Column

بھارت اور افغان گٹھ جوڑ

بھارت اور افغان گٹھ جوڑ
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسلام آباد دھماکوں کے بعد جو بیان دیا ہے، وہ نہ صرف ایک سیاسی اور سیکیورٹی بیان ہے بلکہ اس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور علاقائی توازن کی ایک عکاسی ملتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے اور بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب پاکستان شدید داخلی اور سرحدی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ خواجہ آصف کا بیان کہ افغان شہری پچھلے حملوں میں ملوث رہے ہیں، ایک سنجیدہ الزام ہے۔ ایسے دعوے نہ صرف پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کے لیے اہم ہیں بلکہ ان کے خطے کی خارجہ پالیسی پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی ایک دیرینہ شکایت رہی ہے کہ افغان سرزمین پر موجود عسکری گروپ یا پناہ گاہیں پاکستانی سرزمین پر دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ وزیر دفاع نے یہ واضح کیا ہے کہ پاکستان افغانستان کو بار بار خبردار کر چکا ہے، مگر ان کے مطابق کابل حکومت ذمے داری قبول نہیں کرتی اور پاکستان کو مجبوراً سخت موقف اپنانا پڑ رہا ہے۔ ایک اور تشویشناک پہلو وزیر دفاع کا دو محاذی جنگ کا بیان ہے، جہاں انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت اور افغانستان دونوں سرحدوں پر تیار ہے۔ یہ بیان صرف محض سیکیورٹی بیانیے کی حد تک نہیں بلکہ ایک جارحانہ اور پالیسی کی سمت کا عندیہ بھی دیتا ہے۔ خواجہ آصف نے اپنے بیان میں یہ بھی ذکر کیا کہ پاکستان کابل کو دہشت گرد ٹھکانوں کی صفائی کے لیے متنبہ کر چکا ہے اور ان کے مطابق وہاں پر ایک سفارتی مشن بھیجا جائے گا تاکہ طالبان حکومت سے واضح کیا جائے کہ کروڑوں کی قربانی کے بعد پاکستان دہشت گردی کی شریعت برداشت نہیں کرے گا۔ یہ قدم ایک جانب سفارتی دبائو کا حصہ ہے، مگر دوسری جانب اس میں یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر یہ کوششیں ناکام رہیں تو پاکستان کو ضرورت پڑنے پر سخت سیکیورٹی اقدامات اٹھانے پڑیں، جیسا کہ وزیر دفاع نے زمین کے آخری کونے تک دہشت گرد عناصر کا پیچھا کرنے کی بات کی ہے۔ خواجہ آصف کا بیان کہ بھارت افغانستان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ علاقائی طاقت سیاست (geopolitics)میں ایک پیچیدہ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پاکستان افغانستان میں بھارتی مداخلت کو خطرہ تسلیم کرتا ہے۔ اس بیان کے ساتھ، پاکستان ایک بین الاقوامی اور علاقائی موقف تیار کر رہا ہے یعنی یہ کہ دہشت گردی کا مسئلہ محض اندرونی سیکیورٹی معاملہ نہیں بلکہ ایک علاقائی سازش ہے، جہاں دوسرے ملک پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر پاکستان اس بیانیے کو مضبوطی سے آگے بڑھائے تو وہ سفارتی سطح پر بھارت اور افغانستان کے خلاف موقف استوار کرسکتا ہے۔ اگر پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کرتے عناصر کا قائل ہے کہ وہ افغان سرزمین سے آرہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی داخلی سیکیورٹی کو مضبوط کرنے کے ساتھ سرحدی تعاون اور نگرانی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو طالبان حکومت سے مذاکرات، بارڈر مینجمنٹ، معلومات کا تبادلہ اور مشترکہ انٹیلی جنس حکمتِ عملی پر زور دینا ہوگا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان اور بھارت پاکستان کو دہشت گردی میں غلط طریقے سے استعمال کرنے والی طاقتیں ہیں۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں۔ افغانستان کو قائل کرنے کے لیے پاکستان ثالث ممالک یا بین الاقوامی تنظیموں کی مدد لے سکتا ہے، لیکن پچھلے ہفتوں اس حوالے سے تمام کاوشیں افغانستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے سود ثابت ہوئیں۔ اقوام متحدہ، اسلامی ممالک یا دیگر علاقائی تنظیمیں اس میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پاکستان کو سرحدی نگرانی، انٹیلی جنس کی صلاحیت اور مشترکہ آپریشنز پر سرمایہ کاری بڑھانی چاہیے تاکہ دہشت گرد عناصر کو سرحد پار منتقل ہونے یا اثاثے استعمال کرنے کی اجازت نہ ملے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صرف عسکری محاذ پر نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی ترقی کے ذریعے بھی لڑی جائے۔ سرحدی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے، تعلیم اور روزگار کے پروگرام دہشت گردی کا طویل مدتی حل فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان سخت مگر صائب موقف کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں افغان سرزمین پر دہشت گرد ٹھکانوں کی موجودگی اور بھارت کی مداخلت کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ بیان پاکستان کی حساس سیکیورٹی صورت حال اور علاقائی چیلنجز کی عکاسی کرتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ پاکستان صرف الزامات پر انحصار کرنے کی بجائے ٹھوس اقدامات اٹھائے، بین الاقوامی شراکت داری تلاش کرے اور اپنے داخلی امن کو یقینی بنانے کے لیے جامع حکمتِ عملی تیار کرے۔ اگرچہ وزیر دفاع کا جذبہ اور عزم قابلِ تعریف ہے، مگر حقیقت میں یہ عزم کامیاب تب ہوگا جب وہ سفارتی، عسکری اور سماجی جہات میں متوازن اور پائیدار پالیسی پر مبنی ہو، اس کے ساتھ مذاکرات اور تعاون پر مبنی امن کی حکمتِ عملی پر زور دینا ضروری ہے۔
پاکستانی معیشت کیلئے مثبت اشارہ
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حالیہ اعلامیہ کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 2کروڑ 20لاکھ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ذخائر کی مجموعی مالیت 14ارب 52کروڑ 46لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ پاکستانی معیشت کے لیے خوش آئند ہے، جس کا مطلب ہے کہ مالی استحکام کی طرف مثبت پیشرفت ہورہی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کسی بھی ملک کی معیشت کا اہم ستون ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے جہاں تجارتی خسارہ مستقل مسئلہ رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بڑا اور اہم سنگ میل ہے۔ جب ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے، تو یہ دراصل ملک کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بڑھاتا ہے، کیونکہ اس سے روپے کی قدر پر دبائو کم ہوتا ہے اور کرنسی کی بے یقینی صورتحال میں استحکام آتا ہے۔ اس کے علاوہ، جب زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوتے ہیں، تو بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے، اس کا نتیجہ براہ راست ملکی معیشت میں بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس اضافے کا سب سے بڑا فائدہ ملکی برآمدات میں بہتری کے رجحان میں نظر آرہا ہے۔ پاکستانی برآمدکنندگان کو جب ملکی کرنسی میں استحکام ملتا ہے، تو وہ عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کو بہتر قیمتوں پر پیش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، جس سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ملک کے اقتصادی اشاریے بھی بہتر ہوتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے اپنے اعلامیے میں ذکر کیا کہ اس اضافے کا تعلق غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی پائیداری میں اسٹیٹ بینک کی مالی پالیسیوں کا اہم کردار ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ عوام اور سرمایہ کاروں کو یقین دلایا جائے گا کہ ملکی مالیاتی پالیسیوں میں شفافیت اور مستحکم اقدامات جاری رہیں گے، جس سے مستقبل میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ یہ بیان پاکستان کے عوام اور کاروباری طبقے کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات اور اقدامات ملکی معیشت کی پائیداری کے لیے کارگر ثابت ہو رہے ہیں۔ اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ایک خوش آئند خبر ہے، لیکن پاکستانی معیشت کو ابھی بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملکی اقتصادی اشاریے ابھی بھی ماضی کی طرح متوازن نہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو مہنگائی، بیروزگاری اور اندرونی سرمایہ کاری کی کمی جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں مزید اضافے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے معاشی اصلاحات کے پروگراموں کو تیز کرے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ پاکستان کے لیے مثبت اشارہ ہے، اس کا اثر نہ صرف مالی استحکام پر پڑے گا بلکہ برآمدات، غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارتی توازن میں بھی بہتری لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ تاہم، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس اضافے کو مزید مستحکم بنانے کے لیے مربوط اقتصادی پالیسیوں پر عمل درآمد کرے تاکہ پاکستان کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکے۔

جواب دیں

Back to top button