Column

نوجوانوں کی بیداری: انقلاب کا پہلا قدم

نوجوانوں کی بیداری: انقلاب کا پہلا قدم
تحریر : انجینئر بخت سید یوسفزئی
پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور یہی وہ طبقہ ہے جو قوموں کے مستقبل کی سمت متعین کرتا ہے۔ جب نوجوان اپنی سوچ کو پختہ کریں، اپنے کردار کو مضبوط بنائیں اور اپنے فیصلوں کو ذمہ داری کے ساتھ اختیار کریں تو مستقبل روشن ہوتا ہے۔ ملک کی سیاست، معیشت اور سماجی ڈھانچے میں نوجوانوں کا کردار صرف ایک آپشن نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اگر نوجوان اپنی توانائی، علم اور ذہانت کو قومی امور میں شامل نہ کریں تو ملک کی رفتار سست پڑ جاتی ہے، فیصلوں میں تازگی ختم ہو جاتی ہے اور تبدیلی محض ایک نعرہ یا خواہش بن کر رہ جاتی ہے۔
پاکستان کا سیاسی ماحول دہائیوں سے اتار چڑھائو کا شکار رہا ہے۔ کبھی جمہوری عمل میں رکاوٹیں آتی ہیں، کبھی نظریاتی بیانیے اتنے شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ قوم تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اداروں کے درمیان طاقت کی کشمکش اکثر سیاسی سمت کو غیر واضح اور بے ہنگم کر دیتی ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوانوں کا مایوس ہونا ایک فطری ردعمل ہے، اور وہ لمحہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب انہیں محسوس ہو کہ ان کی آواز رد کر دی گئی ہے۔ اگر یہ احساس مستقل شکل اختیار کر لے تو قوم اجتماعی بے حسی اور لاتعلقی کی دلدل میں پھنسی رہتی ہے، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب تبدیلی کا عمل رک جاتا ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیاست سے دور رہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اگر نوجوان یہ طے کر لیں کہ سیاست گندی ہے اور اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے تو وہ خود ہی ملک کو ایسے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں جو اسے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سیاست دراصل اجتماعی بھلائی، عوامی فلاح اور اجتماعی ذمہ داری کا نام ہے۔ یہ ہر انسان کی روزمرہ زندگی سے جڑی ہوتی ہے۔ تعلیم کے معیار سے لی کر روزگار کے مواقع تک، بازار کی قیمتوں سے لے کر عدالتی انصاف تک، گھر کے بلوں سے لے کر قومی فیصلوں تک، سیاست ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔
نوجوان فطری طور پر زیادہ توانائی، نئے خیالات اور متحرک سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں سوال کرنے اور نئی راہیں تلاش کرنی کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مگر اگر یہ توانائی صرف سوشل میڈیا کے مباحث، بحث و تکرار، میمز اور جذباتی نعروں میں ضائع ہو جائے تو یہ بیداری آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے لے جاتی ہے۔ سیاسی بیداری کا مطلب صرف پسند یا ناپسند کا اظہار نہیں بلکہ کسی مسئلے کی جڑ تک پہنچ کر اس کا حل سمجھنا ہے۔ اس کے لیے علم، مطالعہ، تحقیق اور دلیل کا استعمال ضروری ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی شعور حاصل کرتا ہے، مگر ورچوئل دنیا حقیقی دنیا کی جگہ نہیں لے سکتی۔ حقیقی سیاست وہ ہے جو سڑکوں، گلیوں، تعلیمی اداروں، کونسلوں، ووٹنگ مراکز اور عوامی اجتماعات میں نظر آئے۔ تبدیلی کے بیج ہمیشہ زمین پر بوئے جاتے ہیں، اسکرینوں پر نہیں۔ بحثیں اور کلپس صرف ذہن کو جگا سکتے ہیں، مستقبل صرف عمل سے بنتا ہے۔
اگر تعلیم یافتہ نوجوان سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں تو پھر فیصلے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہ جاتے ہیں جو نہ علم رکھتے ہیں نہ بصیرت، بلکہ صرف جذبات اور وقتی فائدوں کے تحت چلتے ہیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جس نے کئی مرتبہ قوم کو غلط سمت میں دھکیلا۔ ترقی یافتہ قومیں کبھی بھی علم اور دلیل کو چھوڑ کر نعرے اور جوش پر انحصار نہیں کرتیں۔ نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ پڑھیں، مکالمہ کریں اور یہ سمجھیں کہ قومیں شعور سے بنتی ہیں، شور سے نہیں۔
