27ویں ترمیم منظور، ہنسنا بنتا ہے یا رونا

27ویں ترمیم منظور، ہنسنا بنتا ہے یا رونا
تحریر : روشن لعل
آئین پاکستان میں 27ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد فکری ابہام کسی کروٹ بیٹھنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہا۔ اسی وجہ سے زیر نظر کالم کا عنوان میں یہ کہا گیا ہے کہ 27ترمیم کی منظور ی کے بعد ہنسنا بنتا ہے یا پھر رونا۔ مشرف حکومت ختم ہونے کے بعد ہر آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت ذہن خود بخود یہ سوچنے کی طرف مائل ہوا کہ اس کی مطابقت میثاق جمہوریت سے ہے یا نہیں ہے۔ سال 2006میں بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نوازشریف کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت میں آزاد عدلیہ کے قیام کے لیی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدوں پر ایسے ججوں کی تعیناتی کا اقرار کیا گیا تھا جنہوں نے کبھی کسی آمر کے بنائے ہوئے پی سی او پر حلف نہ اٹھایا ہو ۔ اس کے علاوہ میثاق جمہوریت کی ایک شق سپریم کورٹ سے الگ ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کرنے سے بھی متعلق تھی۔ مشرف کا آمرانہ اقتدار ختم ہونے کے بعد اس کے جاری کردہ دو الگ الگ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے کچھ ججوں کو آنکھ کا تارا اور کچھ کو راندہ درگاہ بنا دیا گیا۔ یہ رویہ کسی طرح بھی میثاق جمہوریت کے مطابق نہیں تھا مگر اس کے باوجود ان چیف جسٹس صاحبان کو کھل کھیلنے اور اپنے جیسے مزید جج عدلیہ میں داخل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا جو مشرف کے پہلے پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکے تھے۔ مشرف کے پی سی او پر براہ راست حلف اٹھانے والے تقریباً تمام ججوں کے عدلیہ سے رخصت ہونے کے بعد آئین میں ایسی کسی ترمیم کی ضرورت باقی نہ رہی جو پی سی او ججوں کو چیف جسٹس بننے سے روکتی ہو لیکن میثاق جمہوریت کے تحت آئینی عدالت کے قیام کی گنجائش ابھی تک موجود تھی۔ کچھ لوگ آئین پاکستان میں کی گئی حالیہ 27ویں ترمیم کو مجموعی طور پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ گو کہ اس ترمیم کے کچھ حصوں کو تنقید سے مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ترمیم کا جوحصہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام و اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی اور ٹرانسفر سے متعلق ہے، اس پر تنقید کا جواز اس لیے نہیں بنتا کیونکہ یہ حصہ بڑی حد تک میثاق جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے۔
جو لوگ 27ویں ترمیم کے وفاقی آئینی عدالت کے قیام والے حصے کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ اصل میں عدلیہ کو اسی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں جو حالت افتخار چودھری، ثاقب نثار، گلزار احمد اور عمر عطا بندیال جیسے سابق چیف جسٹس صاحبان کے زمانے میں تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن سابقہ چیف جسٹس صاحبان کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان کے دور میں عدلیہ آزاد نہیں بلکہ شتر بے مہار کی طرح فرعونیت زدہ تھی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مذکورہ چیف جسٹس صاحبان اور ان کے عدلیہ میں شامل کیے گئے اطاعت گزار ساتھیوں نے عدلیہ کی آزادی کے نام پر کس طرح عوام کی ان امیدوں اور خواہشوں کا خون بہایا جو انہوں نے ججوں کی بحالی کی تحریک کے دوران ان سے وابستہ کی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں نئے ججوں کی تعیناتی کا جو طریق کار طے کیا تھا وہ کافی حد تک میثاق جمہوریت کے مطابق تھا لیکن کچھ موقع پرست و ناعاقبت اندیش سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے ان کے سہولت کاروں اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ملی بھگت سے پارلیمنٹ کو ایسی انیسویں ترمیم کی منظوری کے لیے مجبور کیا گیا جس کے تحت ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے چیف جسٹس کو آمرانہ اختیار حاصل ہو گئے۔ سابق چیف جسٹس صاحبان کی طرف سے انتہائی غیر ذمہ داری اور بے رحمی سے انیسویں ترمیم کے تحت حاصل کیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سیاست کو جو نقصانات پہنچے اس کے نتیجے میں وہ سیاستدان بھی 27ترمیم کے تحت ججوں کی تعیناتی اور ٹرانسفر کے نئے ضابطے تشکیل دینے کی طرف مائل ہوئے جو کبھی نام نہاد عدلیہ کے سہولت کار ہوا کرتے تھے۔ ان کے برعکس آج جو لوگ 27ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں انہیں اصل میں عدلیہ کی آزادی سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ وہ اس قسم کی نعرہ بازی کرتے ہوئے اپنے من پسند ججوں سے وہی سیاسی فائدے دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو انہیں ماضی میں دستیاب ہوتے رہے۔
جہاں تک 27ویں ترمیم پر چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ تشکیل دینے کی وجہ سے ہونے والی تنقید کا تعلق ہے تو اس تنقید کا جائزہ لینے سے یہظاہر ہوتا ہے کہ اگر اس عہدے پر موجودہ آرمی چیف اور فیلڈ مارشل کی بجائے کسی اور شخصیت کو تعینات کیا گیا ہوتا تو ترمیم کے اس حصہ پر کی جانے والی تنقید کا حجم اور تنقید کے لیے استعمال کیا جانے والا لب و لہجہ مختلف ہوتا۔ حالیہ آئینی ترمیم کے تحت اگر چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ پیدا ہوا ہے تو جوائنٹ چیف آف سٹاف کا عہدہ ختم بھی کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ چیف آف ڈیفنس فورسز جیسے عہدے ناٹو میں کے رکن ممالک کے علاوہ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی موجود ہیں۔ بھارتی حکومت نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت چیف آف ڈیفنس سٹاف کے نام سے سال 2020ء میں اسی قسم کا ایک عہدہ پیدا کیا تھا۔ گو کہ بھارت اس نئے عہدے کے لیے کوئی آئینی ترمیم نہیں کی گئی لیکن سال 2022ء میں پہلے سے موجود آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے قواعد ضوابط میں ترامیم کر کے اس عہدے کو قانونی جواز فراہم کیا گیا تھا۔ اکثر اوقات پاکستان سے متحارب رہنے والی بھارتی فورسز میں یہ عہدہ کس ضرورت کے تحت پیدا کیا گیا اور اسی تناظر میں پاکستان کے اندر جوائنٹ چیف آف سٹاف کا عہدہ ختم کر کے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کیوں بنایا گیا، اس موضوع پر الگ سے تفصیلی بات ہو سکتی ہے مگر یہاں موضوع بحث 27ترمیم پر ہونے والی تنقید ہے لہذا اسی پر اظہار خیال کیا جائے گا۔ پاکستان میں آئینی ترمیم کے ذریعے نئے بنائے جانے والے عہدے چیف آف ڈیفنس فورسز یا اس پر تعینات ہونے والی شخصیت کی ذات پر تو نہیں لیکن اس عہدے کی حامل شخصیت کو تاحیات ملنے والے استثنیٰ پر تنقید کی گنجائش ضرور موجود ہے۔ اسی قسم کی تنقید صدر پاکستان کے عہدے پر فائز شخصیت کو ملنے والے استثنیٰ پر بھی کی جاسکتی ہے۔
27ترمیم میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کی تعیناتی سے متعلق جو حصہ چاند کی طرح روشن دکھایا جاسکتا تھا اسے استثنیٰ کی شقوں کے ذریعے گرہن زدہ بنا دیا گیا ہے۔ 27ویں ترمیم کی استثنیٰ سے متعلق شقوں کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ اس ترمیم پر کس حد تک خوش اور کس حد تک افسوس کا اظہار کیا جانا چاہیے۔ کسی عہدے کے احترام کی وجہ سے اگر استثنیٰ، اس پر تعینات رہنے کی مدت تک ہو تو کسی حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن تاحیات استثنیٰ والی بات ہضم کرنا مشکل ہے۔





