Column

زوال کی کہانی، جب خاندان مرنا شروع ہو جاتے ہیں

زوال کی کہانی، جب خاندان مرنا شروع ہو جاتے ہیں
تحریر : علیشبا بگٹی
ایک بار ایک عظیم بادشاہ تھا، اس نے اپنی ریاست کو طاقت، انصاف اور سخت نظم و ضبط سے مضبوط بنایا تھا۔ وہ اپنی فتوحات پر فخر کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ دنیا میں اس سے زیادہ عقل مند کوئی نہیں۔ لیکن بادشاہ کی ایک کمزوری تھی ، وہ اپنے خاندان کو نہ عزت دیتا تھا اور نہ ہی انکو اپنے ساتھ متحد رکھتا تھا۔ تنقید تو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ بادشاہ کے مشیر، بیٹے، اور حتیٰ کہ ملکہ بھی کبھی کبھی اسے مشورہ دیتے کہ وہ خاندان کو متحد کرے ، ساتھ رکھے ان کا خیال کرے ، کچھ فلاح و بہبود کے کام کرے۔ یا کچھ فیصلوں پر دوبارہ غور کرے۔ لیکن بادشاہ سمجھتا تھا کہ اختلاف کمزوری ہے۔ اور بس میں ٹھیک ہوں۔ ایک دن غصّے میں آکر اس نے حکم دیا۔ ’’ جو بھی میرے فیصلوں پر سوال اٹھائے گا، وہ میرے محل سے نکال دیا جائے گا۔ چاہے وہ میرا اپنا خون ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
وقت کے ساتھ ساتھ، ملکہ خاموش ہو گئی۔ بیٹوں نے فاصلہ اختیار کر لیا۔ بھائیوں نے اپنے گھر الگ کر لیے۔ مشیر ڈر کے مارے سچ بولنا چھوڑ گئے۔ بادشاہ اب بھی اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا تھا۔ لیکن گھر اور دربار دن بدن خالی ہوتا جا رہا تھا۔ چند سال گزرے اور بادشاہ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس کا سب سے قریبی خادم بھی اس کی خدمت چھوڑ کر چلا گیا، کیونکہ وہ بادشاہ سے بات کرنے سے بھی ڈرتا تھا۔ بادشاہ نے ایک رات محل کی کھڑکی سے شہر دیکھا۔ گلیاں آباد تھیں، لیکن اس کا اپنا دل سنسان۔ اس نے سوچا۔ ’’ میں نے ساری دنیا جیت لی، لیکن اپنے ہی دل کے لوگ ہار دئیے‘‘۔ وقت کے ساتھ اس کی حکومت کمزور ہونے لگی۔ مشیر چاپلوسی کرتے تھے، اصل حالات بتاتے ہی نہیں تھے۔ فیصلے غلط ہونے لگے، رعایا ناراض ہونے لگی۔ خاندان دور ہوگیا۔ کوئی بھی اسے سچ بتانے والا باقی نہ تھا۔ کیونکہ اس نے خود ہی سب سے دوری پیدا کر دی تھی۔ یوں ریاست بکھرنے لگی۔ اور بادشاہ بھی۔۔ ایک دن بادشاہ اپنی ہی سلطنت کے ایک باغ میں تنہا بیٹھا تھا۔ اور بڑھاپے پر پہنچ کر سوچ رہا تھا کہ ’’ طاقت رکھنے والا وہ نہیں۔ جو سب کو اپنے سامنے جھکا دے، طاقتور وہ ہے۔ جو اپنے لوگوں کو اپنے قریب رکھ سکے‘‘۔ اور یوں ایک دن اپنی خاندان سے دور ، بادشاہ کا قصہ ختم ہو گیا۔ مگر ایک سبق باقی رہ گیا۔ کہ جو شخص اپنے خاندان، اپنے چاہنے والوں، یا اپنے لوگوں کو خود سے دور کر دیتا ہے، وہ آخرکار تنہا اور بے سہار ا ہو جاتا ہے۔ خاندان سے دوری انسان کا سب سے بڑا زوال ہے۔
