Column

پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام۔۔۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر۔۔۔ انتظامیہ خاموش تماشائی

پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام۔۔۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر۔۔۔ انتظامیہ خاموش تماشائی
تحریر : رانا اقبال حسن
پرائس کنٹرول میکنزم کے لئے حکومت پنجاب نے حالیہ مہینوں میں پرائس کنٹرول میکنزم کو مضبوطی سے نافذ کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس کا مقصد ضروریاتِ عامہ کی قیمتیں مستحکم رکھنا اور گرانفروشوں کو روکنا ہے۔ یہ کریک ڈائون صرف ایک جگہ تک محدود نہیں بلکہ پورے ضلع میں جاری رہتا ہے۔ لیکن فیصل آباد میں پرائس کنٹرول کے عمل میں کوتاہی اور لاپروائی کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں مارکیٹوں میں مسلسل چیکنگ اور غیرقانونی نرخوں پر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پنجاب حکومت نے پرائس کنٹرول کو مزید موثر بنانے کے لیے ایک نئے ادارے کا قیام کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کے زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں اس ادارے کی منظوری دی گئی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال سے مقررہ نرخوں کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا یہ قدم قیمتوں میں استحکام لانے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی امید دلاتا ہے۔
اب ہر ضلع میں پرائس کنٹرول میکنزم کو سختی سے نافذ اضافی اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایگریکلچر آفیسرز کو بھی اس عمل میں شامل کیا گیا ہے تاکہ بازاروں میں شفافیت برقرار رہے۔
اگرچہ یہ اقدامات قابل تعریف ہیں، لیکن گرانفروشی، انسپکشن کی کمزوری اور بازار میں غیر رجسٹرڈ دکانداروں کی موجودگی اب بھی بڑے چیلنج ہیں۔ حکومت کو ان مسائل کا سامنا کرنے کے لیے عوامی شعور بڑھانے اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ریاست کا یہ فرض اولین ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لئے اشیائے خورد و نوش کا مناسب ذخیرہ رکھنے کا انتظام کرے اور ان کی مقررہ قیمت پر شہریوں کو فراہمی کا مناسب بندوبست بھی کرے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973ء کے آرٹیکل میں تو یہاں تک تحریر کر دیا گیا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی سہولتیں جن میں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت شامل ہیں فراہم کرے گی جو مستقل یا عارضی طور پر کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے اپنا معاش کمانے کے قابل نہ ہوں، بیمار ہوں یا بے روزگار ہوں۔۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے لئے اشیائے خوردونوش کا بندوبست کرے، ان کی وہ قیمتیں مقرر کرے جو اس کے شہریوں کی پہنچ سے باہر نہ ہوں اور مقرر کردہ قیمتوں پر سختی سے عمل درآمد بھی کرائے۔
ہمارے ملک میں مہنگائی ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو مافیاز کی ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور حرام خوری جیسی ہوس کا نتیجہ ہے۔ ہر حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مہنگائی ختم کرنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر بات نعروں سے آگے نہیں جاتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ہماری تمام حکومتیں مہنگائی کے جن کو قابو میں لانے میں ناکام کیوں ہیں؟ مسئلہ کہاں پر ہے: قوانین میں یا ان کی عملداری میں؟ ہمارے موجودہ قوانین میں کوئی بڑا سقم موجود نہیں ہے۔ صرف ان کی عملداری میں سرکاری افسروں کی بدنیتی و بد دیانتی، ان کی سیاسی مصلحتیں، ان پر سیاسی دبائو اور ان کے ذاتی مفادات آڑے آ جاتے ہیں۔ ان بے چاروں کو اپنی پوسٹنگ بچانے کے لئے یا اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے کے لئے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ کس کس کا احسان مند ہونا پڑتا ہے؟ اور احسانات کا بدلہ چکانے کے لئے انہیں نہ جانے کہاں تک جانا پڑتا ہے؟
قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے میکانزم میں عام طور پر تین مراحل ہوتے ہیں: اشیائے ضروریہ کی طلب کے مطابق فراہمی، ان کی قیمتوں کا تعین اور مقرر کردہ قیمتوں کے مطابق اشیاء کی فروخت۔ اب ہم باری باری ان مراحل پر بحث کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں تک اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد میں توازن کا تعلق ہے، مرکز اور صوبوں میں منصوبہ بندی کے محکمہ جات موجود ہونے کے باوجود منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ مذکورہ محکمے عضو معطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ عملی طور پر ہوتا یہ ہے ہماری حکومتوں کے کرتا دھرتا، چند بیوروکریٹس کی ملی بھگت سے، پہلے تو اشیائے خورو نوش کو برآمد کر کے مال بناتے ہیں۔ جب ملک میں ان اشیاء کی قلت پیدا ہو جاتی ہے تو وہی اشیاء درآمد کر کے اپنے ’’ ھذا من فضل ربی‘‘ میں اضافہ کرتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ قیمتوں کے تعین کا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا بھی کوئی مخصوص میکانزم موجود نہیں ہے۔ یہ اختیار ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی کو دیا گیا ہے جس میں تاجر تنظیموں کو بھی نمائندگی دی جاتی ہے۔ قیمتیں مقرر کرنے کے لئے مذکورہ کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا جاتا ہے۔ دوران میٹنگ تاجروں کے نام نہاد نمائندے انتظامیہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کے جو نرخ کمیٹی مقرر کر رہی ہے اس پر انہیں فروخت کرنا تاجروں کے لئے ممکن نہیں ہو گا، وہ پھر بھی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ تاجروں کے حقیقی نمائندے ہوتے ہی نہیں، بلکہ انتظامیہ کے من پسند اور چنیدہ احباب ہوتے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرنے کے لئے عام طور پر ضلعی افسروں کے ذریعہ سے ملحقہ اضلاع کے مقرر کردہ نرخ لے لئے جاتے ہیں۔ پھر ان کی روشنی میں مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں کوئی شے کس قیمت پر مل رہی ہے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا، تو یوں ہر ڈپٹی کمشنر اپنی عزت بچانے کے لئے اور اپنے نمبر کھرے کرنے کے لئے دوسرے اضلاع کے مطابق یا اس سے کم قیمت مقرر کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی واہ واہ ہو جائے، اس لئے میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آ ج بھی کوئی ڈپٹی کمشنر وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی طرف سے مقرر کردہ نرخ پر گوشت، دودھ یا دہی مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button