Column

رواداری: انسانی زندگی اور اخلاق کی بنیاد

رواداری: انسانی زندگی اور اخلاق کی بنیاد
شہر خواب۔۔۔
صفدر علی حیدری
آج کچھ رواداری پر بات ہو جائے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ رواداری ہے کس چیز کا نام۔
رواداری ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو دوسروں کے نظریات، عقائد، رائے، ثقافت اور طریقۂ زندگی کا احترام کرنا سکھاتا ہے، چاہے وہ ان سے مختلف کیوں نہ ہوں۔ یہ صرف برداشت یا صبر نہیں، بلکہ ایک فہم، شعور اور اخلاقی طاقت ہے جو اختلافات کو تصادم کا سبب نہیں بننے دیتی بلکہ انسانوں کو پرامن بقائے باہمی کی طرف لے جاتی ہے۔
رواداری اخلاقی اقدار کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو ہے۔ یہ فرد کی شخصیت کی شرافت کی علامت ہے اور معاشرت میں امن، برابری، اور ہم آہنگی قائم کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر مذہب کی تعلیمات میں یہ بنیادی نکتہ موجود ہے کہ انسان کو دوسروں کے عقائد اور نظریات کا احترام کرنا چاہیے اور اختلافات کے باوجود محبت اور بھائی چارے کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔
یہ صفت صرف اخلاقی اصولوں تک محدود نہیں بلکہ یہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی استحکام کا ذریعہ ہے۔ جب افراد اور اقوام رواداری کو اپنا لیتے ہیں تو معاشرت میں نفرت، تعصب، اور تشدد کی گنجائش کم ہو جاتی ہے اور تعلقات مضبوط بنتے ہیں۔
عالمی سطح پر رواداری کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی ہے۔ انسانی تاریخ میں اختلافات، تصادم، جنگ و جدل اور نفرت کی کئی مثالیں موجود ہیں، جن میں فرقہ واریت، نسل پرستی، اور مذہبی تعصب نے انسانی زندگی کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔
عالمی سطح پر اس مسئلی کے حل کے لیے یونسکو (UNESCO)نے 1995ء میں 16نومبر کو عالمی یوم رواداری کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں انسانیت، ثقافتی تنوع، اور مختلف نظریات کے احترام کو فروغ دینا ہے۔ یونسکو کا ماننا ہے کہ رواداری نہ صرف امن قائم کرنے کی بنیاد ہے بلکہ یہ تعلیم، ترقی، اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے بھی ضروری ہے۔
تاریخی مثالیں اس بات کی گواہ ہیں کہ جہاں رواداری کو نظر انداز کیا گیا، وہاں تنازعات اور جنگوں نے انسانی زندگی کو شدید متاثر کیا۔ مثلاً: یورپ میں مذہبی جنگوں اور قتل و غارت نے لاکھوں انسانوں کی جانیں لیں اور معاشرتی ترقی کو سست کر دیا۔
مختلف مذاہب کے ساتھ رواداری کے اصول اپنانے سے معاشرتی، علمی اور ثقافتی ترقی ممکن ہوئی۔ یہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں نے مل کر فلسفہ، سائنس، ادب اور فنون میں عظیم ترقی کی۔
ہندو، سکھ، مسلمان اور عیسائی کمیونٹیز نے صدیوں تک ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کیا، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور ثقافتی ترقی ممکن ہوئی۔
یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ رواداری نہ صرف انسانی اخلاق کی علامت ہے بلکہ معاشرتی ترقی اور امن کا بنیادی ستون بھی ہے۔
رواداری صرف نظریاتی تصور نہیں بلکہ ایک عملی اور اخلاقی رویہ ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس کے اہم پہلو درج ذیل ہیں:
اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی نہیں سمجھنا اور دوسروں کی رائے کو تسلیم کرنا۔
ہر فرد کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم کرنا، بغیر کسی تفریق کے۔
اختلافات کو تصادم کی بجائے گفت و شنید اور مفاہمت کے ذریعے حل کرنا۔
مختلف زبانوں، ثقافتوں، اور مذاہب کے احترام سے معاشرت میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
معاشرے میں شعور بیدار کرنا کہ اختلافات کوئی خطرہ نہیں بلکہ ترقی اور معاشرتی ہم آہنگی کا ذریعہ ہیں۔رواداری کا تعلق اخلاقی شعور، ذاتی کردار، اور سماجی تعلقات سے ہے۔ ایک فرد جو روادار ہوتا ہے، وہ نہ صرف اپنی زندگی میں سکون پیدا کرتا ہے بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی احترام اور اعتماد پیدا کرتا ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ مختلف الہامی اور غیر الہامی مذاہب نے رواداری کے متعلق کیا کہا ہے اور اس سے انسانیت اور معاشرت کو کس طرح فائدہ پہنچتا ہے۔
اسلام میں رواداری اور برداشت کی تعلیم بنیادی اصول ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے: ’’ ہر شخص کے لیے اپنی عبادت اور طریقہ زندگی کا حق محفوظ ہے‘‘۔
پیغمبر اکرم ؐنے فرمایا: ’’ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور برداشت کا برتائو کیا جائے، حتیٰ کہ مخالفین کے ساتھ بھی انصاف اور عدل کی بنیاد پر رویہ اختیار کیا جائے‘‘ ۔
انجیل میں پیار، بھائی چارہ، اور دوسروں کے حقوق کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ ٌ نے دوسروں کے ساتھ محبت اور انصاف کی تعلیم دی اور کہا کہ اختلافات کے باوجود ہر شخص کے ساتھ عزت اور محبت کے ساتھ پیش آیا جائے۔
