی رہا اور باقاعدہ ماہانہ سب اچھا کرتا تھا۔ میں جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی کا نام تحریر نہیں کر رہا کیونکہ میں ان دونوں کو جانتا تھا آج کل ایک زیر عتاب ہے اور دوسرا ایک ڈسٹرکٹ جیل میں ڈپٹی لگا ہوا ہے۔ جن دنوں روح اللہ ڈسٹرکٹ ہسپتال راولپنڈی سے فرار ہوا ان دنوں ایک معروف جیل سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل تعینات تھا جو اب کسی حادثے کا شکار ہو چکا ہے ۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کا آئی جی جیل خانہ جات کے ساتھ بڑ ا گہرا تعلق تھا جیل سپرنٹنڈنٹ اور آئی جی جیل خانہ جات کے آپس میں گہرے تعلقات اسی صورت ممکن ہیں جب جیلر اچھا خاصا سب اچھا کرتا ہو۔ روح اللہ اور اس وقت کے میڈیکل افسر کے بھی آپس میں اچھے مراسم تھے ۔ میڈیکل افسر نے اسے باہر بھیجنے کی سفارشات سپرنٹنڈنٹ کو بھیجی تو انہوں نے بھی وقت ضائع کئے بغیر آئی جی کو فاروڈ کردی ۔ چنانچہ آئی جی کی منظوری کے بعد روح اللہ کو جیل سے باہر ہسپتال بھیج دیا گیا۔ روح اللہ کو ہسپتال گئے چند دن ہوئے تھے کہ خبر آئی روح اللہ ہسپتال سے فرار ہوگیا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں جیل سپرنٹنڈنٹ کے آئی جی کے ساتھ گہرے تعلقات تھے لہٰذا سپرنٹنڈنٹ جیل کو کسی نے نہیں پوچھا اور میڈیکل افسر کے خلاف ملزم کی فراری کا مقدمہ درج کرا دیا گیا ۔ چنانچہ آئے روز اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ حکام کو سپریم کورٹ پیش ہونا پڑتا تھا مگر روح اللہ گرفتار نہ ہو سکا۔ اسلام آباد پولیس نے چیف جسٹس صاحب کے روبرو پیش ہونے سے جان چھڑانے کے لئے کہہ دیا روح اللہ افغانستان فرار ہو چکا ہے لہٰذا اس کی گرفتاری ممکن نہ ہے۔ آخر چند سال بعد روح اللہ گرفتار ہو گیا اور اسے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ چند روز پہلے اسلام آباد کی دہشت گردی کی عدالت نے روح اللہ کو دو مرتبہ موت کی سزا سنائی ہے اور اس کے ساتھی ملزم کو عدم ثبوت کی بنا بری کر دیا گیا ہے۔ ذرائع نے ہمیں بتایا ہے روح اللہ گرفتاری سے سزا یاب ہونے تک سنٹرل جیل راولپنڈی کی ہائی سیکورٹی جیل میں رکھا گیا ہے اور ابھی تک وہیں ہے۔ جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو ہسپتال میں رکھنے کا کوئی باقاعدہ میکنزم نہیں ہے۔ مال پانی والے قیدی اور حوالاتی اب بھی جیلوں کے ہسپتال میں موج مستی میں رہ رہے ہیں۔ سوال ہے کہ ایسے قیدیوں اور حوالاتیوں کو کیسے پکڑا جا سکتا ہے جس کا واحد طریقہ یہی ہے جیلوں میں اچانک چھاپے مارے جائیں جس کا آئی جی جیل خانہ جات کو بھی علم نہیں ہونا چاہیے ۔ جیل کی انسپکشن کرنے والے اچانک رات کو چھاپے ماریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ عام طور پر دھوکہ دہی اور نیب کے مقدمات میں جیل آنے والوں کا مسکن جیل ہسپتال ہوتا ہے وہ جیل آنے سے قبل ہسپتال میں قیام کے انتظامات کرکے آتے ہیں۔ پنجاب حکومت جیلوں میں اصلاحات کی دعویٰ دار ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جیلوں میں اصلاحات کے لئے ایک کمیٹی قائم کی جس کی سفارشات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں ہیں۔ تاسف ہے حکومت جیلوں میں مبینہ کرپشن کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ ہم اگر جیل ملازمین کے ڈیوٹی کے اوقات کی بات کریں تو ان پر ترس آتا ہے وہ صبح چھ بجے جیل کے اندر داخل ہوتے ہیں اور رات گئے جیل لاک آپ تک جیل میں ہی رہتے ہیں۔ جیل کے اندر داخل ہونے کے بعد انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی البتہ ہنگامی حالات میں وہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی اجازت کے بغیر جیل سے باہر نہیں جا سکتے۔ اس صورت حال میں جیل ملازمین کے ناشتے سے دوپہر کے کھانے تک وہ قیدیوں اور حوالاتیوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں کیونکہ جیل کے لنگر خانے سے انہیں کھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ظاہر سی بات ہے جن قیدیوں اور حوالاتیوں سے وہ کھانا اور چائے پانی لیتے ہیں انہیں پھر کچھ نہ کچھ تو مراعات دینی پڑتی ہیں لہٰذا یہیں سے جیل کا نظم و ضبط خراب ہوتا ہے۔ جیلوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں ۔ کئی صحافی دوست اکثر اس بات کا تقاضا کرتے ہیں تمہیں جیلوں کے حالات بارے کتاب تحریر کرنی چاہیے جس پر میرا جواب ہوتا ہے پھر کیا ہوگا۔ جیلوں میں کرپشن کے ایسے ایسے طریقے ہیں انسان ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے۔ اگر جیلر کسی قیدی یا حوالاتی کو معمول سے ہٹ کر سہولتیں دے تو اسے پکڑنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ ہاں البتہ مرحوم عبدالستار عاجز اور طارق بابر جیسے جیلر ہوں تو کوئی قیدی یا حوالاتی جیل مینوئل سے ہٹ کر کوئی سہولت نہیں لے سکتا۔ پنجاب کی جیلوں کو ایسے اعلیٰ افسران ہی ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اے کاش وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز جیلوں میں پائی جانے والی مبینہ کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی اقدامات کریں تو لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

جواب دیں

Back to top button