اب کوئی بچہ اسکول سے باہر نہیں رہنا چاہیے

اب کوئی بچہ اسکول سے باہر نہیں رہنا چاہیے
محمد عمران خان چشتی
پاکستان اس وقت جن بڑے قومی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے، اُن میں سب سے خاموش لیکن سب سے خطرناک بحران تعلیمی زوال ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی تازہ ترین رپورٹ نے پورے ملک میں تشویش کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں دو کروڑ پچاس لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں سے دو کروڑ بچے ایسے ہیں جنہوں نے آج تک کبھی اسکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ہمارے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہیں، بلکہ مستقبل کی معاشی، سماجی اور ملکی ترقی کے لیے بھی بڑا خطرہ ہیں۔ صرف یہی نہیں، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر میں ان بچوں میں 1084ٹرانس جینڈر بچے بھی شامل ہیں، جو پہلے سے معاشرتی تعصب اور محرومی کا شکار ہیں اور جنہیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ایسے بچوں کو تعلیم سے دور رکھ کر ہم انہیں ایک اور نسل کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہر صوبے میں صورتِ حال نہایت تشویش ناک ہے۔ پنجاب میں 96لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جس میں 47لاکھ لڑکے اور 48لاکھ لڑکیاں شامل ہیں۔ سندھ میں 78 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں، جن میں 37 لاکھ لڑکے اور 40 لاکھ لڑکیاں شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 49 لاکھ بچے اسکول نہیں جارہے، جن میں 20 لاکھ لڑکے اور 29 لاکھ لڑکیاں شامل ہیں۔ بلوچستان میں تو صورت حال مزید خوف ناک ہے، یہاں 29 لاکھ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہوسکے، جن میں 14 لاکھ لڑکے اور 15 لاکھ لڑکیاں شامل ہیں۔ اسلام آباد میں بھی معاملہ بہتر نہیں، جہاں 6 سے 16 سال کی عمر کے 89 ہزار بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
یہ اعداد و شمار قومی ترقی کے راستے میں وہ حائل دیوار ہیں جسے گرانا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ رپورٹ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسکول سے باہر بچوں کی تعداد ہر سال 20 ہزار کے اضافے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں۔
ایک ایسا ملک جہاں نوجوان آبادی 60 فیصد سے زیادہ ہو، وہاں تعلیم کا بحران سب سے زیادہ خطرناک اثرات چھوڑتا ہے۔ تعلیم کے بغیر نوجوان نہ ہنر سیکھ سکتے ہیں، نہ ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں اور یوں ملک معاشی بدحالی، جرائم اور بے روزگاری کے چکر میں پھنستا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں معاشی مشکلات بہت بڑھ چکی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، کم آمدن والدین کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں سے کام کروائیں تاکہ گھر کا خرچ چل سکے، لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بچہ مزدور نہیں، ایک مستقبل ہے۔ والدین کو یہ بات ضرور سوچنی چاہیے کہ وقتی فائدے کے لیے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا دراصل ان کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بچہ آج چند سو روپے کما بھی لے تو کیا؟، کل جب وہ بڑا ہوگا اور تعلیم سے محروم ہوگا، تو وہ نہ کوئی بہتر نوکری حاصل کر سکے گا، نہ اپنے خاندان کی ٹھیک طرح سے کفالت کر پائے گا۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ ہر ممکن صورت میں بچوں کو اسکول بھیجیں۔ مشکلات ہوں گی، قربانیاں دینا پڑیں گی، لیکن بچوں کا مستقبل روشن ہوگا تو خاندان کا مستقبل خود بخود بہتر ہوجائے گا۔ اس ضمن میں والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ خود تو اُنہوں نے مشکلات میں زندگی گزار لی، لیکن اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھ کے بہتر مستقبل کی امنگ تو نہ چھینیں۔دوسری جانب وفاق اور صوبائی حکومتوں کو بھی فروغ تعلیم کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سندھ حکومت تعلیم کو بڑھاوا دینے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ دوسرے صوبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وفاق اور صوبے تعلیمی بجٹ میں معقول اضافہ کریں۔ کم آمدن والے خاندانوں کے بچوں کے لیے وظیفے اور فری اسکولنگ کا سلسلہ دراز کیا جائے۔ دیہی علاقوں میں نئے اسکول قائم کیے جائیں۔ خواتین اساتذہ کی بھرتی بڑھائی جائے تاکہ بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ نہ آئے۔ والدین کو بچوں کی تعلیم کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔ میڈیا بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔
ہمیں بطور معاشرہ بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر فرد، ہر محلہ، ہر کمیونٹی کو یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ تعلیم ہی بقا ہے۔ این جی اوز، کمیونٹی گروپس، مذہبی رہنما، اساتذہ، میڈیا، سب کو مل کر یہ پیغام عام کرنا ہوگا کہ بچوں کو کام نہیں، قلم تھماءیں۔
اُن کے ہاتھوں میں اوزار نہیں، کتابیں دیں۔
تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر قومیں کھڑی ہوتی ہیں۔ اگر یہ بنیاد ہی کمزور ہو تو کوئی معاشرہ مضبوط نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کا مستقبل اس کے بچوں کے ہاتھ میں ہے اور بچوں کا مستقبل اسکولوں میں ہے، گلیوں میں نہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام والدین، ہر استاد، ہر شہری اور ریاست مل کر یہ عہد کرے کوئی بچہ اسکول سے باہر نہیں رہے گا۔ کیونکہ اگر ہم نے آج یہ قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلوں کو ایک ایسا ملک ملے گا جس میں اندھیرے زیادہ اور روشنی کم ہوگی۔ تعلیم امید ہے، روشنی ہے، مستقبل ہے۔ آئیں، اس روشنی کو ہر گھر تک پہنچائیں۔





