ColumnQadir Khan

دو تاج، دو تخت اور ایک ہی طاقت

دو تاج، دو تخت اور ایک ہی طاقت
تحریر : قادر خان یوسف زئی

پاکستانی ریاست کے آئینی سفر میں ہر بڑی ترمیم داخلی شدت اور بیرونی دبائو کا نتیجہ ہوتی ہے۔27ویں آئینی ترمیم بھی اسی روایت کا تسلسل ہے، لیکن یہ ترمیم اپنے ساتھ ایک منفرد حقیقت لاتی ہے جو پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں طاقت کی نئی تقسیم کو ظاہر کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف 2010ء میں آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ صرف ایک قانونی واقعہ نہیں تھا۔ یہ عسکری قیادت کے لیے ایک سنگ میل تھا۔ 27ویں ترمیم کو سرِ ظاہر طور پر ریاستی استحکام اور آئینی نظام کی تکمیل کے نام سے پیش کیا گیا، لیکن اس کی اصل جڑیں فوجی ادارے کی بقاء اور سربراہی کی حفاظت کی فطری غریزے میں ہیں۔
ریاستی طاقت کے توازن کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ 27ویں ترمیم نے صدر اور آرمی چیف دونوں کو بالکل مختلف طریقے سے تاحیات استثنیٰ دیا ہے۔ صدرِ پاکستان کو Article 248میں Clause 45کے ذریعے تاحیات استثنیٰ دینا ایک سیاسی فیصلہ ہے، لیکن عملی حقائق یہ دکھاتے ہیں کہ صدر کا یہ استثنیٰ اسمی ہے۔ پاکستانی نظام میں صدر ایک نام نہاد مقام ہے اور اصل اقتدار وزیرِ اعظم کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ لیکن جب آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے رتبے پر فائز کیا جاتا ہے تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی ہے۔ فیلڈ مارشل نہ صرف پاکستانی فوج کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ چیفِ ڈیفنس فورسز کی حیثیت میں تمام مسلح افواج بحریہ، فضائیہ اور عسکری اختیارات پر براہ راست کنٹرول رکھتا ہے۔ یہ حقیقی طاقت کا مرکز ہے، خیالی نہیں۔
27 ویں ترمیم کا Clause 7ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل ’’ یونیفارم میں زندگی بھر رہے گا‘‘۔ یہ صرف لباس کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اصل میں ایک قانونی اور ادارہ جاتی دعویٰ ہے کہ فیلڈ مارشل اپنی پوری زندگی ایک فوجی افسر کی حیثیت میں رہے گا، خواہ وہ آرمی چیف کی رسمی ذمہ داری سے ریٹائر ہو جائے۔ یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ مستقبل میں تمام آرمی چیفس کے لیے بھی ایک نیا معیار متعارف کراتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اب فیلڈ مارشل کو بھی بالکل وہی استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔ صدر کا استثنیٰ قانون میں محدود تھا، لیکن Clause 45میں ’’ نوٹ ویتھ سٹینڈنگ‘‘ کا ٹاپ اضافہ ہوا ہے جو کسی بھی عدالتی حکم کو غیر موثر بنا سکتا ہے۔ یہی استثنیٰ اب فیلڈ مارشل کو بھی حاصل ہے۔
عالمی سطح پر دیکھیں تو یہ نظام بے نظیر ہے۔ برطانیہ میں نہ تو کوئی صدر ہے اور نہ ہی کوئی تاحیات استثنیٰ موجود ہے۔ وہاں کی پارلیمنٹ سپریم اتھارٹی ہے۔ امریکہ میں صدر کو صرف اپنی مدت صدارت کے دوران کسی حد تک مجرمانہ قانون سے حفاظت ملتی ہے، اس کے بعد نہیں۔ جرمنی میں تو ایسی کوئی رعایت موجود ہی نہیں۔ روس میں بھی یلتسن کے بعد سے صدور کے استثنیٰ میں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
