Column

فیلڈ مارشل کا امن پسند موقف اور عزم

فیلڈ مارشل کا امن پسند موقف اور عزم
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا تازہ بیان جس میں انہوں نے پاکستان کی امن پسند پالیسی اور جنگ کی صورت میں دشمن کو دیے جانے والے جواب کی بات کی، نہ صرف ملکی سیاست اور دفاعی حکمت عملی کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس میں ایک گہرا پیغام بھی موجود ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں نہ صرف ملک کی دفاعی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کیا بلکہ غزوہ احد کی مثال سے یہ ثابت کیا کہ اللہ کی مدد اور ایمان کی قوت سے دشمن کو شکست دی جاسکتی ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں کشیدگی جاری ہے اور دنیا بھر میں خطے میں امن و استحکام کی کوششیں جاری ہیں۔ فیلڈ مارشل نے اس موقع پر جو پیغام دیا، وہ نہ صرف فوج بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے ایک نشان دہی ہے کہ پاکستان کے دفاع کا عزم ہر حال میں پختہ ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور اس کا مقصد ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور امن کا قیام رہا ہے۔ یہ بات نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان ہمیشہ امن کے راستے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ ایک واضح اور دوٹوک پیغام ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور دفاعی صلاحیتوں کے باوجود، اس کا مقصد جنگ کی طرف نہیں بلکہ امن کی طرف رہنا ہے۔ پاکستان کی یہ امن پسندی کی پالیسی نہ صرف عالمی سطح بلکہ اندرونی طور پر بھی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ امن کی حمایت کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے اور اس میں پاکستان کی طرف سے دنیا کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس کا مقصد کسی بھی قسم کی جنگ یا تنازع کا آغاز نہیں۔ اس کے باوجود، فیلڈ مارشل کا کہنا ہے کہ اگر دشمن نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی، تو وہ اسی طرح جواب دیں گے جیسے رواں سال مئی میں دیا تھا، جب پاکستان کی فوج نے دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا۔ اس بیان کا مقصد نہ صرف دشمن کو خبردار کرنا، بلکہ پاکستانی قوم کے اعتماد کو بھی بڑھانا ہے۔پاک فوج کی مئی میں ہونے والی جنگ میں کامیابی اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس موقع پر اس جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سپاہی اللہ کی راہ میں نکلے تھے اور اللہ کی مدد سے پاکستان سرخرو ہوا۔ یہ جنگ محض ایک دفاعی لڑائی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک مظاہرہ تھا کہ پاکستانی فوج اپنے وطن کے دفاع کے لیے کسی بھی سطح پر جانے کو تیار ہے۔ فیلڈ مارشل نے اس جنگ میں پاکستان کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ کامیابی اللہ کی طرف سے تھی اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان جب اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں تو اس کے بعد کوئی
طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کامیابی کا پیغام یہ تھا کہ پاکستانی فوج کا عزم اور حوصلہ کبھی کم نہیں ہوگا، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی اور فوج کا عزم ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مئی کی جنگ میں ملنے والی فتح نے پاکستانی عوام کو ایک نیا حوصلہ دیا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں غزوہ احد کا ذکر کیا، جس میں مسلمانوں نے انتہائی کمزور حالت میں دشمن کا مقابلہ کیا اور اللہ کی مدد سے فتح حاصل کی۔ اس تاریخی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزوہ احد میں جب دشمن کی تعداد بڑھ گئی تھی، تو اللہ کی مدد سے مسلمانوں کو فتح ملی۔ یہ مثال یہ بتاتی ہے کہ ایمان، حوصلہ اور اللہ کی مدد حاصل ہو تو دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔ یہ پیغام نہ صرف پاکستانی فوج بلکہ پوری قوم کے لیے ایک اشارہ ہے کہ جب تک قوم اپنے ایمان اور حوصلے کو مضبوط رکھے گی، دشمن کبھی بھی پاکستان کو شکست نہیں دے سکے گا۔ فیلڈ مارشل کا یہ بیان پاکستان کے قومی اتحاد اور عزم کو بڑھاوا دینے کے لیے اہم ہے اور یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی فوج نہ صرف اپنی دفاعی صلاحیتوں پر یقین رکھتی بلکہ اس کا روحانی اعتماد بھی دشمن کے لیے ایک بڑی طاقت ہے۔آرمی چیف کا یہ بیان عالمی سطح پر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان ایک اہم خطے میں واقع ہے، جہاں امن و استحکام کی ضرورت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا یہ پیغام عالمی برادری کو بھی واضح انتباہ ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے ملک کی حفاظت کی لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی جارحیت کو سختی سے رد کرے گی۔ تاہم، یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان جنگ کے متبادل حل کے طور پر مذاکرات اور امن کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کی فوج اور قوم کے لیے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت ایک جدید دور کی ضرورت ہے۔ ان کے اندازِ قیادت میں نہ صرف فوجی حکمت عملی بلکہ قوم کو یکجا کرنے کی طاقت بھی شامل ہے۔ ان کا حالیہ بیان، جو اللہ کی مدد اور قوم کے عزم پر مرکوز تھا، ایک قوم کی تشکیل کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ پاکستانی عوام، جو کئی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے لیے یہ ایک تحریک ہے کہ اگر وہ متحد رہیں اور اپنے دفاعی اداروں پر اعتماد رکھیں تو پاکستان کبھی بھی شکست نہیں کھائے گا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا بیان نہ صرف ایک دفاعی حکمت عملی کا اظہار ہے بلکہ یہ پاکستان کی قوم کو پیغام بھی دیتا ہے کہ امن کا راستہ اختیار کرنا ہماری ترجیح ہے، لیکن اگر ضرورت پڑی تو ہم دشمن کو ایسا جواب دیں گے جسے وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ غزوہ احد اور مئی کی جنگ میں کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے یہ ثابت کیا کہ جب تک اللہ کی مدد اور قوم کا عزم ساتھ ہو، تب تک کوئی بھی دشمن پاکستان کو شکست نہیں دے سکتا۔ یہ بیان نہ صرف فوج کی قوت اور حوصلے کو اجاگر کرتا ہے بلکہ پاکستان کے قومی اتحاد کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
پاکستان میں پہلی ای وی ایمبولینس متعارف
کراچی میں منعقدہ پاکستان آٹو شو میں ایک اہم اور قابلِ ستائش پیشرفت دیکھنے کو ملی، جب پاکستان کی پہلی الیکٹرک ایمبولینس متعارف کرائی گئی۔ یہ اقدام نہ صرف صحت کے شعبے میں بہتری لانے کی کوشش ہے بلکہ ماحولیات کے حوالے سے بھی مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ مقامی کمپنی نے اس ایمبولینس کو تیار کیا ہے اور اس کا مقصد روایتی پٹرول یا ڈیزل پر چلنے والی ایمبولینسز کی جگہ ماحول دوست اور سستی متبادل فراہم کرنا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں ایندھن کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں، الیکٹرک ایمبولینس پٹرول یا ڈیزل کی نسبت بہت زیادہ اقتصادی ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک بار چارج ہونے پر یہ ایمبولینس 300 کلومیٹر تک سفر کرسکتی ہے، جو صحت کے شعبے میں فوری امداد فراہم کرنے والی گاڑیوں کے لیے اہم خصوصیت ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف ایندھن کی بچت کرے گی بلکہ فضائی آلودگی میں کمی بھی کرے گی، جو پاکستان جیسے ممالک کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ایمبولینس سروسز کا معیار ابھی تک بہت زیادہ قابلِ تعریف نہیں۔ روایتی ایمبولینسز کی بڑی تعداد میں مسائل ہیں، جیسے ان کی تیاری کے اخراجات، ایندھن کی قیمت اور ان کی کارکردگی میں کمی۔ الیکٹرک ایمبولینس کا متعارف ہونا نیا حل فراہم کرتا ہے، جو کم خرچ، زیادہ موثر اور ماحول دوست ہے۔ یہ سروسز کی فراہمی میں انقلاب لاسکتی ہے، خصوصاً ان علاقوں میں جہاں صحت کی سہولتیں محدود ہیں۔مقامی کمپنی کے سی ای او احسان احمد نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ حکومتوں کے علاوہ مختلف این جی اوز بھی اس ایمبولینس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہیں۔ حکومتوں اور نجی اداروں کی جانب سے اس میں دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پروجیکٹ نہ صرف پائیدار بلکہ ملک کے وسیع تر صحت کے نظام میں بہتری لاسکتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی ٹیکنالوجیز کے فروغ میں مدد فراہم کریں، تاکہ عوام کو بہتر طبی خدمات مل سکیں۔ الیکٹرک ایمبولینس کی کامیابی کے لیے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی تک الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ضروری انفرا اسٹرکچر کی کمی ہے، جیسے چارجنگ اسٹیشنز۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرے گا اور عوامی شعور بڑھتا جائے گا، یہ چیلنجز حل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کی قیمت بھی کچھ زیادہ ہوسکتی ہے، لیکن جیسے ہی زیادہ کمپنیوں اور حکومتوں کی جانب سے سرمایہ کاری کی جائے گی، اس کی قیمت میں کمی آسکتی ہے۔ پاکستان میں الیکٹرک ایمبولینس متعارف ہونا بہت بڑی پیشرفت ہے جو نہ صرف ماحولیاتی فوائد کا باعث بنے گی بلکہ صحت کے شعبے میں بھی بہتری لانے کا سبب بنے گی۔ اس کے ذریعے ایندھن کی بچت اور فوری طبی امداد کی فراہمی ممکن ہوگی، جو کہ پاکستان کی صحت کے نظام کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ اس میں حکومت، نجی اداروں اور عوامی سطح پر آگاہی بڑھانا ضروری ہوگا تاکہ اس ٹیکنالوجی کا فائدہ عوام تک پہنچ سکے۔

جواب دیں

Back to top button