Aqeel Anjam AwanColumn

ایک محفوظ نوکری ڈھونڈ لو

بیٹا ۔۔۔۔ ایک محفوظ نوکری ڈھونڈ لو!!!!
تحریر : عقیل انجم اعوان
یہ دنیا حیرت انگیز طور پر ایک عجیب حقیقت پر قائم ہے۔ آپ دو افراد کو ایک ہی جتنی تنخواہ دیں ایک وہی آمدنی استعمال کر کے غربت کی زنجیروں سے آزاد ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا ساری زندگی اسی تنخواہ کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ یہ فرق نہ قسمت کا ہے نہ قابلیت کا اور نہ ہی مواقع کا بلکہ صرف سوچ کا ہے۔ انسان کی کامیابی یا ناکامی کا آغاز اس کے ذہن سے ہوتا ہے۔ جو سوچ بند دروازے دیکھتی ہے وہ ان ہی دیواروں میں قید رہ جاتی ہے اور جو سوچ امکانات تلاش کرتی ہے وہ راستے تراش لیتی ہی۔ ہم نسلوں سے ایک ہی معاشی سبق دہرا رہے ہیں کہ محنت کرو، تعلیم حاصل کرو، ایک محفوظ نوکری ڈھونڈو اور جو بچ سکے بچا لو۔ یہ فارمولا اُس زمانے میں کارآمد تھا جب دنیا سادہ تھی مقابلہ محدود تھا اور ایک تنخواہ سے پورا گھر چل سکتا تھا۔ مگر آج کا دور مختلف ہے۔ اب یہ نسخہ انسان کو مالی آزادی نہیں بلکہ انحصار کی ایسی زنجیر میں جکڑ دیتا ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی مگر عمر بھر انسان کو غلام رکھتی ہے۔ آج کا متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے صرف پالیسیوں کی ناکامی کے باعث نہیں بلکہ اس لیے کہ لوگ ابھی تک’’ ملازم‘‘ کی طرح سوچتے ہیں۔ وہ ہر مہینے تنخواہ کے انتظار میں زندگی گزار دیتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ استحکام کا مطلب ہے کسی کے ماتحت ایک محفوظ ملازمت۔ لیکن اس استحکام کے پیچھے دراصل ایک خاموش غلامی چھپی ہوتی ہے ایک ایسا نظام جو فرد کو محض ایک پرزہ بنائے رکھتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشری میں جہاں حفاظت کو جدت پر فوقیت دی جاتی ہے یہ ذہنیت نمایاں ہے۔ والدین آج بھی بچوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ’’ بیٹا! کوئی محفوظ نوکری ڈھونڈ لو‘‘ ، مگر یہ نہیں کہتے کہ اپنا کچھ بنائو، اپنی دنیا تخلیق کرو۔ مگر موجودہ ڈیجیٹل دور میں کامیاب وہ ہیں جو تخلیق کرتے ہیں جو سرمایہ لگاتے ہیں جو جدت لاتے ہیں نہ کہ وہ جو صرف کماتے اور خرچ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک بڑا طبقہ تنخواہ سے تنخواہ تک زندہ رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ استحکام یعنی تنخواہ مگر یہ استحکام محض ایک سراب ہے۔ غریب باپ کی ذہنیت تحفظ سے چمٹی رہتی ہے۔ وہ کامیابی کو عہدے اور تنخواہ سے ناپتی ہے آزادی اور اختیار سے نہیں۔ وہ پہلے خرچ کرتا ہے اور پھر جو بچ جائے اسے بچاتا ہے۔ وہ خطرے سے ڈرتا ہے قرض کو زہر سمجھتا ہے اور آرام کو ترقی تصور کرتا ہے۔ دوسری طرف مالی لحاظ سے باشعور لوگ قرض سے نہیں گھبراتے بلکہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ قرض کو کھپت کے لیے نہیں بلکہ تخلیق کے لیے لیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے پیسے سے ایسے اثاثے بناتے ہیں جو قرض سے زیادہ آمدنی پیدا کرتے ہیں۔ وہی رہن جس میں ایک شخص ڈوب جاتا ہے دوسرے کے لیے آزادی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ دنیا کی بڑی مثالیں اسی فرق کی گواہ ہیں۔ سٹیو جابز نے ایک چھوٹے سے گیراج میں ایپل کی بنیاد رکھی۔ اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا مگر وژن تھا۔ جیف بیزوس نے وال اسٹریٹ کی محفوظ نوکری چھوڑ دی دوسروں کے پیسے کو دانشمندی سے استعمال کیا اور ایمیزون جیسا ادارہ تخلیق کیا جس نے عالمی تجارت کا نقشہ بدل دیا۔ اوپرا وِنفری نے کرائے کی میزبان بننے کے بجائے اپنے پروگرام کی ملکیت مانگی اور آج ان کا نام خود ایک اثاثہ ہے۔ یہ سوچ ہی ہے جو عام لوگوں کو غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ مائیکل جورڈن جیسے سپر سٹارز نے کروڑوں کمائے مگر ابتدا میں وہ بھی مالی غلطیوں کا شکار ہوئے۔ بعد میں انہوں نے یہ سمجھا کہ صرف کمانا کافی نہیں ملکیت ضروری ہے۔ ان کی دولت کھیل سے نہیں بلکہ کاروبار اور شراکت داریوں سے بڑھی۔ ان کی کہانی سکھاتی ہے کہ شہرت دروازے کھولتی ہے مگر مالی دانش انہیں کھلا رکھتی ہے۔ دوسری جانب ایسے کئی لوگ بھی ہیں جن کے پاس سب کچھ تھا مگر سوچ غریب تھی۔ مائیک ٹائسن نے تین سو ملین ڈالر کمائے، مگر آخرکار دیوالیہ ہو گیا۔ ایم سی ہیمر اور نکولس کیج نے کروڑوں کمائے مگر سب ضائع کر دئیے۔ ان کی بربادی کا سبب قابلیت یا قسمت نہیں بلکہ سوچ تھی۔ وہ تخلیق کے بجائے کھپت میں الجھے رہے۔ وہ سرمایہ کاری کے بجائے خرچ کرتے رہے۔ وہ اختیار کے بجائے آرام ڈھونڈتے رہے۔ وہ پیسے کے لیے کام کرتے رہے اور جب کام رکا تو دولت بھی رُک گئی۔ یہی سوچ کا فرق ہے جو ایک ہی معیشت میں رہنے والے دو افراد کو بالکل مختلف مالی زندگیاں دیتا ہے۔ غریب باپ کی سوچ سمجھتی ہے کہ زیادہ محنت ہی حل ہے، جبکہ امیر باپ کی سوچ سمجھتی ہے کہ سمجھداری، منصوبہ بندی اور سسٹم ہی اصل طاقت ہیں۔ ایک شخص ساری عمر دوڑتا رہتا ہے دوسرا ایسا نظام بناتا ہے جو اس کے رکنے کے بعد
بھی چلتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام سوچنے کے بجائے ماننے کی تربیت دیتے ہیں۔ ہم بچوں کو حکم ماننے والے بناتے ہیں سوچنے والے نہیں۔ مالی تعلیم ہمارے نصاب کا حصہ نہیں۔ عالمی بینک کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے ساٹھ فیصد بالغ افراد مالی لحاظ سے ناواقف ہیں۔ یہ ان کی ذہانت کی کمی نہیں بلکہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے۔ یہی اصول قوموں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ وہ ممالک جو ملازموں کی طرح سوچتے ہیں جو بیرونی امداد، قرض معافی اور سرمایہ کاری کے انتظار میں رہتے ہیں ہمیشہ محتاج رہتے ہیں۔ جبکہ وہ قومیں جو مالکوں کی طرح سوچتی ہیں وہ اپنی تقدیر خود لکھتی ہیں۔ جنوبی کوریا، چین، جاپان ان سب نے یہ سبق سیکھا کہ دوسروں کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی تخلیق سے طاقت حاصل کی جاتی ہے۔ پاکستانیوں کو بھی اب یہ راستہ اپنانا ہوگا۔ ہمیں خرچ کرنے والے نہیں بلکہ بنانے والے بننا ہوگا۔ جب تک ہم کھپت پر مبنی معیشت سے نکل کر تخلیق پر مبنی معیشت کی طرف نہیں بڑھیں گے قرض اور انحصار کا یہ چکر نہیں ٹوٹے گا۔ یقیناً صرف سوچ ہی سب کچھ نہیں بدل سکتی۔ پالیسی، سرمایہ تک رسائی اور مواقع بھی ضروری ہیں مگر سوچ طے کرتی ہے کہ ہم ان حدود کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ جو شخص قرض سے ڈرتا ہے اسے ہر موقع خطرہ لگتا ہے۔ جو اسے سمجھتا ہے وہی اس میں امکانات دیکھتا ہے۔ ہمیں یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ پیسہ صرف کمانے کی چیز نہیں یہ ایک آلہ ہے۔ اسے سمجھنا، استعمال کرنا اور بڑھانا آنا چاہیے۔ پیسہ ان کے لیے کام کرے جو سمجھدار ہیں نہ کہ وہ پیسے کے لیے کام کرتے رہیں۔ اگر ہم ایک ایسی قوم چاہتے ہیں جو مالی طور پر آزاد ہو تو ہمیں اپنے لوگوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ آزادی ذہن میں جنم لیتی ہے۔ غربت کبھی صرف جیب میں نہیں ہوتی وہ سوچ میں ہوتی ہے اور آزادی بھی وہیں سے جنم لیتی ہے۔ جو سوچ آزاد ہو جائے اس کے لیے دنیا کی کوئی قید باقی نہیں رہتی۔ یہی فرق ہے غریب باپ اور امیر باپ کے درمیان ایک پیسے کے لیے جیتا ہے دوسرا پیسے کو اپنے لیے جینے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی سوچ مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔ جو سوچ مالکوں کی ہو وہ تقدیر لکھتی ہے اور جو سوچ ملازموں کی ہو وہ دوسروں کی لکھی تقدیر جیتی ہے۔ پاکستانیوں کے لیے وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنی سوچ بدل لے کیونکہ جب سوچ بدلتی ہے سب کچھ بدل جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button