Column

غمگسار چلا گیا

غمگسار چلا گیا
تحریر : رفیع صحرائی
منیر رضا کلیا بھی چلا گیا۔ یقین ہی نہیں آ رہا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہا۔ اب دوستوں کو اس کی یادوں پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔ وہ جو محفلوں کی جان تھا محفلیں سُونی کر گیا۔ محبتیں بانٹنے والا دائمی جدائی دے گیا۔ صرف اپنے شہر منڈی احمد آباد ہی کو نہیں پورے علاقے کو سوگوار کر گیا۔
موت برحق ہے۔ جو پیدا ہوا ہے اس نے دارِ فانی سے رخصت بھی ہونا ہے مگر بعض لوگوں کی رحلت سے ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جو کبھی بھر نہیں پاتا۔ منیر احمد رضا کلیا بھی انہی شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ کوئی عام شخصیت نہ تھے۔ بہت بڑے انسان تھے۔ نرم مزاج، بردبار، معاملہ فہم، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سراپا خلوص و انکسار شخص تھے۔ الجھے ہوئے مسائل اور معاملات کو اپنی خداد ذہانت اور معاملہ فہمی سے منٹوں میں سلجھا لیا کرتے تھے۔ لوگوں کو جوڑنے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا۔ وہ محبتوں کے سوداگر تھے اور یہ سودا مفت اور ڈھیروں کے حساب سے بانٹا کرتے تھے۔ وہ اپنے شہر ہی نہیں پورے علاقے کا مان تھے۔ ایسے لوگ عشروں میں نہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
منیر رضا کلیا ایک عہد کا نام ہے۔ کلیا برادری کی پہچان تھے۔ باصلاحیت بھی تھے اور باہمت بھی۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد میاں فیض کلیا کی ذاتی رائس مل تھی۔ بڑے نازونعم سے انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کی تھی۔ منیر احمد رضا نے گورنمنٹ کالج اوکاڑا سے گریجویشن مکمل کی تھی۔ معروف صحافی سلمان غنی اور جنید سلیم کے ساتھ اسی دور میں دوستی کا رشتہ استوار ہوا تھا جو آخر تک گرمجوشی کے ساتھ قائم رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ پورے پاکستان میں بسنے والی ہر اہم شخصیت سے ذاتی مراسم رکھتے ہیں۔ بارہا ایسا تجربہ ہوا کہ شہر یا علاقے کا کوئی شخص اپنے کسی کام کی غرض سے آتا، وہ دوستوں سے معذرت کرتے ہوئے فوری اس کی بات سنتے۔ اصل حیرت اس وقت ہوتی جب وہ کسی دور دراز شہر یا علاقے کی اس شخصیت کا نمبر ملاتے جس سے متعلقہ وہ کام ہوتا تھا۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ انہیں کسی سے فون نمبر پوچھنے کی زحمت کرنا پڑی ہو۔ ان کا ٹیلی فون گویا تمام اہم شخصیات کی ڈائریکٹری تھا۔ چھوٹے سے شہر میں رہتے ہوئے انہوں نے جانے کیسے اتنے رابطے بنا لیے تھے اور پھر انہیں قائم بھی رکھا تھا۔
کئی سال پہلے جس روز انہیں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی رکنیت ملی تو بڑے خوش تھے۔ ان کی بیٹی جب یونیورسٹی میں لیکچرار منتخب ہوئیں تو منیر رضا کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ دعوتیں کرنے کے بہت شوقین تھے۔ دوستوں کو اکثر و بیشتر کھانے پر مدعو کرتے رہتے تھے۔ ان کے حالات سے آگاہی حاصل کرتے، ہمیشہ ان کی مدد کے لیے تیار رہتے۔ رمضان المبارک کا پورا مہینہ شہر کے دوستوں کے لیے افطار پارٹی کا اہتمام کرتے۔ ماہِ مقدس کے آغاز سے قبل ہی دوستوں کی فہرست بنا لیتے اور روزانہ کی بنیاد پر دوستوں کو بلوایا کرتے۔
منیر رضا کلیا بہت باہمت اور اولوالعزم انسان تھے۔ مایوس ہونا انہوں نے کبھی سیکھا ہی نہ تھا۔ ان میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جنون تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کا بہت سا سرمایہ کاروبار میں ڈوب گیا۔ کچھ مہربانوں نے قرض کی واپسی میں لیت و لعل سے کام لیا اور وہ قریب قریب دیوالیہ پن کا شکار ہو گئے۔ کوئی اور شخص ہوتا تو حوصلہ ہار کر جی کو روگ لگا لیتا مگر منیر رضا نے نئے عزم کے ساتھ آغازِ سحر کیا اور پھر کاروبار کو اتنی بلندیوں تک لے کر گئے کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ ان کی فارماسیوٹیکل کمپنی نے اتنا عروج حاصل کیا کہ ملک بھر میں ان کی پراڈکٹس پھیل گئیں۔ بہت کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ کوئی صنعت کار دیوالیہ ہونے کے بعد اس طرح سے سنبھلا ہو۔ ان کے بڑے بھائی میاں محمد انور کلیا ان کے لیے ہمیشہ راہنما ستارا بنے
