ریاستوں کا الحاق، بغاوت اور شاہراہِ ریشم گلگت بلتستان کی تاریخ کا نیا موڑ ( قسط دوم)

ریاستوں کا الحاق، بغاوت اور شاہراہِ ریشم گلگت بلتستان کی تاریخ کا نیا موڑ ( قسط دوم)
تحریر: یاسر دانیال صابری
تاریخِ گلگت بلتستان دراصل ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ یہاں کے پہاڑوں نے بغاوت دیکھی، وفاداری دیکھی ، اور قربانی کے وہ مناظر بھی دیکھے جنہوں نے پورے برصغیر کی سیاسی تاریخ بدل دی۔ کبھی نگر کے محل میں قلم نے پاکستان سے وفاداری کی دستاویز پر دستخط کیے، کبھی ہنزہ کے یخ بستہ درّوں میں میر نے چین کے نمائندوں کے ساتھ سرحدی معاہدہ کیا، اور کبھی انہی ریاستوں کے عوام نے آزادی و مساوات کے لیے اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔
1947 ء کا سال اس خطے کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ جب برصغیر کے نقشے بدل رہے تھے، تو ریاستِ نگر کے حکمران میر شوکت علی نے تاریخ کا ایک غیر معمولی فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی خودمختار ریاست کو پاکستان کے ساتھ ملانے کا اعلان کیا۔ ’’ دستاویز الحاق‘‘ میں واضح لکھا تھا کہ ریاستِ نگر اپنی داخلی خودمختاری برقرار رکھے گی، مگر دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے شعبے وفاقی حکومتِ پاکستان کے سپرد ہوں گے۔ یہ الحاق کوئی جبری فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ایک رضاکارانہ معاہدہ تھا، جس میں میر نے اپنے اختیارات کے استعمال سے یہ عہد کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مکمل وفاداری رکھیں گے۔ اس وقت کے گورنر جنرل پاکستان نے بھی دسمبر 1947ء میں اس معاہدے کو قبول کیا۔ یوں نگر اور ہنزہ، دونوں ریاستوں نے پاکستان کے دائرے میں داخل ہو کر اپنی آئینی وفاداری کا ثبوت دیا۔ یہ ایک تاریخی قدم تھا جس نے اس خطے کی آئندہ تقدیر کا راستہ متعین کر دیا۔
تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی عوام جنہوں نے آزادی کا جشن منایا تھا، محرومیوں، ناانصافیوں اور طبقاتی تقسیم کا شکار ہو گئے۔ نگر، ہنزہ، یاسین، پونیال اور دیگر چھوٹی ریاستوں میں عوامی بے چینی بڑھنے لگی۔ 1968ء میں سید یحییٰ شاہ اور ان کے ساتھیوں نے جمہوریت، تعلیم، انصاف اور عوامی نمائندگی کے لیے ایک تحریک شروع کی۔ یہ وہ دور تھا جب عوام نے پہلی مرتبہ آواز بلند کی کہ ’’ ریاستیں عوام کی ہیں، حکمرانوں کی جاگیر نہیں‘‘۔
1971 ء کے قریب پہنچتے پہنچتے، نگر اور ہنزہ میں عوامی اضطراب شدت اختیار کر گیا۔ ریاستی حکمرانوں کے خلاف مظاہرے ہوئے، نوجوانوں نے زمینوں کے حقوق اور برابری کے نعروں کے ساتھ احتجاج شروع کیا۔ 1972ء کی بغاوت دراصل ایک عوامی انقلاب تھی، جس نے صدیوں پر محیط جاگیردارانہ نظام کی بنیادیں ہلا دیں۔ چنانچہ 1972ء سے 1974 ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے خطے کی انتظامی ساخت بدلنے کا فیصلہ کیا۔ یوں ’’ شمالی علاقہ جات‘‘ (Northern Areas)کے نام سے ایک نیا انتظامی سیٹ اپ تشکیل دیا گیا۔ میر آف نگر اور میر آف ہنزہ کے اختیارات ختم کر دئیے گئے۔ ان کی حکومتیں تحلیل ہو گئیں اور ان کی جگہ وفاقی نمائندے مقرر کیے گئے۔ کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو عوامی کامیابی کہا، مگر بہت سے لوگ اسے روایتی خودمختاری کے خاتمے سے تعبیر کرتے رہے۔
ریاست نگر کی داستان ختم ہوئی، مگر ریاست ہنزہ کی تاریخ ایک نئے باب میں داخل ہو چکی تھی۔ 1962ء میں، پاکستان اور چین کے درمیان ایک اہم سرحدی معاہدہ ہوا جسے ’’ سائنو۔ پاکستان بارڈر ایگریمنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کے شمالی حصے، خصوصاً ہنزہ ریاست کے زیر اثر شکسگم ویلی کا تقریباً 400کلومیٹر علاقہ، چینی انتظامی کنٹرول میں دیا گیا۔ اس معاہدے پر اُس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے دستخط کیے، اور اس کی تیاریوں میں میر آف ہنزہ، محمد جمال خان کا کردار نمایاں تھا۔
