Column

وزیراعظم کا قومی اسمبلی سے خطاب

وزیراعظم کا قومی اسمبلی سے خطاب
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آئینی ترامیم ہمیشہ ایک حساس موضوع رہی ہیں، خاص طور پر جب وہ ملک کی عدلیہ، دہشت گردی اور خارجہ پالیسی سے جڑی ہوں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قومی اسمبلی میں حالیہ تقریر میں کئی اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری، ملک میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر بات کی گئی۔ یہ تقریر ایک جامع سیاسی پیغام کی عکاسی کرتی ہے، جس میں داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اتحاد اور ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصلاحات 19سال کے طویل عرصے بعد بالآخر ایک خواب کی حقیقت بن کر سامنے آئی ہیں۔ اس ترمیم کا مقصد آئینی عدالت کا قیام ہے، جو میثاق جمہوریت کا حصہ تھا اور بے نظیر بھٹو کے سیاسی وژن کی تکمیل کو ظاہر کرتا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کا قیام نہ صرف پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے، بلکہ یہ قومی اتحاد اور جمہوری عمل کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ آئینی ترمیم پر اتحاد کا مظاہرہ کرنے والی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپوزیشن کی تنقید کو بھی احترام سے سنا اور گالی گلوچ کی سیاست کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ پیغام بالخصوص اس وقت اہمیت رکھتا ہے جب ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے اور ان مشکلات سے نکلنے کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ پاکستانی قوم کے لیے مسلسل چیلنج رہا ہے اور وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اس بات کو واضح کیا کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان اور بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ وانا میں خوارج کی دہشت گردی اور اسلام آباد کی جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہونے والی دہشت گردی کی وارداتیں اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ پاکستان کا امن اور سلامتی بین الاقوامی دہشت گردی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف نے دہشت گردوں کی افغانستان میں موجودگی اور وہاں کے عبوری حکومتی اداروں کی عدم تعاون پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کی 40سال تک میزبانی کی، لیکن اب افغانستان سے پاکستان کے امن کو خطرات درپیش ہیں، جو عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ وزیراعظم نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے دہشت گرد گروپوں کو اپنی سرزمین سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات ایک پیچیدہ مسئلہ ہیں۔ شہباز شریف نے دوحہ اور استنبول میں افغان عبوری حکومت سے مذاکرات کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان ہمیشہ افغان عوام کے لیے خیرمقدم کرتا رہا ہے۔ تاہم، اب پاکستان کی سیکیورٹی کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں اور افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے افغان حکومت کو پیشکش کی کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں امن قائم کرنے کی کوشش کرے، تاکہ دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی ممکن ہوسکے۔ شہباز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے لیے دہشت گردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کا مقصد صرف ملک کے اندر امن قائم کرنا نہیں، بلکہ یہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانا بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے چالیس سال تک افغانوں کی میزبانی کی اور اب ہمیں اپنے مفادات اور سیکیورٹی کی حفاظت کرنی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئینی عدالت کے قیام کو جمہوری عمل کا اہم حصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عدلیہ کے کردار کو مزید مستحکم کرے گا۔ آئینی عدالت کے ذریعے آئینی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مستقل فورم قائم ہوگا، جو ملک کی قانون سازی اور انتظامی عمل میں شفافیت کو بڑھا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے اس ترمیم کو بے نظیر بھٹو کے سیاسی نظریات اور نواز شریف کی جمہوری سوچ کا نتیجہ قرار دیا۔ شہباز شریف نے پاکستان کی وفاقی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے صوبوں کی ترقی پر زور دیا اور کہا کہ صوبوں کو ان کے حقوق دئیے جائیں تو وفاق بھی مضبوط ہوگا۔ انہوں نے خاص طور پر کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبے معاشی طور پر اہم ہوسکتے ہیں، لیکن اگر ان سے وفاقی وحدت کو نقصان پہنچے تو وہ ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قومی یکجہتی اور سیاسی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے راستے ہموار ہوسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ مصالحتی سیاست اور ملک کے مفادات میں اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر نے پاکستان کی آئینی، سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال پر اہم باتیں کی ہیں۔ آئینی ترمیم کا مقصد نہ صرف جمہوریت کو مستحکم کرنا ہے، بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش بھی ہے۔ اس خطاب میں جس طرح اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کی اہمیت اور ملکی سیکیورٹی کے مسائل پر بات کی گئی، وہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر ان مسائل کو اسی طرح سنجیدگی سے حل کیا جائے، تو ملک میں امن، ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
سمندر میں ڈوبنے سے 3میڈیکل کے طلبہ جاں بحق
کراچی کے ساحل پر منوڑہ ہمالیہ کے مقام پر پیش آنے والا سانحہ ایک افسوسناک حادثہ ہے جس میں تین میڈیکل کے فائنل ایئر کے طلبہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سانحہ ان طلبہ کے لواحقین کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، یہ واقعہ ایک معمولی پکنک کی صورت میں شروع ہوا، جہاں ایک گروپ نے تفریح کے لیے ساحل کا رخ کیا۔ مگر سمندر کی تیز لہریں اور غیر محتاط رویہ ایک بڑی تباہی کا سبب بن گئے۔ ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کے فائنل ایئر کے طلبہ کا یہ گروپ مستقبل میں ملک کے طبی شعبے کی خدمت کرنے والا تھا، لیکن بدقسمتی سے ان کی زندگیوں کا یہ انجام ہو گیا ۔ دوسری جانب، یہ واقعہ اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ معاشرتی سطح پر غیر ذمے داری کے رویے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ساحل پر موجود ریسکیو ٹیم نے بروقت کارروائی کی اور تین طلبہ کی لاشیں نکالیں، مگر جب تک وہ مدد کو پہنچے، یہ سانحہ اپنے بدترین نتائج کو پہنچ چکا تھا۔ اگرچہ یہ ریسکیو عملے کی فوری کوششوں کا نتیجہ تھا کہ تین طلبہ کی جان بچائی جا سکیں، مگر اس حادثے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایسے واقعات میں احتیاط اور پیشگی تیاری کی ضرورت ہے۔ اس سانحے کی تفصیلات کے مطابق، ایک طالب علم سمندر کی لہر میں پھنس گیا اور باقی طلبہ نے اسے بچانے کی کوشش کی، مگر بدقسمتی سے وہ ناکام رہے۔ یہ واقعہ ہمیں اس بات کی اہمیت یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی بنیادی تعلیم دینی چاہیے، خصوصاً جب وہ تفریح یا سیاحت کے دوران سمندر یا پہاڑوں کا رخ کریں۔ انہیں سمندری لہر کی شدت، گہرائی اور اس سے جڑے خطرات کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح، معاشرتی ذمے داری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی رہنمائی کریں تاکہ وہ نہ صرف تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیں، بلکہ اپنی حفاظت اور دوسروں کی حفاظت کو بھی مقدم رکھیں۔

جواب دیں

Back to top button