رہے۔ منیر رضا کی یہ بھی خوش قسمتی رہی کہ انہیں انتہائی محنتی، باصلاحیت اور باادب بھائیوں نذیر احمد رضا کلیا اور حافظ اعجاز کلیا کا ساتھ میسر رہا جنہوں نے کاروباری معاملات میں بھرپور معاونت کر کے انہیں سیاست اور خدمتِ خلق کے لیے وقت نکالنے کا موقع دیا۔ ان کا ڈیرہ مظلوم اور دکھی لوگوں کی دادرسی کا مرکز تھا۔ لوگ تھانہ کچہری کی بجائے ان پر زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ کوئی شخص بھی ان کے پاس سے کبھی مایوس نہ لوٹتا۔ جو ایک دفعہ ان سے ملتا ان کا ہمیشہ کے لیے گرویدہ ہو جاتا۔ انتخابات کے دنوں میں ان کا ڈیرہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے قریب ترین دوستوں میں شامل تھے مگر موجودہ وزیر آبی وسائل میاں معین خان وٹو اور ایم پی اے چودھری افتخار حسین چھچھر کے ساتھ بھی برادرانہ مراسم استوار تھے جبکہ علاقہ کی تیسری بڑی سیاسی طاقت سید رضا علی گیلانی ایم این اے کے ساتھ بھی ان کی گہری دوستی تھی۔
پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر اور معروف سیاسی رہنما میاں فیاض قاسم وٹو کے نزدیک منیر رضا بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے جبکہ اوکاڑا سے منتخب ہونے والے سدابہار ایم این اے چوہدری ریاض الحق جج کے ساتھ ان کے گھریلو مراسم تھے۔ اس کے باوجود انکساری کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی عام انسان ان کے سامنے خود کو کبھی چھوٹا محسوس نہیں کرتا تھا۔
بھلے چنگے تھے کہ چند ہفتے پہلے انہیں ڈینگی نے آ لیا۔ اس کا علاج جاری تھا کہ گردوں کا شدید مسئلہ بن گیا اور پھر ان کا دماغ زد میں آ گیا۔ ایور کیئر ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ دماغ پر بیماری نے حملہ کیا تو قوما میں چلے گئے۔ اس خبر سے اہلِ شہر کے ساتھ ساتھ علاقہ بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ہسپتال میں ان کی عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا جبکہ علاقہ کے ہر گھر میں ان کے لیے خصوصی دعائیں مانگنی شروع ہو گئیں۔
علاج بیماری کا تو ہو جاتا ہے لیکن موت کا کوئی علاج نہیں۔ اپنی باری آنے پر سب نے جانا ہے مگر کچھ لوگوں کا جانا دائمی خلا چھوڑ جاتا ہے۔ منیر رضا نے زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ قوما میں جانے کے بعد بھی موت سے لڑتا رہا، خوب لڑا اور آخری دس دن اس نے جان لیوا بیماریوں کا بہادری سے مقابلہ کیا لیکن بالآخر موت جیت گئی۔ اس کی موت کی خبر نے شہر بھر میں سوگ اور سکتے کی کیفیت طاری کر دی۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اب شہر اس کی محبت بھری مسکراہٹ اور شفقت کے سائے سے محروم ہو گیا ہے۔ اس کے جنازے پر قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا۔ لوگ دیواروں سے سر ٹکرا رہے تھے، دھاڑیں مار رہے تھے۔ ایسے رقت آمیز مناظر تھے جنہیں دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ علاقے بھر کا مسیحا، سب کا غمگسار ان کے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا رہا تھا۔ دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹوں کا سبب بننے والا انہیں آنسو دے گیا تھا۔ آج ان کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا۔ سب بے بس تھے۔ تقدیر کے سامنے کس کا بس چلتا۔
آج منیر رضا کلیا منوں مٹی اوڑھ کر آسودہ خاک ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرے اور اس کی خاندان کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔
لے او یار! حوالے رب دے میلے چار دناں دے
اُس دن عید مبارک ہوسی جِس دن فیر مِلاں دے
رفیع صحرائی

جواب دیں

Back to top button