Column

پاک سعودیہ دفاعی تعلقات۔ ایک نیا عہد

پاک سعودیہ دفاعی تعلقات۔ ایک نیا عہد
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بنیاد برادرانہ، ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی پر ہے۔ ان تعلقات کی تاریخ ایک طویل اور کامیاب داستان ہے، جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے مفادات کا ہمیشہ خیال رکھا ہے۔ گزشتہ روز پاکستانی چیف آف جنرل اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل سید عامر رضا کی سعودی چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل فیاض بن حمید الرویلی سے ملاقات نے ان تعلقات میں مزید مضبوطی کی ایک نئی لہر دوڑائی ہے۔ ریاض میں ہونے والی اس ملاقات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو مزید مستحکم کرنا تھا اور اس کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ دونوں ممالک اپنے دفاعی تعلقات کو نئی جہتوں تک لے جانے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو اگر ایک تاریخی زاویے سے دیکھا جائے تو یہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط اور بھرپور دوستی کی مثال ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں اور مختلف مواقع پر پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاکستان نے بھی سعودی عرب کے دفاع اور اس کی سلامتی کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق نہ صرف جغرافیائی اور سیاسی حیثیت سے اہم ہے، بلکہ ان کا مذہبی تعلق بھی ان دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ سعودی عرب، جو مسلمانوں کے لیے مرکزِ توجہ ہے اور پاکستان، جو ایک اسلامی ریاست ہے، دونوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ سعودی عرب نے کئی بار پاکستان کی حمایت کی ہے، خصوصاً دفاعی شعبے میں، جہاں سعودی عرب نے پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے۔ پاکستان کے چیف آف جنرل اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل سید عامر رضا کی سعودی چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل فیاض بن حمید الرویلی سے ملاقات کا مقصد نہ صرف دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا تھا بلکہ اس میں باہمی اسٹرٹیجک امور اور دفاعی تعاون کے شعبے میں نئے اقدامات پر بات چیت کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، اس ملاقات میں دونوں طرف سے یہ عزم ظاہر کیا گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔ اس ملاقات میں خاص طور پر باہمی تزویراتی دفاعی معاہدے پر زور دیا گیا۔ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس معاہدے کی بنیاد پر دفاعی تعلقات میں مزید تعاون اور ہم آہنگی پیدا کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، ریاض میں پاکستان سعودی عرب دوطرفہ دفاعی صنعتی فورم کا اجلاس بھی ہوا، جس میں پاکستانی وفد نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی صنعت میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ یہ اجلاس اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف دفاعی صلاحیتوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتے بلکہ دفاعی صنعتوں کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کی دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے میں گہری دلچسپی دکھائی ہے اور اس بات کا واضح اشارہ پاکستان سعودی عرب دوطرفہ دفاعی صنعتی فورم کے اجلاس میں ملتا ہے۔ اس فورم میں دونوں ممالک کے درمیان اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ دفاعی صنعتی تعاون کو مزید مستحکم کیا جائے تاکہ دونوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بڑھا سکیں اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکیں۔ سعودی عرب کے پاس جدید دفاعی ٹیکنالوجی اور وسائل ہیں اور پاکستان کی دفاعی صنعت بھی جدید آلات اور تربیت میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس تعاون کے ذریعے دونوں ممالک اپنے دفاعی شعبوں میں مزید پیش رفت کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات خطے اور عالمی سطح پر بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں کا مقصد خطے میں امن اور استحکام کا قیام ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات عالمی سطح پر بھی ایک طاقتور پیغام دیتے ہیں کہ دونوں ممالک مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دفاعی تعاون خطے میں کسی بھی نوعیت کی کشیدگی یا خطرات کا موثر جواب دینے کے لیے اہم ہے۔ دہشت گردی، انتہاپسندی اور علاقائی امن کے چیلنجز کے تناظر میں، سعودی عرب اور پاکستان کا تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ایک نیا مرحلہ دیکھ رہے ہیں جہاں دونوں ممالک اپنے دفاعی تعلقات کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ حالیہ ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مضبوط دفاعی تعلقات خطے میں امن، استحکام اور خود انحصاری کے فروغ میں معاون ثابت ہوں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات بھی مضبوط ہورہے ہیں اور سعودی عرب نے پاکستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے معاشی تعاون بڑھایا ہے۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک اپنے دفاعی شعبے میں مزید مشترکہ منصوبے شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات کے حوالے سے یہ حالیہ ملاقات نیا سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ بلاشبہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات نہ صرف ان کے قومی مفادات میں ہیں بلکہ یہ خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے بھی ایک اہم قدم ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی یہ دوستی ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح دو ممالک اپنی مشترکہ مفادات اور چیلنجز کے حل کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ دفاعی تعلقات میں مزید تعاون اور ہم آہنگی کی یہ کوششیں نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوں گی بلکہ ان کا اثر پورے خطے اور عالمی سطح پر محسوس کیا جائے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی یہ نئی سمت نیا عہد ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات کو مزید مستحکم اور پائیدار بنائے گا۔
ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر، عظیم المیہ!
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے ابھی تک اسکولوں سے باہر ہیں اور ان میں سے دو کروڑ بچے ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اسکول کا رخ تک نہیں کیا۔ یہ ایک عظیم قومی المیہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ پنجاب میں 96 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں، جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد قریباً برابر ہے۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے، خاص طور پر بلوچستان میں جہاں 14لاکھ لڑکے اور 15لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی عدم مساوات کے مسائل کئی سطحوں پر موجود ہیں۔ جن علاقوں میں بنیادی انفرا اسٹرکچر کی کمی ہے، وہاں بچوں کا اسکول تک پہنچنا ایک بڑا چیلنج بن چکا۔ تعلیمی اداروں کی کمی، اساتذہ کی غیر موجودگی اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ان مسائل میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، غربت، بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے قدیم روایات اور لڑکیوں کے اسکولوں کی کمی بھی تعلیمی بحران کی بڑی وجوہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1084ٹرانس جینڈر بچے بھی اسکولوں سے باہر ہیں، جو ایک نیا اور حساس مسئلہ ہے۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے افراد عموماً تعلیم، صحت اور معاشرتی قبولیت جیسے مسائل کا شکار رہتے ہیں اور انہیں نہ صرف تعلیمی اداروں میں داخلے میں مشکلات پیش آتی ہیں بلکہ انہیں روزمرہ زندگی میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان بچوں کی تعلیم اور ترقی کے حوالے سے حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا اور ہر سال قریباً 20ہزار نئے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ مطلب کہ ہم ایک سنگین قومی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اگر فوری اس کا تدارک نہ کیا گیا تو آنے والے برسوں میں اس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو اس بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے، تعلیمی اداروں کی کمی کو پورا کرنا ہوگا، خصوصاً دیہی اور پسماندہ علاقوں میں۔ اساتذہ کی تربیت اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ بچیوں کی تعلیم کے لیے آگاہی پروگرامز چلانے کی ضرورت ہے۔ ٹرانس جینڈر بچوں کے لیے تعلیمی اداروں میں داخلے کے دروازے کھولنا اور ان کی خصوصی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی سہولتیں فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں اسکولوں سے باہر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سنگین چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیم صرف ایک فرد کی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ پورے ملک کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو اسکول میں تعلیم کی سہولتیں دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ہم اپنے قومی مستقبل کو دائو پر لگا دیں گے۔ اس لیے حکومت، تعلیمی ادارے اور دیگر متعلقہ ادارے اس بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں تاکہ ہمارے بچے تعلیم کے روشن راستے پر چلیں اور پاکستان ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکے۔

جواب دیں

Back to top button