ColumnImtiaz Aasi

امن جرگہ، تجارت اور ججوں کے استعفیٰ

امن جرگہ، تجارت اور ججوں کے استعفیٰ
تحریر : امتیاز عاصی
وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی امن جرگہ کا انعقاد کرنے اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو اس مقصد کے لئے جمع کرنے میں سبقت لے گئے۔ اگرچہ دہشت گردی کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے لیکن مختلف نظریات کی سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو ایک ایسی جماعت کے وزیراعلیٰ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود معتوب سیاسی جماعت ہے۔ اگر ہم یہ نہ کہیں کہ ایک نوجوان وزیر اعلیٰ بازی لے گیا تو غلط نہیں ہوگا۔ اس حقیقت میں دو آراء نہیں ملک و قوم کو دہشت گردی سے جو خطرات لاحق ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ وفاقی دارالحکومت کا واقعہ لے لیں کئی جانیں ضائع ہو گئیں اور کئی زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ سوال ہے سکیورٹی ادارے ایسے خودکش بمبار کا کیا کر سکتے ہیں جو اپنی جان پر کھیل جاتا ہو ۔ وفاقی پولیس کی بڑی کامیابی ہے کم از کم وہ موٹر سائیکل والاتلاش کر لیا ہے جس پر خودکش بمبار سوار ہو کر آیا تھا ۔ ہم امن جرگے کی بات کر رہے تھے ایک طرف جرگہ کے اعلامیے میں افغانستان کے ساتھ تمام تجارتی اور تاریخی راستوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تو دوسری طرف طالبان حکومت نے اپنے تاجروں کو پاکستان کے ساتھ تین ماہ میں تجارت ختم کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ طالبان حکومت کی خود سری دیکھے کہتے ہیں اب پاکستان اس بات کی گارنٹی دے وہ آئندہ بارڈر بند نہیں کرے گا۔ سبحان اللہ یعنی وہ دہشت گردی کرتے رہیں اور ہماری حکومت تماشا دیکھتی رہے۔ تعجب تو اس پر ہے افغانستان کے وزیر اقتصادی امور کا کہنا ہے پاکستان سے غیر معیاری ادویات کی درآمد بند کی جائے گی کیونکہ وہاں سے درآمد ہونے والی ادویات غیر معیاری ہیں۔ افغانستان جو عشروں سے ہمارے ہاں سے ادویات درآمد کرتا آرہا ہے اتنے برس گزرنے کے بعد وزیر موصوف کو ہماری ادویات غیر معیاری ہونے کا راز اب جا کر افشا ہوا ہے۔ گو سمندر نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان ہماری liabilityہے تاہم اس کا مقصد ہرگز نہیں ہوسکتا وہاں سے لوگ ہمارے ملک میں دہشت گردی کرتے رہیں اور ہماری حکومت ان کے لئے بارڈر کھولے رکھے۔ اب یہ راز نہیں رہا ہے افغانستان کے بھارت کے ساتھ راہ و رسم خاصے مضبوط ہیں اور دہشت گردی کے معاملے میں افغانستان کو ہمارے دشمن ملک کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔ جہاں تک امن جرگے کی بات ہے اعلامیہ جو جاری کیا گیا ہے اس میں افغانستان بارے وفاقی حکومت کو کے پی کے حکومت سے مشاورت پر ضرور دیا گیا ہے جو بہت ضروری ہے۔ یہ بات درست ہے تمام سیاسی جماعتوں کا دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق ہے لیکن دہشت گردی کا خاتمہ تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہی کرنا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکن نے افغان بارڈر پر جا کر دشمن سے لڑائی تو نہیں لڑنی ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشاورت کی بات ہے وفاق کو کے پی کے حکومت کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ تجارتی رسم و راہ تو تبھی جاری رہ سکتے ہیں جب طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے گی ورنہ موجودہ حالات میں بارڈر کو کھولا نہیں جا سکتا۔ جرگہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا بند کمروں کے فیصلوں کی بجائے صوبائی حکومت کا اس سلسلے میں اعتماد میں لینا ضروری ہے تاکہ عوامی سطح پر بھی دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کے لئے اقدامات ہو سکیں۔ افغان تاجر اب ایران کے راستے پاکستان میں سامان بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایران کے راستے افغانستان سے آنے والے پھل بھیجنے کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ اب ہم آتے ہیں سپریم کورٹ کے راست باز ججوں کا اپنے منصب سے مستعفی ہونے کی طرف۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے مستعفی ہونے والے ججز سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کوشاں رہے ۔ سبحان اللہ سیاسی مفادات تو سیاست دانوں کے ہوتے ہیں ایک
راست باز جج کو سیاست سے کیا لینا دینا ہوتا ہے۔ حکومت نے آئین میں پے درپے ترامیم کرکے خود کو آئین سے بالاتر کر لیا ہے۔ یہ تو باضمیر جج صاحبان تھے جنہوں نے ان حالات میں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ چلیں مان لیا دونوں جج صاحبان کے کوئی ذاتی مفادات تھے لیکن لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے رکن مخدوم علی خان نے کون سے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے؟ دیکھا جائے تو آئینی ترامیم کے بعد ملک میں آزاد عدلیہ کا تصور ختم ہو گیا ہے اور عدلیہ انتظامیہ کے ماتحت ہو گئی ہے۔ ملک میں کتنی فوجی حکومتیں رہیں کسی نے آئین کے ساتھ اس حد تک کھلواڑ نہیں کیا جیتنا مسلم لیگ نون کے دور میں ہوا ہے۔ درحقیقت مسلم لیگ نون کا ماٹو یہی ہے عدلیہ پر دبائو رکھ کر من پسند فیصلے لئے جائیں۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر لیگی کارکنوں کے حملوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے مسلم لیگ نون عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھنے کی بجائے عدلیہ کو گھر کی لونڈی سمجھتی ہے۔ سابق جسٹس قیوم کا مشہور واقعہ ہے جس میں انہیں بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کے لئے کہا گیا تھا گویا مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے عدلیہ کی آزادی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے استثنیٰ لے کر یہ ثابت کر دیا ہے وہ مستقبل قریب میں اور بھی مبینہ طور پر بے قاعدگیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں ورنہ اگر وہ راست باز ہوتے انہیں استثنیٰ لینے کی چنداں ضرور ت نہیں تھی۔ عام طور سیاست دان طاقتور حلقوں کا گلہ کرتے ہیں ہمارے نزدیک ملکی آئین اور قانون سے کھلواڑ کرنے والے سیاست دان ہیں۔ اگر سیاست دانوں کو اقتدار کی ہوس نہ ہو تو آئین اور قانون سے کھلواڑ نہیں ہو سکتا لہذا طاقتور حلقوں کو ایسے معاملات میں ملوث کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ جب ارکان اسمبلی روپے پیسے کے لالچ میں اپنے ضمیر کا سودا کر لیں اس میں قصور وار خود ہی ہیں کسی اور کو الزام دینا اچھا نہیں۔ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کی بجائے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے آئین میں ترامیم لائے جا رہی ہے۔ سیاست دان ملک و قوم سے مخلص ہوتے آئین میں ترامیم کے لئے رضامند نہیں ہوتے۔

جواب دیں

Back to top button