ماضی میں طلبہ یونینیں نوجوان قیادت کی تربیت گاہ ہوتی تھیں۔ وہاں اختلاف رائے کو برداشت کرنا، دلیل سے گفتگو کرنا اور نمائندگی کا سلیقہ سکھایا جاتا تھا۔ ان یونینوں نے بڑے بڑے رہنما پیدا کیے۔ جب یہ سلسلہ رُکا تو قوم کی قیادت کی رفتار بھی سست پڑ گئی۔ اب وقت ہے کہ طلبہ یونینوں کو منظم اصولوں کے ساتھ دوبارہ فعال کیا جائے تاکہ مستقبل کی قیادت باشعور ہو، جذباتی نہیں۔
مقامی حکومتیں نوجوانوں کے لیے عمل کا بہترین میدان ہیں۔ جو نوجوان اپنے محلے، گلی، اسکول، یونیورسٹی یا شہر کے مسائل حل کرنے میں جُت جاتے ہیں وہ نہ صرف معاشرے کو فائدہ دیتے ہیں بلکہ خود بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ جہاں نوجوان ذمہ داری لیتے ہیں، وہاں یقین اور اعتماد جنم لیتا ہے۔ یہی اعتماد آنے والے بڑے کرداروں کی بنیاد بنتا ہے۔نوجوانوں کے پاس سب سے طاقتور اختیار ان کا ووٹ ہے۔ یہ صرف ایک کاغذ پر نشان نہیں بلکہ قوم کی سمت کا فیصلہ ہے۔ یہ سوچ کہ ’ میرا ووٹ کچھ نہیں بدلتا‘ دراصل ناامیدی کو جواز دیتی ہے۔ جمہوریت تبھی مضبوط ہوتی ہے جب ہر فرد اپنی آواز کو اہم سمجھے۔ اگر نوجوان خاموش رہے تو فیصلے وہ لوگ کریں گے جو انہیں پیچھے رکھنا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں کی شمولیت صرف جلسوں، احتجاجوں یا نعرہ بازی تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ ترقی کے لیے پالیسی سازی، تحقیق، معاشی منصوبہ بندی، سماجی اصلاحات اور قومی تعمیر میں حصہ لینا ضروری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب نوجوان خود پر یقین رکھیں کہ وہ تبدیلی کا مرکز بن سکتے ہیں، نہ کہ صرف تماشائی۔
سیاست میں اخلاقیات سب سے اہم ستون ہے۔ اگر نوجوان غصے، ضد اور انا کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ ماضی کی غلطیاں دہرا دیں گے۔ سیاست کا مقصد جیتنا نہیں، سدھارنا ہے۔ جذبات کو حکمت کے تابع رکھنا ہی پائیدار قیادت کی علامت ہے۔ برداشت، مکالمہ، احترام اور دلیل وہ اوزار ہیں جو معاشروں کو مستحکم کرتے ہیں۔
تبدیلی کو وقت درکار ہوتا ہے۔ انقلاب اور اصلاح دونوں تدریج سے جنم لیتے ہیں۔ جس معاشرے میں لوگ نتائج کی جلدی میں اصول چھوڑ دیتے ہیں، وہاں ترقی کبھی نہیں آتی۔ تبدیلی ایک سفر ہے اور اس سفر کے لیے مستقل مزاجی، استقامت اور خلوص بنیادی شرط ہے۔
پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کی مٹھی میں ہے۔ اگر وہ علم کے ساتھ کردار جوڑ دیں اور عمل کے ساتھ بصیرت کو ملا دیں تو کوئی طاقت پاکستان کی پیش رفت کو روک نہیں سکتی۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب نوجوان اٹھتے ہیں تو تہذیبیں رخ بدلتی ہیں۔
لیکن اگر نوجوان صرف گفتگو میں الجھے رہیں، شخصیتوں کے پیچھے چلتے رہیں، اور منفی سوچ کو اپنی پہچان بنا لیں تو پھر مستقبل کا نقشہ بھی دھندلا ہی رہے گا۔ قومیں تبھی آگے بڑھتی ہیں جب سوچ مثبت اور مقصد واضح ہو۔
وقت کی آواز یہی ہے کہ نوجوان خود سے سوال کریں کہ ان کا کردار کیا ہے؟ وہ اس ملک کی ساخت کا حصہ ہیں یا صرف منظر کا تماشائی؟ قوم کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے ہمت، دیانت اور مسلسل سعی درکار ہے۔
پاکستان کی آج کو کل سے بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو صرف ذاتی فائدے کے بجائے اجتماعی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔ معاشرہ اسی وقت بلند ہوتا ہے جب لوگ اپنی انا سے اوپر اٹھ کر ایک بڑے مقصد کے لیے جیتے ہیں۔
آج پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ ناامیدی، بے عملی اور انتشار کا ہے۔ دوسرا راستہ شعور، بیداری، محنت اور ذمہ داری کا ہے۔ یہ فیصلہ نوجوانوں نے کرنا ہے کہ وہ کون سی سمت کا انتخاب کرتے ہیں۔
اگر نوجوان آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں گے تو پاکستان بدلے گا۔ اور جب پاکستان بدلے گا تو آنے والی نسلیں اس لمحے کو ایک نئے عہد کے آغاز کے طور پر یاد رکھیں گی۔ مستقبل وہی بناتا ہے جو آگے بڑھنے کی ہمت رکھتا ہے۔ اور یہ ہمت صرف نوجوانوں کے پاس ہے۔

جواب دیں

Back to top button