Column

27ویں آئینی ترمیم: شرعی نقط نظر اور مفتی تقی عثمانی کا موقف

27ویں آئینی ترمیم: شرعی نقط نظر اور مفتی تقی عثمانی کا موقف
تحریر : ثناء اللہ مجیدی
پارلیمنٹ نے 27ویں آئینی ترمیم کو کثرتِ رائے سے منظور کرلیا ہے، جس کے ذریعے صدرِ مملکت کو نہ صرف اپنے منصب کے دوران بلکہ زندگی بھر کے لیے بھی عدالتی کارروائی سے استثنا دے دیا گیا ہے۔ ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 248 کو ازسرِ نو تحریر کیا گیا ہے، اور اس میں یہ واضح جملہ شامل کیا گیا کہ’’ کسی بھی عدالت کے فیصلے کے باوجود‘‘ صدر کے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ قائم یا جاری نہیں رکھا جا سکتا، نہ ان کی گرفتاری کا حکم دیا جائے گا۔ گورنرز کو یہ استثنا صرف اپنے دورِ اقتدار تک حاصل ہوگا۔ گویا اب قانون کے دائرے میں ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا گیا ہے جو جواب دہی سے بالاتر تصور ہوگا۔
یہ بات اپنی جگہ نہایت سنگین اور فکری طور پر تشویش ناک ہے کہ ایک جمہوری ملک جس کو ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کہا جاتا ہے وہاں عدل کے بنیادی اسلامی اصول کو اس طرح نظرانداز کر دیا جائے۔ اسلام میں کسی بھی فرد کو خواہ وہ کتنا ہی بلند عہدہ کیوں نہ رکھتا ہو قانونی احتساب سے بالا نہیں رکھا گیا۔
قرآنِ مجید نے حکم دیا:’’ بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔ یہ آیت اسلامی ریاست کے عدالتی فلسفے کی بنیاد ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا‘‘۔ یہ قول دراصل اعلان ہے کہ اسلام میں کوئی مقدس طبقہ نہیں قانون کی چھتری سب پر برابر ہے، چاہے وہ خلیفہ ہو یا عام شہری۔
27ویں ترمیم کے بعد اب پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں ایک ایسا دروازہ کھل گیا ہے جو شریعت کے اصولِ مساوات کے سراسر خلاف ہے اگر صدرِ مملکت کو عمربھر قانونی بازپرس سے آزاد کر دیا گیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص ملک کے تمام قوانین سے ماورا ہو گیا۔ یہ تصور شریعت میں ممکن نہیں، بلکہ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین تک عدالتوں میں پیش ہوئے، چنانچہ حضرت عمرؓ سے ایک عام شخص نے عدالت میں سوال کیا کہ آپ کے پاس دو کپڑے کیسے آئے جبکہ بیت المال سے سب کو ایک کپڑا ملا تھا؟ خلیفہ وقت نے نہ صرف وضاحت دی بلکہ اپنے بیٹے کو گواہی کے لیے بلایا۔ یہ وہ روح ہے جو اسلامی انصاف کی اساس ہے۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے ٹویٹ میں نہایت دردناک مگر حقیقت پر مبنی بات فرمائی: ’’ اسلام میں کوئی بھی شخص، چاہے وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر ہو، عدالتی کارروائی سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ خلفائے راشدین کی مثالیں سب کو معلوم ہیں۔ ہمارے دستور میں پہلے بھی صدر کو صدارت کے دوران تحفظ دیا گیا تھا جو اسلام کے خلاف تھا، اب اس کو زندگی بھر تک بڑھا دینا شریعت اور آئین دونوں کی روح کے خلاف ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان سے درد مندانہ درخواست ہے کہ وہ یہ گناہ اپنے سر نہ لیں‘‘۔
