شاہِ اُردن کا دورہ پاکستان: دونوں ملکوں میں کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط

شاہِ اُردن کا دورہ پاکستان: دونوں ملکوں میں کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
وزیراعظم شہباز شریف اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے درمیان حالیہ ملاقات اور معاہدے ایک نئی سمت کی نشان دہی کرتے ہیں، یہ اوامر دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی اور علاقائی امن کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہے۔ 17نومبر کو اسلام آباد میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات نے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں غزہ تنازع، افغانستان، بھارت کے ساتھ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ اس ملاقات کو دونوں ملکوں کے لیے سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان اور اردن کے تعلقات مستحکم ہوں گے، یہ امر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اہم اثرات مرتب کرے گا۔ پاکستان اور اردن کے درمیان تاریخی تعلقات ہمیشہ گہرے اور دوستانہ رہے ہیں مگر حالیہ برسوں میں ان تعلقات میں سرد مہری محسوس کی گئی ہے۔ اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے باہمی تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا، خصوصاً اقتصادی اور اسٹرٹیجک شعبوں میں۔ پاکستان اور اردن دونوں ہی ترقی پذیر ممالک ہیں اور دونوں کا مشترکہ مقصد اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اقتصادی ترقی کی راہیں کھولنا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کریں گے اور جدید تجارتی طریقوں کو فروغ دیں گے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوسکے۔غزہ تنازع کے حوالے سے پاکستان اور اردن کا موقف ہمیشہ یکساں رہا ہے اور دونوں ممالک نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاہ عبداللہ دوم نے غزہ کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کی تعریف کی اور دونوں رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور اردن دونوں ہی غزہ میں جاری انسانی بحران کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے۔ شاہ عبداللہ نے غزہ میں جنگ کے بعد استحکام کی کوششوں میں اردن کے کردار کی اہمیت پر بات کی اور پاکستان نے ہمیشہ اس مسئلے پر اردن کی قیادت کی حمایت کی ہے۔ اس بات پر دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سطح پر مزید سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے پاکستان اور اردن کے درمیان تعاون کو مزید بڑھایا جائے گا۔ پاکستان اور اردن کے درمیان اس ملاقات کا ایک اور اہم پہلو افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات پر بات چیت تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے شاہ عبداللہ کو افغانستان اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے موجودہ تعلقات اور خطے کی سیکیورٹی صورت حال سے آگاہ کیا۔ اردن نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا عہد کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔ ملاقات کے اختتام پر پاکستان اور اردن کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے، جن میں میڈیا، ثقافت اور تعلیم کے شعبے شامل ہیں۔ یہ مفاہمتی یادداشتیں نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی تعلقات کو فروغ دیں گی بلکہ یہ نوجوانوں کے لیے تعلیمی مواقع بھی فراہم کریں گی۔ اس کے علاوہ، میڈیا کے شعبے میں تعاون دونوں ممالک کی عوامی رائے کو بہتر بنانے اور عالمی سطح پر اپنے موقف کو موثر طریقے سے پیش کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ثقافتی تعلقات کے فروغ سے دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کی تاریخ، ثقافت اور روایات سے آگاہ ہوں گے، جو ان کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ ملاقات اور مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ پاکستان کی سفارت کاری کی کامیابی کا غماز ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان اپنے علاقائی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرے اور اس کی خارجہ پالیسی کو حقیقت پسندی کے ساتھ آگے بڑھائے۔ یہ ملاقات اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے اور اتحادیوں کے ساتھ مضبوط روابط قائم رکھنے کے لیے سرگرم ہے۔ پاکستان کا خطے میں امن و استحکام میں اہم کردار ہے اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے اس بات کو تسلیم کیا۔ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پورے خطے میں امن کی فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی امن کے قیام کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون ضروری ہے۔ پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ اردن پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے، تاکہ دونوں ممالک مل کر خطے میں امن کے قیام کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ پاکستان اور اردن کے رہنمائوں کی حالیہ ملاقات ایک سنگ میل ہے، جس کے اثرات نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ دونوں رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کریں گے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھائیں گے۔ اس ملاقات نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان اور اردن دونوں ہی عالمی سطح پر ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور دونوں ممالک کا تعلق خطے میں امن و استحکام کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان مفاہمتی یادداشتوں اور تعاون کے اقدامات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے اور عالمی سطح پر اپنے مفادات کا موثر تحفظ کریں گے۔
پٹرول کی قیمت برقرار، ڈیزل مہنگا
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا، پٹرول کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 6روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اعلان خزانہ ڈویژن سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کیا گیا، جس کے مطابق نئی قیمتوں کا اطلاق اگلے 15دن کے لیے ہوگا۔ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہونے والی یہ تبدیلیاں عوامی سطح پر ہمیشہ توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں، کیونکہ ان قیمتوں کا اثر نہ صرف روزمرہ کی زندگی پر پڑتا بلکہ ملکی معیشت، نقل و حمل، تجارت اور دیگر کئی اہم شعبوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں تو کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، لیکن ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں اضافہ یقینی طور پر عوام اور کاروباری طبقے کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ پٹرول کی قیمت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ حکومت کی طرف سے اہم قدم ہے جس کا مقصد عوام میں پٹرول کے مہنگا ہونے کے خدشات کو کم کرنا ہے۔ پٹرول پاکستان میں روزمرہ کی نقل و حمل، کاروباری سرگرمیوں اور عوامی نقل و حمل میں بنیادی ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اگر اس کی قیمت میں اضافہ کیا جاتا تو اس کا اثر پورے معاشی نظام پر پڑتا اور ہر سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوتا۔ پٹرول کی قیمت کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنا حکومت کی طرف سے عوام کیلئے اہم قدم ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کا استعمال زیادہ تر ٹرانسپورٹیشن، لاجسٹکس اور دیگر انڈسٹریز میں ہوتا ہے اور اس کی قیمت میں اضافی کا اثر ان تمام شعبوں پر پڑے گا۔ جب ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے، تو اس سے نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، جو بالآخر صارفین تک پہنچتا ہے۔ کاروباری طبقہ، خاص طور پر چھوٹے تاجروں اور صنعتکاروں کو بھی اس اضافے سے شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کی وجوہ میں اوگرا اور متعلقہ وزارتوں کی تجاویز کو اہمیت دی ہے۔ تاہم، عوامی فلاح و بہبود کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس طرح کی قیمتوں میں تبدیلیاں صرف وقتی نہیں بلکہ طویل المدت معاشی استحکام کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی یہ تبدیلیاں ایک اور یاد دہانی ہیں کہ معیشت کی ترقی کے لیے حکومت کو توانائی کے شعبے میں درست پالیسیاں اپنانا ہوں گی تاکہ عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی عوامی سطح پر قیمتوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مہنگائی اور معاشی بوجھ میں کمی لائی جاسکے۔ اگرچہ پٹرول کی قیمت کو برقرار رکھا گیا لیکن ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں اضافے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو توانائی کے شعبے میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت میں استحکام قائم رکھا جاسکے۔