آئینی عدالت کے قیام کی بحث اس ترمیم کا دوسرا اہم حصہ ہے اور اسے الگ تھلگ کر کے دیکھنا غلط ہوگا۔ حکومتی بیانات میں کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ پر آئینی اور عام سول مقدمات دونوں کا بوجھ ہے اور اس سے فیصلوں میں تضادات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دلیل سطحی طور پر منطقی لگتی ہے اور اس میں کچھ سچائی بھی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آئینی عدالت کا قیام عسکری اقتدار کے فیصلوں کو عدالتی تنقید سے محفوظ رکھنے کا ایک ممکنہ ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔ جرمنی، اٹلی اور ترکی میں آئینی عدالتیں ضرور موجود ہیں اور وہاں کے نظام میں ایک خاص فعالیت ہے۔ لیکن وہاں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان واضح اور سخت تقسیم ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ ان ممالک میں عدالتی نظام میں آزادی اور باہمی نگرانی برقرار ہے۔ پاکستان میں موجودہ صورتحال میں عسکری قوت اور عدالتی نظام کے درمیان فاصلہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔ اگر آئینی عدالت کی تشکیل میں عسکری اثرات کسی بھی سطح پر شامل ہوں تو یہ محض ایک نیا ادارہ نہیں بلکہ طاقت کی مرکزیت کا ایک اور آلہ بن سکتا ہے۔
ریاستی نظام میں اختیارات کی تقسیم یا چیک اور بیلنس جمہوری حکومتوں کی بنیاد ہیں۔ تاہم پاکستان میں ہر دہائی میں یہ توازن مزید خراب ہوتا رہا ہے۔ جب کسی کو تاحیات عہدہ اور مکمل قانونی استثنیٰ دیا جاتا ہے تو دراصل یہ پیغام ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ افراد اور ادارے ریاست کے عام قوانین سے بالاتر ہیں۔ یہ صرف جمہوری اصولوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ ریاست کے اندرونی استحکام کے لیے بھی گہرا نقصان ہے۔ جب عام شہری اور قانون ساز ادارے یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی خصوصی ادارہ یا فرد قانون سے بالاتر ہے تو قانون کی حکمرانی میں ایک اہم کمزوری آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے اپنی بنیادی اداریوں کو طویل مدت میں مضبوط کرنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا کیا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو سیاسی نظام، عدالتی نظام اور فوجی ادارے میں موثر نگرانی کے ذریعے ایک حقیقی توازن قائم کر سکتے تھے۔ یہ کام مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں۔ لیکن بجائے اس کے، انہوں نے آئین میں ایسی ترامیم کی ہیں جو دراز مدتی نقصان کا سبب بنتی ہیں اور مستقبل کے لیے خطرناک نظائر قائم کرتی ہیں۔ آئینی عدالت کے قیام میں اگر سچی نیت ہو اور اس میں مکمل شفافیت برقرار رہے تو یہ ریاست کے آئینی نظام میں ایک معنی خیز اضافہ ہو سکتا ہے۔ خصوصاً وفاقی و صوبائی اختیارات میں تنازعات کے حل اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے۔ لیکن جب اسے فیلڈ مارشل کے تاحیات عہدہ اور استثنیٰ کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ محض طاقت کے دوبارہ تنظیم کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔ احتساب اور جوابدہی کا نظام بغیر کسی امتیاز کے رنگ و نسل، عہدہ اور حیثیت کے ہونا پاکستان جیسی متنوع ریاست میں نہ صرف ضروری ہے بلکہ اسلام اور جمہوریت دونوں کا بنیادی اصول ہے۔ کسی بھی فرد یا ادارے کو اس نظام سے مبرا کیا جانا ایک تقلق انگیز واقعہ ہے۔
27 ویں آئینی ترمیم پاکستانی ریاست کے اندرونی تنازعات کا ایک عارضی اور نقصان دہ حل ہے۔ جب تک پاکستان کے بنیادی اداروں میں شفافیت، جوابدہی اور ادارہ جاتی آزادی برقرار نہیں رہتی، یہ قسم کی ترامیم محض عارضی سکون ہی فراہم کریں گی۔ فیلڈ مارشل کا تاحیات عہدہ خود میں غلط نہیں ہے اور نہ ہی آئینی عدالت کا قیام غلط ہے۔ لیکن انہیں جس انداز میں دیا اور نافذ کیا جا رہا ہے، اس سے ریاست کے آئینی توازن کو سنگین نقصان پہنچا ہے۔ عوام کے حقوق اور ریاستی استحکام دونوں کے لیے ضروری ہے کہ آئین کی بالادستی برقرار رہے اور کوئی بھی ادارہ یا فرد اس سے بالاتر نہ رہے۔ یہی حقیقی جمہوریت کی بنیاد ہے۔

جواب دیں

Back to top button