آخری انتخاب

آخری انتخاب
محمد مبشر انوار
معرکہ حق و باطل میں آخری فتح یقینی طور پر حق کی ہونی ہے لیکن اس معرکہ میں کتنے مردان حر کام آئیں گے اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ معرکہ روز ازل سے جاری ہے اور نا قیامت جاری رہے گا۔ اس معرکہ میں غیر مسلموں کے ساتھ بروئے کار آنے سے قبل داخلی طور پر جب تک صفیں درست نہیں ہوں گی، تب تک دشمنوں کے ساتھ دو ہاتھ کرنے میں ہچکچاہٹ و بے یقینی رہے گی۔ داخلی صفوں میں معاملات درست کرنے کے لئے صرف جذبہ ایمانی ہی نہیں بلکہ نظام حکومت کی درستی و توازن و عدل انتہائی ضروری ہے جبکہ لمحہ موجود میں دنیا بھر میں کہیں بھی نظام حکومت کی سو فیصد درستی کے متعلق حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا البتہ کئی ایک ریاستوں میں نظام بہرطور بہتر طریقے سے بروئے کار آ رہا ہے اور عوام الناس اس سے مطمئن ہیں۔ پاکستان میں نظام حکومت ہی تا حال واضح نہیں کہ کہنے کو یہ ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے لیکن یہاں نہ قوانین اسلامی ہیں اور نہ ہی کہیں جمہوریت دکھائی دیتی ہے، حکومتی ارکان ببانگ دہل ہائبرڈ نظام کو تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ لمحہ موجود میں یہ نظام ہی درحقیقت ان کی طاقت و حکومت کی بیساکھی ہے لہذا اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت گنوانے میں حکومتی ارکان و وزرا کو کوئی امر مانع دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف اگر مخالفین ایسے نظام حکومت کے ساتھ برسراقتدار ہوں تو یہی تابغہ روزگار بظاہر حلق پھاڑ پھاڑ کر جمہوریت، جمہوری اقدار اور ووٹ کو عزت دو کی گر دان کرتے دکھائی دیتے نظر آتے رہے ہیں لیکن پس پردہ اسی سہولت کی خاطر ،گاڑی کی ڈکی میں گیٹ نمبر چار پر حاضریاں بھی جاری رہی۔ اس سے قطعا یہ مراد نہیں کہ موجودہ حکمرانوں یا ان کے مخالفین نے اگر ہائبرڈ نظام میں اقتدار حاصل کیا تو وہ کسی بھی قابل ستائش ہیں یا ذاتی پسند یا نا پسند پر ایک کے لئے گنجائش اور دوسرے پر تبری بھیجا جائے، کہ اصولی طور پر یہ طریقہ کار ہی جمہوری اقدار کے خلاف ہے اور کسی بھی طور قابل ستائے ہرگز نہیں، خواہ مرتکب کوئی بھی ہو۔ اس وقت بھی جو داؤ پیچ آئینی و قانونی حوالے سے کھیلے جارہے ہیں، ان سے واضح ہے کہ ایک طرف اس ہائبرڈ نظام کا طاقتور فریق اپنے تئیں، پیش منظر میں آئے بغیر حالانکہ دنیا بھر کو یہ معلوم ہے کہ ریاست پاکستان میں طاقت کا منبع و ماخذ اس وقت کہاں ہے، تمام تر اختیارات اپنے قبضے میں کرنے کے درپے ہے ۔ ان اختیارات کو اپنے قبضہ میں کرنے کے لئی، کٹھ پتلی پارلیمنٹ کو صرف اشارہ ابرو ہی کافی ہے اور پارلیمنٹ بے دام غلاموں کی مانند، بغیر سوچے سمجھے اپنے اختیارات کو طاقتور کی طرف باقاعدہ منتقل کرتی جارہی ہے۔ اسی کے حوالے سے میں نے اپنی گزشتہ تحریر بعنوان ’’ راستہ ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ 26ویں آئینی ترمیم میں جو کچھ ہوا، جس طرح آئین کی بنیادی روح پر کچوکے لگے، اسے تار تار کیا گیا، جمہوری اقدار کی بے حرمتی کی گئی، مخالفین کی نشستوں پر ڈاکہ مارا گیا، عدلیہ کی آزادی کو پابہ زنجیر کیا گیا، ابھی اس کے زخم ہی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ 27ویں ترمیم کا نیا ڈول ڈالا جا چکا ہے۔ مقام صد افسوس کہ اس ترمیم میں جو نئے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں، اس قانون سازی کے بعد، ریاست کو’’ بنانا ریپبلک یا فاشسٹ ریاست‘‘ کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے، میری سمجھ سے باہر ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ ریاست دنیا کی نمبر ایک ریاست تصور ہو گی تو دوسری طرف اس امر کا بھی شدید امکان ہے کہ مسلمہ ریاستی قوانین و اصول و ضوابط کے خلاف قوانین بنانے میں بھی اس ریاست کا نمبر پہلا ہو جائے گا کہ لمحہ موجود میں ایسی کوئی ریاست دکھائی نہیں دیتی جو جیورس پروڈنس کے اصولوں کے خلاف عمل پیرا ہو۔ ایسے ہائبرڈ نظام کی کوئی شکل کہیں دکھائی نہیں دیتی جو صورتحال اس وقت پاکستان میں نظر آ رہی ہے یا جو مجوزہ آئینی ترمیم کے بعد متشکل ہونے جا رہی ہے۔ ساری دنیا میں عدلیہ کی آزادی، نہ صرف تحفظ آئین بلکہ عوامی حقوق کی نگہبان تصور ہوتی ہے، ججز کی تعیناتیوں کو سیاسی مداخلت سے باہر رکھا جاتا ہے، عدالتی انتظامی اختیارات تک ریاستی انتظامی رکن کے تحت کرکے، عدلیہ کو حکومت کا ماتحت ’’ محکمہ‘‘ بنایا جا رہا ہے تا کہ عدلیہ فیصلوں میں آزادانہ روش اختیار نہ کر سکے۔ عدلیہ کے اختیارات میں عدم توازن پیدا کیا جا چکا ہے اور افسوس تو اس امر پر ہے کہ عدلیہ کے جج صاحبان اس واردات پر مہربہ لب ہیں بلکہ ان کا انداز فکر ایسا ہے اور مقننہ کے اختیار پر ایسے گنگ ہیں کہ جیسے قانون سازی سو فیصد آئین کے بنیادی ڈھانچے کے اندر ہو رہی ہے اور کوئی بھی ترمیم ماورائے آئین ہے ہی نہیں۔ اس حرکت سے بصد احترام اختلاف رائے کرنے کی جسارت ضرور کرونگا کہ جس آئین میں ایسی شرمناک ترامیم کی جا رہی ہیں، وہ آئین ایسی ترامیم کو’’ ماورائے آئین‘‘ قرار دینے کی طاقت ان ججز کو عطا کرتا ہے بشرطیکہ جج اس واردات کا کماحقہ احساس، اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر کر سکیں وگرنہ طوق غلامی عدلیہ کے گلے میں پہنایا جا چکا ہے اور نجانے کب تک یہ طوق اس کے گلے میں لٹکا رہے گا۔ یہی آئین ہے جو عدلیہ کو ریاست کا تیسرا اہم ادارہ تسلیم کرتا ہے، اس کی آزادی کا علمبردار ہے اور اس کی طاقت کا تعین کرتا ہے جسے کوئی بھی آئینی ترمیم تبدیل نہیں کر سکتی مگر موجودہ مقننہ دھڑلے سے ایسی ترامیم کر رہی ہے اور ججز ان ترامیم کو بغیر حیل و حجت و دلیل کے آئین کا حصہ تسلیم کر کے، اپنے ذاتی مفادات کی خاطر، اپنے اختیارات حکومت کے سپرد کر رہے ہیں، عدلیہ کے پائوں پر کلہاڑا مار رہے ہیں، جس کو آنے والا مورخ انتہائی شرمناک انداز میں ضبط تحریر میں لائے گا جس میں ان ججز کی اہلیت پر یقینی طور پر سوالیہ نشان ہوگا‘‘۔
سابقہ تحریر شائع ہونے تک یہ گمان تھا کہ عدلیہ بھی صم بکم ہو چکی اور اس ادارے میں بیٹھے معزز و بہادر جج صاحبان کے سامنے کوئی راستہ بچا ہی نہیں کہ وہ اس ڈاکے کے خلاف کوئی اقدام کر سکیں لیکن اس خام خیالی کو زبردست جھٹکا تیرہ نومبر کی شام عدالت عظمیٰ کے دو معزز جج صاحبان کے استعفیٰ نے پہنچایا۔ محترم جسٹس سید منصور علی شاہ اور ان کے رفیق دیرینہ جسٹس اطہر من اللہ نے مستعفی ہونے سے قبل، اپنے اہم ترین خطوط، اپنے سخت تحفظات کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کئے کہ کسی طرح آئین پر مارے جانے والے شب خون کا تدارک کیا جاسکے لیکن افسوس صد افسوس کہ چیف جسٹس ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے میں ناکام رہے اور جب ستائیسویں آئینی ترمیم کے مسودے پر صدر پاکستان کی جانب سے دستخط کر دئیے گئے تو دونوں معزز جج صاحبان کی جانب سے باقاعدہ استعفے بھجوا دئیے گئے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ ان دونوں جج صاحبان کا ذاتی کردار اس سارے بحران میں کیا رہا ہے اور مستقبل میں یہ دونوں جج صاحبان کیا کریں گے، ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ جہاں تک بات ماضی میں ان کے کردار کی رہی ہے بالخصوص عمر عطا بندیال اور قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ان جج صاحبان نے کیا کردار ادا کیا ہے اور انہیں کیا کردار ادا کرنا چاہئے تھا، اس پر متضاد آراء ہو سکتی ہے اور ہر رائے کے پیچھے بہرطور کوئی ٹھوس وجہ بھی ہو سکتی ہے تو کہیں ذاتی خواہش کا اظہار تو کہیں توقعات کا انبار بھی ہو سکتا ہے۔ بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ ممکنہ طور پر ماضی میں کی گئی غلطیوں یا غلط فیصلوں کے باعث، جو کچھ عدالت عظمی کی راہداریوں میں ہوتا رہا ہے، اس کا خمیازہ تو ہم بھگت ہی رہے ہیں لیکن میری دانست میں یہ سمجھنا کہ ان دونوں ججز نے دانستہ یہ غلطیاں کی ہیں، مناسب نہیں لیکن اگر واقعتا دانستہ کی گئی ہیں تو اس کا جواب ان ججز کو نہ صرف مل چکا ہے بلکہ ابھی تک اس کو بھگت رہے ہیں۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ ان ججز کو کفارہ ادا کرنے کے متعلق سوچنا چاہئے اور کسی بھی طرح اس خسارے کے ازالے کے لئے میدان میں نکلنا چاہئے، ان کی دانست میں ان ججز نے جو نیک نامی کمائی ہے، اب اس نیک نامی کو کیش کروانے کا وقت ہے، انہیں عوام میں نکل کر آئین پر مارے گئے شب خون کے خلاف عوام کی قیادت کرنی چاہئے۔ بظاہر یہ ناممکن امر بھی نہیں لگتا کہ کئی ایک سابق جج صاحبان عوامی سیاست میں مشغول ہیں اور بہرطو ر اپنی حتی المقدور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سوئے ہوئے عوام کو جگایا جائے، لیکن عوام ایسے بے سدھ سوئے ہیں کہ اسے ان معاملات سے بظاہر کوئی سروکار دکھائی نہیں دیتا بالخصوص پنجاب میں اگر عوام جاگنا بھی چاہیں تو مسلط کردہ حکومت چادر و چار دیواری کا تقدس یوں پامال کرتی ہے کہ عوام کو مجبورا سونا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں مستعفی جج صاحبان کو یہ مشورہ دینا کہ وہ عوامی قیادت کے لئے خود کو پیش کریں اور عمران خان کے حقیقی آزادی کے علم کو اٹھا کراس تحریک میں نئی روح پھونکیں، موجودہ حالات میں ناقابل عمل مشورہ ہی دکھائی دیتا ہے بصورت دیگر ان ناقدین کا خیال ہے کہ ان ججز کو مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر ہی مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ حالانکہ میری رائے یہ ہے کہ ان جج صاحبان نے نظام کے اندر رہتے ہوئے، اپنے ہی دائرہ کار میں رہتے ہوئے، آخر وقت تک اپنی کوششیں کی، حتی کہ چھبیسویں آئینی ترمیم پر ان کا موقف واضح رہا اور وہ اسی کوشش میں رہے کہ کسی طرح نظام کے اندر رہتے ہوئے، آئینی کتربود کے خلاف بروئے کار آئیں لیکن جب تمام تر امیدیں اور قانونی راستے ختم ہو گئے، تو اس ادارے سے الگ ہو جانے کا حتمی فیصلہ کیا۔ ان ججز کو دئیے جانے والے مشوروں اور اکسانے والی تحریروں و تجزیوں پر بہرطور فیصلہ ان ججز کا ہو گا کہ آیا وہ دیگر مستعفی ججز کی طرح گوشہ گمنامی میں جاتے ہیں، دنیا بھر کے مختلف اداروں میں لیکچررز دیتے ہیں یا عوامی حقوق میں سڑکوں پر نکلتے ہیں، آخری انتخاب مستعفی جج صاحبان کا ہو گا۔





