آٹھویں ترمیم سے ستائیسویں ترمیم تک

آٹھویں ترمیم سے ستائیسویں ترمیم تک
تحریر : روشن لعل
پاکستان کے آئین میں ستائیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد حکومت کی طرف سے اٹھائیسویں ترمیم کے لیے تیار رہنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ اس آئین کی تشکیل ، منظوری اور نفاذ کے بعد اس میں کی گئی ترامیم میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس پر تنقید نہ کی گئی ہو۔ آئین کے نفاذ کے بعد اس کے خالق ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور میں ہونے والی سات ترامیم کو بھی تنقید سے مبرا نہیں سمجھا گیا تھا مگر ضیا الحق کی طرف سے کی گئی آٹھویں ترمیم پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئی جو تنقید ہوئی اس کی یہاں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔
ضیاء الحق نے بھٹو کے بنائے ہوئے دستور کا حلیہ بگاڑنے کے لیے جو ترمیم کی اس کی مخالفت کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کہا تھا کہ حکومت بنانے کے بعد وہ سب سے پہلے آئین میں آٹھویں ترمیم کے نام پر پھیلایا ہوا گند صاف کریں گی۔ ضیا الحق کے پروردہ سیاستدانوں کی طرف آٹھویں ترمیم کا دفاع کرنے کے بیانات سامنے آنے کے بعد بھی بے نظیر بھٹو شہید آٹھویں ترمیم کے خلاف اپنے موقف کا اعادہ کرتی رہیں۔
سال 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف کی گئی شدید دھاندلی کے باوجود بے نظیر بھٹو کو حکومت بنانے سے نہ روکا جا سکا۔ گو کہ بے نظیر بھٹو شہید کو مفاہمت کے نتیجے میں حکومت ملی مگر پارلیمنٹ میں ضروری عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود انہوں نے آٹھویں ترمیم کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ بے نظیر بھٹو شہید کی ایسی ہی کوششوں کے ضمن میں پیپلز پارٹی نے آٹھویں ترمیم خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ایک سیمینار منعقد کیا۔ اس سمینار میں جہاں عابد حسن منٹو نے دنیا کے مختلف ملکوں میں نافذ دستوروں کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا کہ اگر آٹھویں ترمیم کو آئین پاکستان میں شامل رہنے دیا گیا تو ضیا کی موت کے باوجود یہاں اس کی آمریت کا تسلسل جاری رہے گا وہاں مرحوم ایس ایم ظفر نے نظریہ پاکستان کے تناظر میں آٹھویں ترمیم کا ہر ممکن دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اپنے مختصر دور حکومت میں بے نظیر بھٹو آٹھویں ترمیم کا بال بھی بانکا نہ کرسکیں۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کی گئی شق 58ٹو بی کا شکار پہلے بے نظیر بھٹو اور پھر نوازشریف کی حکومت ہوئی۔ میاں نوازشریف ایسا ہونے کے باوجود، محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح آٹھویں ترمیم کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت آٹھویں ترمیم کی 58ٹو بی کے تحت ختم کیے جانے کے بعد جب نوازشریف کو ان کی دوسری حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا گیا تو انہوں نے 14ویں ترمیم کے ذریعے 58ٹو بی کا خاتمہ تو کر دیا لیکن آٹھویں ترمیم کی دیگر غلاظتوں کو جوں کا توں رہنے دیا۔ صدر کو 58ٹو بی کے تحت حاصل آمرانہ اختیارات کے خاتمہ کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارلیمنٹ میں 14ویں ترمیم کی منظوری کے وقت نواز شریف حکومت کو غیر مشروط تعاون فراہم کیا مگر بعد ازاں ان کے عدم تعاون کی وجہ سے نوازشریف خود کو امیر المومنین بنانے کی غرض سے پارلیمنٹ میں لائی گئی پندرہویں ترمیم منظور نہ کرا سکے۔ میاں نوازشریف تو آئین کا حلیہ مزید بگاڑنے میں ناکام رہے لیکن بعد ازاں پرویز مشرف نے 17ویں ترمیم کے ذریعے58 ٹو بی کو دوبارہ آئین میں شامل کر کے اسے پہلے سے بھی زیادہ پراگندہ کر دیا۔ میاں نوازشریف جو طویل عرصہ تک ضیا الحق کے آئین میں ڈالے گئے گند کو صاف کرنے سے انکار کرتے رہے انہوں نے مشرف اور ضیا کی آئین میں کی گئی ترامیم کو ختم کرنے کے لیے بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا۔ سال2008 میں زرداری حکومت قائم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین میں ضیا اور مشرف کا ڈالا ہوا گند مکمل طور پر صاف کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ اس وقت میاں نواز شریف،آٹھویں اور سترہویں ترمیم کا گند صاف کرنے کے لیے جس حد تک بھی آمادہ ہوئے اس کی وجہ جمہوریت پسندی سے زیادہ ان کی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی تھی۔ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت ، انہوں نے مشرف کی آئین میں شامل کی گئی دو مرتبہ سے زیادہ وزیر اعظم نہ بننے کی شق کو ختم کرایا۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد جب ان کے لیے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی تو انہوں نے زرداری صاحب کو اس انیسویں ترمیم کی منظوری کے لیے مجبور کرنی میں افتخار محمد چودھری کی سہولت کاری کی جس کے تحت پارلیمنٹ کو ججوں کی تعیناتی میں وہ کلیدی کردار ادا کرنے سے محروم کر دیا گیا جو اسے اٹھارویں ترمیم کی منظور ی کے بعد حاصل ہوا تھا۔
انیسویں ترمیم کے تحت ملک کے چیف جسٹس کو جو اختیارات حاصل ہوئے انہیں اس حد تک آمرانہ طریقے سے استعمال کیا گیا کہ ملک میں جوڈیشل مارشل لا نافذ ہونے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس صاحبان کے مبینہ جوڈیشل مارشل لا کا نشانہ، صرف اراکین پارلیمنٹ اور سیاستدان ہی نہیں بلکہ ان کے لیے ناپسندیدہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی بننے لگے۔ چیف جسٹس صاحبان کو انیسویں ترمیم کے تحت جو اختیارات حاصل ہوئے ان کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جن کی شراکت باہمی سے کی گئی کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں جوڈیشل کارٹل بنائے جانے کا تصور پیدا ہوا۔ ججوں کے مبینہ جوڈیشل کارٹل کی غیر جوڈیشل معاملات میں مداخلت کی وجہ سے ملک میں اس جدوجہد کی سپرٹ کو نقصان پہنچا جو ایک عرصہ سے غیر سیاسی اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف جاری تھی۔ انیسویں ترمیم کے تحت عدلیہ کو جو آمرانہ اختیارات حاصل ہوئے، سیاستدانوں نے اپنی مفاد پرستی اور نا اتفاقی کی وجہ سے کبھی یہ سوچنا گورا نہ کیا کہ اس طرح کی آمریت کے خلاف مل کر مزاحمت کرنا چاہیے یا کی جاسکتی ہے۔ بلاوجہ ایک دوسرے کا دشمن بنے سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپنی مرضی کے مطابق عدلیہ کی آمریت توڑنے کے لیے استعمال کیا ۔ سیاستدانوں کے اس طرح کے استعمال کے تسلسل میں انیسویں کے بعد ستائیسویں تک تمام آئینی ترامیم کی منظوری کو ممکن بنایا گیا۔ ستائیسویں ترمیم کی منظوری کو سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں نے باہمی تعاون سے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ممکن بنایا ہے ۔ اس ترمیم کے نتیجے میں ریاستی اداروں کو بہت کم اور ان سے وابستہ شخصیات کو انفرادی طور پر بہت زیادہ حاصل ہوا ہے۔ آج جو لوگ ستائیسویں ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں ، ان کی اکثریت کا ماضی گواہ ہے کہ وہ ایسا کام کسی قسم کے سنہری اصولوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی تحت معاملات طے ہونے کے دوران ان کی جھولی میں کچھ نہیں گر سکا۔ ستائیسویں ترمیم میں کوئی چاہے جتنے بھی کیڑے نکالے مگر وہ اسے آٹھویں ترمیم جتنا پراگندہ ثابت نہیں کر سکے گا ۔ عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کے لیے ضیا کی آٹھویں اور مشرف کی سترہویں ترمیم کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی وہ بھی آج ستائیسویں ترمیم پر ٹسوے بہاتے نظر آ رہے ہیں۔





