
جگائے گا کون؟
دو مستعفی جج سیاسی تھے؟
تحریر: سی ا یم رضوان
سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو ججز کے استعفوں کے حوالے سے عالمی میڈیا میں تو کوئی خاص رپورٹ شائع نہیں ہوئی البتہ عالمی میڈیا میں عراق میں سپریم کورٹ کے نو ممبران کے استعفے کے بعد انتخابی عمل پر اثرات کی خبریں آئی ہیں۔ حال ہی میں مکسم میں سپریم کورٹ کے ججز کے استعفوں کے بعد ججوں کے انتخاب کے طریقے پر بحث ہوئی ہے اور ملک کے طول و عرض میں اس پر تجزیہ جات سامنے آ رہے ہیں لیکن گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو معزز سینئر ججوں کے استعفوں کے بعد سے اب تک پاکستان کی عدلیہ کی آزادی پر بحث عروج پر ہے۔ اس ضمن میں 27ویں آئینی ترمیم کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو اعلیٰ عدلیہ کی تقسیم اور عدلیہ کی آزادی پر قدغن قرار دیا جا رہا ہے لیکن اگر حقیقت کی بات کی جائے تو عدلیہ کی آزادی اور آئین کے تحفظ جیسی باتیں کرنے والے یہ جج اور تجزیہ کار صرف ایک سیاسی پارٹی کی محبت میں یہ باتیں کر رہے ہیں کیونکہ ماضی میں جب آئین اور اس سیاسی جماعت کے مفاد کے مابین کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنے کا وقت آیا تھا تو انہی دو مستعفی ججز میں سے ایک نے آئین نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اب اگر وہی معزز جج اپنے استعفیٰ میں یہ لکھ رہے ہیں کہ ’’ خود کو یقین دلانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لوں لیکن حقیقت یہی ہے آئین کی روح پر حملہ ہو چکا ہے اور نئے ڈھانچے جن بنیادوں پر تعمیر ہو رہے ہیں وہ آئین کے مزار پر کھڑے ہیں اور ہم جو عدالتی چُوغے پہنتے ہیں وہ محض رسمی لباس نہیں ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اکثر اوقات یہ لباس خاموشی اور بے عملی کی علامت بن گیا ہے‘‘۔ ریکارڈ میں محفوظ کرنے کے لئے یہ الفاظ سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج جسٹس اطہر من اللہ کے اس استعفے کی تحریر کے ہیں جو انہوں نے 27ویں آئینی ترمیم کے آئین کا حصہ بننے کے بعد صدر مملکت کو لکھا تھا۔ ان کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی استعفیٰ دیا ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت عدلیہ کو حکومت کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس ترمیم کے بعد ملک میں پہلی وفاقی آئینی عدالت قائم کر دی گئی ہے اور جسٹس امین الدین خان اس وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان ججز پر افسوس رہے گا جو اس آئینی عدالت کا حصہ بنیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا ان مستعفی ججوں کی تنقید درست ہے یا آئینی عدالت کا قیام؟ اس ضمن میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ دعویٰ بھی ذہن میں رہے کہ مستعفی ہونے والے ججوں کی سپریم کورٹ پر اجارہ داری پر قدغن لگائی گئی ہے اور پارلیمان نے آئین کی بالادستی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ خواجہ آصف کی بیان سے ہٹ کر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا یہ ترامیم اعلی عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرے گی اور کیا سپریم کورٹ اب حکومت کی تابع ہو کر رہ جائے گی؟ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں تو یہ کہنا ہی مناسب ہو گا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے عدلیہ کی آزادی پر مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مثبت یہ کہ اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ پر کام کا بوجھ کم ہو جائے گا اور دیگر عوامی نوعیت کے فیصلے جلدی ہوں گے اور ترمیم کے ذریعے جو نئی وفاقی آئینی عدالت بنائی گئی ہے وہ صرف آئینی مقدمات اور مسائل پر ہی توجہ دی سکے گی۔ تاہم متعدد قانون دانوں اور ججز کا خیال ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ججز کی تقرری اور تبدیلی میں زیادہ اختیار حاصل کر لے گی۔ ترمیم کے تحت ججز کو دوسرے شہروں میں منتقل کیا جا سکتا ہے اور انکار کی صورت میں انہیں ریٹائر تصور کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس ترمیم کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے۔ جس کا فیصلہ بہرحال اہم ہو گا۔
تاہم یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس امین الدین خان کون ہیں۔ وہ وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس بننے سے پہلے سپریم کورٹ میں 6سال تک بطور جج کام کرتے رہے اور گزشتہ برس 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والے آئینی بینچ کے سربراہ تھے۔ سپریم کورٹ میں آنے سے پہلے جسٹس امین الدین سال 2011ء سے 2019ء تک لاہور ہائیکورٹ کے جج رہے ہیں۔ جسٹس امین الدین سپریم کورٹ کے اس چھ رکنی بینچ کی سربراہی بھی کر رہے تھے جس نے 9مئی کے واقعات میں سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی تھی۔ جسٹس امین الدین کا تعلق پنجاب کے جنوبی شہر ملتان سے ہے۔ قبل ازیں وہ 1987ء میں ہائی کورٹ اور 2001ء میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے اور بطور وکیل پریکٹس کے دوران دیوانی یعنی سول نوعیت کے مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔ واضح رہے کہ جسٹس امین الدین کے علاوہ 6ججز کا بطور جج وفاقی آئینی عدالت کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ ان ججز میں سپریم کورٹ کے تین جج شامل ہیں جن میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس روزی خان سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کریم خان آغا اور پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ارشد حسین شاہ بھی اس عدالت کے ججز میں شامل ہیں۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد اس عدالت کے پاس وہی مقدمات بھیجے جائیں گے جن میں آئینی نقطے اٹھائے گئے ہوں یعنی ایسے مقدمات جس میں ریاست کو فریق بنایا گیا ہو۔ ملک کی مختلف ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف، جن میں انکم ٹیکس اور ریونیو کے مقدمات شامل ہوں گے، ان کی سماعت بھی وفاقی آئینی عدالت ہی کرے گی۔ اس کے علاوہ اگر سپریم کورٹ میں زیر سماعت کسی مقدمے میں آئینی نقطہ اٹھایا گیا ہو تو اسے بھی آئینی عدالت میں منتقل کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ اس عدالت کے پاس از خود نوٹس لینے کا اختیار بھی ہوگا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس نوعیت کی آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ صرف ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا نہیں تھا بلکہ وکلا برادری بھی یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ ملک میں ایک الگ سے ایسی عدالت ہو جو صرف آئینی نوعیت کے مقدمات سنیں کیونکہ سپریم کورٹ میں گزشتہ 18سالوں کے دوران ایسے مقدمات کو ترجیح دی جاتی رہی ہے جو کہ سیاسی نوعیت کے تھے اور سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کئی کئی ہفتے تک سپریم کورٹ میں چلتی رہتی جبکہ عام سائلین کے مقدمات عرصہ دراز سے زیر التوا رہنے کے بعد پینڈنگ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ آئینی عدالت کے قیام کے بعد اس بات کے امکانات روشن ہو گئے ہیں کہ کم از کم لوگوں کو انصاف کی فراہمی تو جلد ممکن ہو گی۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ بدقسمتی سے کچھ ججز سیاسی ایجنڈے کو آگے لے کر چل رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ججز میں تقسیم پیدا ہوئی بلکہ ججز کے درمیان باہمی اختلافات بھی شدت اختیار کر گئے حالانکہ ججز کو تو اپنے زیر سماعت مقدمات میں عوام کو ریلیف دینے کی بات کرنی چاہیے نہ کہ کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے عدلیہ کو ہتھیار بنا لینا چاہیے۔
کسی بھی باشعور اور آزاد رائے رکھنے والے پاکستانی سے پوچھ لیں تو وہ بے ساختہ یہی کہے گا کہ پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کا ماضی اتنا تابناک نہیں رہا جس پر فخر کیا جا سکے اور عدلیہ کے دامن پر اس نوعیت کے بدنما داغ لگانے کے ذمہ دار اسی طبع کے ماضی اور حال کے وہ جج ہیں جنہوں نے آج استعفوں پر مذکورہ بالا انقلابی جملے تحریر فرمائے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں اعلی عدالتوں میں ججز کی تعیناتیوں کا معیار صرف یہ تھا کہ یا تو وہ کسی جج کا قریبی ہو یا پھر ملک کے کسی بڑے وکیل کے چیمبر میں کام کرتا ہو۔ آج پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ وکلا کا ایک دھڑا جو اس آئینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی عدالت کی مخالفت کر رہا ہے وہ اقلیت میں ہے ورنہ اگر یہ رائے اکثریت میں ہوتی تو بنچ اور بار دونوں سڑکوں پر ہوتے۔ سوشل میڈیا پر بھی آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے ان احتجاجی اور مستعفی ججز کے حق میں جو طبقہ پیدا ہو گیا ہے وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ بہتر ہوتا کہ اس آئینی ترمیم سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کے ساتھ بھی مشاورت کر لی جاتی تاکہ اگر ان ججز کے اس حوالے سے کوئی خدشات تھے تو ان کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جاتی۔ وکلا کا ایک وہ دھڑا جو سافٹ قسم کا احتجاج کر رہا ہے۔ ان کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس احتجاج میں اس وقت تک شدت نہیں آ سکتی جب تک کہ سول سوسائٹی ساتھ نہ دے۔ جبکہ اگر اس آئینی ترمیم کے خلاف کوئی درخواست دائر کی جائے گی تو اس کی سماعت بھی وفاقی آئینی عدالت ہی کرے گی اور کون سے ایسے جج ہوں گے جو اپنی ہی عدالت کے قیام کے خلاف آئی ہوئی درخواست کی سماعت کریں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے دو مستعفی ججوں، جسٹس منصور علی خان اور جسٹس اطہر من اللہ، نے اس ترمیم سے قبل اس پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط لکھے تھے اور اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج تھے۔
تاہم اس شدید تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ’’ یہ جج سیاسی اور ذاتی ایجنڈا پر تھے اور اُن کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ وہ سیاسی معاملات یا پارلیمان کی کارکردگی پر تنقید کریں‘‘۔ انہوں نے جسٹس منصور کے استعفے کے چند جملوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس استعفیٰ کو ’’ سیاسی تقریر اور سیاسی تحریر‘‘ قرار دیا۔
ان تمام حقائق اور تبصروں سے ہٹ کر اگر ملکی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ 27ویں ترمیم پہلی ضرب ہے جو ایگزیکٹو نے عدلیہ پر لگا کر اس کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ عدلیہ ماضی میں کئی بار ایگزیکٹو کو تباہ کرنے کی کوشش کر چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کی عدلیہ نے ماضی میں تقریباً ہمیشہ ہی فوج کا ساتھ دیا۔ اب اگر فوج راہ راست پر آئی ہے تو یہ جج اس کے خلاف انقلابی محاذ بنانے کی ناکام کوشش میں گھر چلے گئے ۔ اب حکومت کا یہ سوال بہرحال لاجواب و برقرار رہے گا کہ کیا یہ مستعفی جج سیاسی تھے؟ ۔