روایت ہے کہ میر آف ہنزہ ایوب خان کے ہمراہ یاک پر سوار ہو کر بلند پہاڑی دروں تک پہنچے جہاں چینی نمائندوں کے ساتھ زمینی حدبندی کی نشاندہی کی گئی۔ اس تاریخی عمل نے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی بنیاد رکھی، جس کا عملی مظہر بعد میں شاہراہِ قراقرم (Karakoram Highway)کے روپ میں سامنے آیا۔
یہ معاہدہ بظاہر ایک سرحدی تصفیہ تھا، مگر حقیقت میں اس نے پاکستان اور چین کے تعلقات کو ایک نئی جہت دی۔ چینی قیادت نے نہ صرف اس خطے میں سڑکیں تعمیر کرنے کی پیشکش کی بلکہ تجارتی راہداریاں کھولنے کا منصوبہ بھی دیا۔ آج وہی شاہراہ جو ہنزہ اور گلگت سے گزرتی ہے، دنیا کی سب سے بلند بین الاقوامی شاہراہ ہے، جو بعد میں سی پیک (CPEC)کی بنیاد بنی۔
یہ سب کچھ ممکن نہ ہوتا اگر اُس دور کے میر نے اپنی ریاستی زمین کو قومی مفاد میں قربان نہ کیا ہوتا۔ ریاستی مراعات رکھنے کے باوجود، میر آف ہنزہ نے تاریخ کا وہ فیصلہ کیا جس نے پورے خطے کی تقدیر بدل دی۔ یہی وجہ ہے کہ ہنزہ کے میر کو اُس وقت ’ میجر جنرل کے مساوی مراعات‘ حاصل رہیں۔ وہ فوجی سطح پر اعزازی پروٹوکول رکھتے تھے اور بین الاقوامی سطح پر ان کا کردار پاکستان کے نمائندے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
دوسری طرف، عوامی بغاوتوں نے جاگیردارانہ نظام کو توڑا اور گلگت بلتستان کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ مگر یہ دور خوشی اور الجھن دونوں لے کر آیا۔ ایک طرف عوام کو برابری اور آزادی ملی، دوسری طرف آئینی حیثیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ ریاستی خودمختاری کے خاتمے کے بعد بھی گلگت بلتستان کا پاکستان میں آئینی انضمام مکمل نہ ہو سکا۔
آج بھی دستاویزِ الحاقِ نگر اور1962ء کا ہنزہ۔ چین معاہدہ اس خطے کی تاریخ کے بنیادی ثبوت ہیں۔ یہ دونوں دستاویزات اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ گلگت بلتستان نے کسی جنگ یا جبری قبضے سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے پاکستان سے الحاق کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کو ’’ مفتوحہ علاقہ نہیں بلکہ وفادار خطہ‘‘ کہا جا سکتا ہے، ایک ایسا خطہ جس نے نہ گملا توڑا، نہ کسی دشمن پر حملہ کیا، بلکہ اپنے فیصلے سے پاکستان کو اپنا وطن بنایا۔ تاہم، 1972ء کے بعد سے اب تک گلگت بلتستان کے عوام ایک سوال کے ساتھ زندہ ہیں: اگر ہم نے اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا تو آج بھی ہماری آئینی شناخت کیوں ادھوری ہے؟ کیوں ہمیں مکمل صوبائی حقوق نہیں دئیے گئے؟ کیوں ہماری اسمبلی کو قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل نہیں؟
یہ سوال آج بھی شاہراہِ ریشم کے پہاڑوں میں گونجتا ہے، دریائے ہنزہ کے پانیوں میں بہتا ہے، اور نگر کے بزرگوں کی یادوں میں زندہ ہے۔ تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ خطہ کسی کی فتح کا نتیجہ نہیں، بلکہ اپنی محبت اور عقیدت سے پاکستان کا حصہ بنا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھی اپنی اس وفادار دھرتی کو مکمل شناخت دے تاکہ وہ دن آئے جب گلگت، ہنزہ، نگر، بلتستان سب مل کر ایک آواز میں کہہ سکیں: ’’ ہم نے پاکستان کو چُنا تھا، اب پاکستان ہمیں تسلیم کرے‘‘۔
گلگت بلتستان کی تاریخ صرف ایک جغرافیائی داستان نہیں بلکہ ایک فکری جدوجہد کی علامت ہے۔ ریاستوں کے الحاق سے لے کر عوامی بغاوتوں تک، ہنزہ کے درّوں سے شاہراہِ ریشم تک یہ سب قربانی، وفاداری اور استقلال کی کہانی ہے۔ اب یہ تاریخ ایک نئے باب کی منتظر ہے، جہاں عوام کو وہ مقام اور وقار ملے جس کے وہ اصل حقدار ہیں۔