کچھ دن پہلے کسی نے مجھ سے پوچھا ’’ دنیا کے بڑے بڑے حکمران خاندان آخر کیوں ختم ہو گئے؟ اتنی طاقت، اتنی دولت، اتنی شان، اتنا رعب، پھر بھی ریت کی دیوار کی طرح کیسے گِر گئے؟‘‘۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا’’ زوال کبھی باہر سے نہیں آتا۔ پہلے اندر کے دروازے ٹوٹتے ہیں، پھر باہر کے حملہ آور آتے ہیں‘‘۔
تاریخ اٹھا کر دیکھیں، کوئی بھی خاندان ہو، چاہے رومی ہو، عباسی ہو، عثمانی، مغل، قاجار، قنگ، سب کے زوال کا فارمولا ایک جیسا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں تاریخ بدلتی ہے، مگر سچ یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ وہی غلطیاں دہراتی ہے، صرف کردار بدل جاتے ہیں۔
رومی سلطنت ، 476ء میں جب روم دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ لیکن آخری حکمران محلوں میں بند اور درباری سازشوں میں گم ہو گئے۔ فوج بکھر گئی، خزانہ خالی ہو گیا، اور عوام حکومت سے نفرت کرنے لگے۔ پھر ایک دن جرمن قبائل آئے اور رومولس آگستس کو گھر بھیج دیا۔ روم گِرا نہیں۔ اندر سے کھوکھلا ہو کر ڈھیر ہوا۔
فاطمی خلافت ، 1171ء میں مصر میں فرقہ واریت، سازشیں اور کمزور قیادت نے خلافت کے جسم میں دیمک بھر دی۔ صلاح الدین ایوبی نے جب نظام سنبھالا تو دربار پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ جہاں دربار دانا لوگوں سے خالی ہو جائے، وہاں حکومت زیادہ دیر زندہ نہیں رہتی۔
صلیبی ریاستیں ، 1187ء میں جب یورشلم کی ریاست ایک وقت میں طاقتور تھی، مگر صلیبی خود آپس میں لڑتے رہے۔ دوسری طرف صلاح الدین نے اتحاد بنا لیا۔ اِدھر انتشار، اُدھر نظم، نتیجہ کیا ہوا؟ یروشلم ایک ہی حملے میں ہاتھ سے نکل گیا۔
عباسی خلافت ، جب 1258ء میں بغداد علم کا مرکز تھا، مگر حکمران آرام دہ محلوں کے اسیر تھے۔
طاقت غلام سپاہیوں کے پاس تھی، خلیفہ صرف نام کا بادشاہ رہ گیا۔ منگول آئے، دروازہ کھلا ملا۔ اور دنیا کی سب سے بڑی علمی خلافت مٹی میں مل گئی۔ زوال کا آغاز ہمیشہ آرام دہ صوفوں سے ہوتا ہے۔
1260 ء میں منشوریک (Mongol Empire) ادوار میں جالوت کی شکست کے بعد عملی اتحاد ختم ہونا شروع ہوا۔ 1294 ء میں قبلائی خان کی وفات کے بعد مرکزی اقتدار کمزور پڑگیا۔1368ء میں چین میں منگولوں کی حکومت یوآن سلطنت کا خاتمہ، جسے اکثر منگول سلطنت کے باضابطہ زوال کے طور پر لیا جاتا ہے۔ 1502ء میں سنہری لشکر (Golden Horde) کا خاتمہ، جو آخری بڑی منگول خانیتوں میں سے تھی۔ الغرض عام طور پر مورخین 1368ء کو منگول سلطنت کے زوال کا سال سمجھتے ہیں، جب یوآن سلطنت کو چین سے نکال دیا گیا۔منگول سلطنت کی 14ویں صدی کے وقت جب چنگیز خان نے آدھی دنیا فتح کر لی، مگر اُس کے پوتے اپنی اپنی ریاستیں بنانے لگے۔ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی حکومتیں زیادہ دیر نہیں چل سکتیں۔ تلواریں مضبوط تھیں، مگر دل کمزور پڑ گئے۔ آپس کی بے اتفاقی اور دلوں کی دوری خاندانی اختمام کا باعث بن گئی۔
مغل سلطنت ، 1857ء میں کیوں ڈھیر ہوگئی ؟ جہاں پر اکبر، جہانگیر، شاہجہاں، اورنگ زیب، چار صدیوں تک ہندوستان کے مالک تھے۔ مگر اُن کے بعد دودھ پیتے بچے بادشاہ بنتے رہے اور امیر طاقتور ہوتے گئے۔ صوبے الگ ہوتے گئے، لوگ اور علاقے ہاتھوں سے نکلتے گئے ، فوجیں کم اور پرانی ہتھیاروں والے رہ گئے، اور انگریز جدید ہوگئے۔ اپنے ہی ساتھ چھوڑتے گئے۔ اپنے خاندان کے لوگوں کی بجائے دوسروں کو ترجیح دی گئی۔ تو بہادر شاہ ظفر آخری بادشاہ ثابت ہوئے۔ جب بڑے، اپنے خاندان کے لوگوں اور اپنے دانا و مخلص لوگوں کو باہر اور خوشامدیوں کو اندر بٹھا لیتے ہیں تو تباہی لکھ دی جاتی ہے۔
قنگ (Qing)خاندان ، چین، 1912ء میں جب دنیا بدل رہی تھی ، ریلوے، صنعت، بندوقیں۔ چین اپنی ’’ عظمتِ ماضی‘‘ میں سوتا رہا۔ اندرونی بغاوتیں، بیرونی جنگیں ، اور بچہ بادشاہ پویی حکومت سے محروم ہو گیا۔ جس قوم کو وقت جگا نہ سکے، اُسے حادثہ جگا دیتا ہے۔
عثمانی سلطنت، 1922ء تک یہ سلطنت چھ صدیوں تک قائم رہی۔ مگر آخری صدی میں یورپ صنعتی انقلاب سے دوڑ رہا تھا، اور عثمانی دربار ماضی کی کہانیوں میں کھویا ہوا تھا۔ قومیت، بغاوتیں، بدعنوانی، اور پھر پہلی جنگ عظیم، اور سلطنت تاریخ کے صفحات میں دفن ہو گئی۔
قاجار خاندان ( ایران) ، 1925ء جب کمرشل دنیا بدل رہی تھی، مگر ایران پرانے نظام میں جکڑا ہوا تھا۔ معیشت کمزور، فوج بکھری ہوئی، اور بادشاہ بچہ بنا تھا۔ رضا شاہ نے اقتدار ہاتھ میں لیا اور قاجار قصہ بن گئے۔ کمزور قیادت کسی مضبوط قوم کو بھی زمین بوس کر دیتی ہے۔
تو پھر بنیادی وجہ کیا ہے؟ دنیا کے ہر حکمران خاندان کے زوال میں کچھ چیزیں مشترک رہیں۔ جیسے مغرور اور نااہل حکمران، خاندانی کمزوری اور جانشینی کے جھگڑے ، فوج اور معیشت کا کمزور ہونا ، درباری سازشیں اور کرپشن ، وقت کے تقاضوں سے لاعلمی ، اور سب سے بڑی بات، حکمران جب اپنے خاندان اور اپنے مخلص لوگوں کو نظر انداز کریں اور عوام سے دور ہو جائیں، تو زوال قریب آجاتا ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی خاندان کسی بیرونی دشمن نے ختم نہیں کیا۔ سب اندر سے کمزور ہوکر گرے۔ بس دشمن نے آخری دھکا دے دیا۔

جواب دیں

Back to top button