یہ ٹویٹ نہ صرف شرعی موقف کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اس ترمیم کے اخلاقی اور دینی مضمرات پر بھی روشنی ڈالتا ہے اگر کوئی حکومت یا ادارہ اپنے سربراہ کو جواب دہی سے بالاتر قرار دے دے تو یہ دراصل ظلم کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ شریعت میں حکمران کی حیثیت ایک امین کی ہے، بادشاہ کی نہیں۔ وہ امت کا خادم ہے، مالک نہیں۔
نبی کریم ؐنے فرمایا: ’’ حاکم ایک نگہبان ہے اور اس سے رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
اسلامی نظامِ حکومت کی روح یہی ہے کہ اختیار کے ساتھ جواب دہی بھی لازم ہے۔ جہاں اختیار تو رہے مگر جواب دہی ختم ہو جائے وہاں ظلم کے دروازے کھل جاتے ہیں یہی وہ خطرہ ہے جس کی طرف علماء کرام، آئینی ماہرین اور عوام الناس سب متوجہ ہیں۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے عدالتوں کے سابقہ فیصلوں کو ’’ کالعدم‘‘ قرار دینے کی شق شامل کی گئی ہے۔ یعنی عدالتوں کے تمام سابقہ فیصلے تمام تشریحات غیر موثر قرار پائیں گی۔ گویا پارلیمنٹ نے براہِ راست عدلیہ کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کی ہے شریعت کی رو سے کسی فرد یا ادارے کو عدل کے ادارے کی بالادستی ختم کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی عدل کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں حکمران بھی قانون کے تابع ہوتا ہے۔
حضرت علیؓ کا مقدمہ ایک یہودی کے ساتھ قاضی شریح کے سامنے پیش ہوا۔ جب خلیفہ وقت عدالت میں کھڑا ہوا تو قاضی نے کہا: ’’ آپ بیٹھ جائیں مدعی و مدعا علیہ برابر ہیں‘‘۔ یہ ہے شریعت کا اصل چہرہ، جہاں عدل کسی منصب سے مرعوب نہیں ہوتا۔
27ویں ترمیم اگر اس اصول کے خلاف ہے تو یہ نہ صرف شریعت کی روح سے متصادم ہے بلکہ آئینِ پاکستان کے دیباچے سے بھی۔ آئین کے آغاز میں تحریر ہے کہ ’’ اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کا ہے‘‘ اور ریاست اس اقتدار کو اللہ کے مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرے گی۔ اب اگر پارلیمنٹ کسی انسان کو ’’ قانونی احتساب‘‘ سے بالاتر قرار دے دیتی ہے تو وہ دراصل اقتدارِ اعلیٰ کو اللہ کی بجائے انسان کے سپرد کر رہی ہے، جو شرعی طور پر ناجائز اور خطرناک رجحان ہے۔ آج پارلیمنٹ کے معزز اراکین کے سامنے ایک دینی و قومی آزمائش کھڑی ہے۔ وہ چاہیں تو تاریخ میں عدل کے محافظ کہلائیں اور اگر خاموش رہے تو ظلم کے معاونین میں شمار ہوں گے۔ اسلام کسی بھی قوم کی بقا کو عدل سے جوڑتا ہے جیسا کہ حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’ کفر پر حکومت قائم رہ سکتی ہے، ظلم پر نہیں‘‘۔
لہٰذا یہ وقت محض ایک قانونی ترمیم کا نہیں بلکہ ایک شرعی فیصلی کا ہے۔ کیا ہم وہ قوم بننا چاہتے ہیں جو اقتدار کے تحفظ کے لیے شریعت کے اصول قربان کرے؟ یا وہ جو انصاف کی خاطر اقتدار کو قربان کرنے کا حوصلہ رکھے؟
آخر میں یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قانون سازوں کو عدل و خوفِ خدا اور دیانت کی روش پر قائم رکھی۔ قوم کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے کیونکہ جہاں حکمران قانون سے بالاتر ہو جائے وہاں قانون صرف کمزوروں پر لاگو رہ جاتا ہے اور یہی ظلم کی ابتداء ہے۔

جواب دیں

Back to top button