یہودیت میں انسانی وقار اور انصاف کو ہر حال میں برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔
اختلافات کو تصادم یا نفرت کی بنیاد نہیں بلکہ تعلیم اور رہنمائی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرتی قوانین میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اور مساوات کے اصول کو اہمیت دی گئی ہے۔
ہندو مت میں رواداری کا فلسفہ ’’واسی دھن وندتی‘‘ کے ذریعے واضح کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر فرد کے عقائد اور رائے کا احترام کیا جائے۔ ہندو فلسفہ تنوع اور کثرت کو انسانی فطرت اور کائناتی قانون کا حصہ مانتا ہے۔
بدھ مت میں دوسروں کی رائے، عقائد اور طریقہ زندگی کا احترام بنیادی اصول ہے۔ بدھ مت کے مطابق صحیح سوچ، صحیح عمل، اور صحیح گفتار کے ذریعے اختلافات میں بھی صلح اور ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔
سکھ مت میں بھی رواداری کی تعلیم دی گئی ہے۔ گرو نانک دیو جی نے انسانیت کے حقوق اور برابر تعلقات کی تعلیم دی، اور کہا کہ ہر مذہب، عقیدہ اور ذات کا احترام ضروری ہے۔
کنفیوشش ازم کے مطابق معاشرت میں ہم آہنگی اور تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے رواداری اور اخلاقی اصولوں پر زور دیا گیا۔
ہر انسان کو احترام اور مساوی حقوق کا حق حاصل ہی، چاہے وہ مذہب، قوم یا جنس میں مختلف ہو۔
لبرل فلسفہ: اختلافات کو سیکھنے اور معاشرتی ترقی کے مواقع کے طور پر قبول کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
مختلف مذاہب اور فلسفے اس بات پر متفق ہیں کہ رواداری انسانیت کا لازمی جزو ہے۔ اختلافات کو دشمنی کی بنیاد بنانے کے بجائے، یہ تعلیم دیتی ہے کہ انسانوں کے درمیان احترام، ہم آہنگی، اور بھائی چارہ قائم رکھا جائے۔
عالمی سطح پر اور روزمرہ زندگی میں رواداری کے کئی چیلنجز موجود ہیں:
اقلیتیں اکثر امتیازی سلوک کا شکار ہوتی ہیں۔
مخالف سیاسی اور نظریاتی رائے رکھنے والوں کے ساتھ نفرت انگیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔
نوجوان نسل میں رواداری، احترام، اور ثقافتی شعور کی کمی۔
نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات لوگوں کے تعصب کو بڑھا سکتے ہیں۔
غربت اور عدم مساوات بھی برداشت کے جذبے کو کمزور کرتی ہے۔
ان مسائل کا حل صرف قوانین یا پابندیوں سے ممکن نہیں بلکہ تعلیم، آگاہی، اور اخلاقی تربیت کے ذریعے رواداری کو زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
رواداری کو فروغ دینے کے لیے درج ذیل اقدامات اہم ہیں:
سکولوں اور یونیورسٹیوں میں رواداری، تنوع، اور انسانی حقوق کے موضوع پر پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا، ٹی وی، اور ریڈیو کے ذریعے لوگوں کو رواداری کے پیغام سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے جشن منانے سے معاشرتی ہم آہنگی بڑھتی ہے۔
حکومتیں تعصب اور نفرت انگیز جرائم کے خلاف قوانین کو سخت کرتی ہیں اور انسانی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں رواداری کو اپنائے، اختلافات کو قبول کرے، اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔ روزمرہ زندگی میں چھوٹے چھوٹے اقدامات بھی رواداری کو فروغ دیتے ہیں، جیسے: محلے یا کلاس میں اختلاف رائے رکھنے والوں کے ساتھ صلح اور حسن سلوک کا رویہ اختیار کرنا۔ سماجی تقریبات میں مختلف ثقافتوں کی نمائندگی کو تسلیم کرنا۔ آن لائن اور آف لائن گفتگو میں تحمل اور احترام کا دامن پکڑے رکھنا۔
رواداری کے سماجی اور فردی فوائد درج ذیل ہیں: اختلافات کے باوجود معاشرہ پرامن اور متحد رہتا ہے۔ رواداری تشدد اور تصادم کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ مختلف نظریات اور خیالات کے تبادلے سے فکری اور علمی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ احترام اور اعتماد کی بنیاد پر تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ ممالک کے درمیان باہمی احترام اور تعاون میں اضافہ ہوتا ہے رواداری انسانی زندگی اور معاشرت کی بنیاد ہے۔ یہ نہ صرف فرد کی اخلاقی اور سماجی شرافت کی علامت ہے بلکہ معاشرت میں امن، بھائی چارہ، اور ہم آہنگی قائم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اختلافات کسی خطرے کی علامت نہیں بلکہ انسانی ترقی اور سیکھنے کا موقع ہیں۔
عالمی یوم رواداری ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کی اصل طاقت احترام، تحمل، اور بھائی چارے میں ہے۔ اگر ہر فرد اپنی زندگی میں رواداری کو اپنائے تو نہ صرف فرد کی شخصیت نکھرتی ہے بلکہ معاشرے اور دنیا میں بھی امن اور خوشحالی قائم ہوتی ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں ’’ رواداری صرف برداشت نہیں، بلکہ اختلافات میں بھی انسانیت کا احترام کرنے کی پہچان ہی۔ یہی امن و ترقی کی سب سے مضبوط بنیاد ہے ‘‘ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ رواداری کی جتنی ضرورت آج سے عالمی معاشرے ہے تاریخ میں کبھی نہیں رہی ۔

جواب دیں

Back to top button