ترامیم کی محرک PTI؟ اور رویوں کی ناممکن ترمیم

ترامیم کی محرک PTI؟ اور رویوں کی ناممکن ترمیم
عبدالحنان راجہ
پاکستان کے خوبرو اور مقبول وزیر اعظم روسی صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات کے بعد نازاں و شاداں تو تھے ہی مگر ان کے بلا تعطل اقتدار میں رہنے کے گر کا روگ بھی ساتھ پال لائے جس کا اظہار سرد و گرم چشیدہ گجرات سے پارٹی صدر و سابق وزیر اعلیٰ سے کیا۔ اس سے قبل چین کے دورہ کے بعد چینی طرز حکومت اور سعودیہ سے واپسی پر ’’ جہاندیدہ‘‘ دماغ میں مخالفین کو تیز رفتار انصاف مہیا اور انہیں نشان عبرت بنانے کا فارمولا بھی زیر غور تھا۔
طاقتور حکمرانوں کا انداز حکومت بھلا کسے نہیں بھاتا کہ روایتی سوچ کا ہر حکمران جائز و ناجائز طریق سے اقتدار کا دوام ہی چاہتا ہے۔
اب PTIکے دوستوں کو غشی کے دورے پڑیں یا PMLnکے متوالے اس پہ چیں بہ جبیں ہوں، حقیقت یہی ہے کہ کوئی امیرالمومنین کی خواہش دل میں دبائے ہوئے ہے تو کوئی امت مسلمہ کی قیادت کو بے تاب۔ ویسے یہ خواہشات کوئی اتنی مذموم بھی نہیں، اگر اہلیت ہو تو!۔
کچھ احباب 27ترمیم پر مضطرب تھے تو کچھ نمبرز گیم کی ترتیب پر۔ ان کے لیے عرض ہے اپوزیشن کا مسئلہ ترامیم نہیں اپنے مخالف کی جیت کا پے۔ یہ سہولت، حکومت اور حمایت انہیں میسر ہوتی تو وہ بھی کر گزرتے۔ پی ٹی آئی کا حال اس خاتون کی طرح، جو اپنے داماد پر تو صدقے واری کہ اس کی بیٹی کی ’’ ہر بات‘‘ بلا چون و چرا مانی جا رہی ہوتی ہے مگر انہی خطوط پر اپنا بیٹا رن مرید نظر آتا ہے۔ سو حقائق کی دنیا میں رہنے والوں کے لیے ترامیم ایشو نہیں۔ قیادت لیگی ہو پی پی کی یا پی ٹی آئی کی، سبھی، اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
کرم فرمائوں سے گزارش ہے کہ وہ اسے حق و باطل کی جنگ سمجھ کر اپنا عقیدہ خراب نہ کریں ٹھنڈے دل سے بیان کردہ حقیقت کا ادراک کریں اور چند سال قبل سینٹ میں عدم اعتماد کا منظر اپنے ننھے دماغ میں لائیں تو جمہور کے ابلیسوں کا طریقہ واردات آنکھوں کے سامنے گھوم جائے گا۔ PTIکے جواں ہمت دوست بتا سکتے ہیں کہ اس وقت چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد پر 11سے بارہ ووٹوں کا فرق کیسے دور ہوا تھا۔ ؟ اپوزیشن کی جیت یقینی تھی کہ فرق ایک 2 ووٹوں کا نہیں گیارہ سے 12کا تھا۔ مگر پھر بھی پی ٹی آئی کے صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کپتان سمیت سب نے اسے ضمیر کی آواز کہا۔ اب غلطی سے یہ کام فقط دو سینیٹرز نے اگر کر ہی دیا تو مسلم لیگ ن کو بھی جشن منانے دیں۔
باقی رہے کارکن ! تو وہ تھالی کے بینگن۔ کہ نظریات پر قیام تو اب رہا نہیں۔ مگر پھر بھی یہ اتنے سخت جان اور خالی الدماغ کہ ماضی کی بے ضمیریوں کے باوجود میڈیا و سوشل میڈیا پر ضمیر جگانے میں مصروف اور اقدار و اصولوں پر درس دیتے نہیں تھکتے۔
محترم اچکزئی کو ہی دیکھ لیجئے کہ پاکستان سے زیادہ افغانستان کے وفادار مگر موصوف کو جب جب موقع ملا نہ صرف خود اقتدار کے مزے لیے بلکہ خاندان کو بھی اس سے خوب خوب مستفیض کیا۔ اس بار مولانا کا در دولت عقیدت مندوں سے خالی رہا اور بیٹھک ویران۔ سو غم غلط کرنے کے لیے انہوں نے بیرون ملک کی راہ لی۔ البتہ اب وہ مدارس اور آئمہ کے نام پر زمین گرم کرنے کی سوچ رہے ہیں۔
سیاست کے اخلاقی پہلوئوں کو مد نظر رکھ کر گہرے ادراک سے سوچا جائے تو 26ہو یا 27ویں آئینی ترمیم، محرک کپتان کا غیر سیاسی، غیر جمہوری اور غیر دانش مندانہ رویہ۔ سیاسی شعور کی حامل اور صاحب فراست قیادت حلیف کو پہنچانتی ہے تو حلیف کے انتخاب میں بھی خطا نہیں کھاتی۔ اختلاف کے آداب سمجھتی ہے اور دوستی نبھانے کا ظرف بھی رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی نے سیاست کے ان اصولوں کا کتنا پاس رکھا سب کے سامنے۔ صاف بات تو یہ کہ سپہ سالار کی دشمنی میں مسلح افواج کے خلاف مہم، شیخ مجیب کو آئیڈیل، اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر سے روکنے کی اپیل، سیاسی قوتوں سے عدم مذاکرات، ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ حتی کہ پاک بھارت جنگ کے دوران کردار جیسی حماقتوں اور بعض ججز کے سیاسی کردار نے سیاسی و عسکری قیادت کو ترامیم پر مائل کیا۔ پی ٹی آئی اگر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مخالفت اور مقابلہ سیاست کے میدان میں اور حدود کو پامال نہ کرتی تو میرا نہیں خیال کہ ایسی ترامیم کی ضرورت پڑتی۔ 18سے 20نشستوں تک محدود ہو جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی اگر سیاسی حکمت سے اپنے لیے اقتدار کے دروازے کھول سکتی ہے تو مینڈیٹ کے حوالے پی ٹی آئی اس سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن پہ تھی۔ مگر نااہل قیادت طاقت اور حمایت کو برموقع استعمال کر سکی اور نہ مقبولیت کے کارڈ سے فائدہ اٹھا سکی۔ سیاسی بونگیوں کو فراست اور اقتدار کے لیے لڑنے مارنے کو حقیقی آزادی کا نام دیا گیا۔ وگرنہ قیادت اگر فہمیدہ اور سنجیدہ ہوتی تو بلا وجہ کارکنوں کو امتحان میں ڈالتی اور نہ اپنے لیے پریشانیوں کے دروازے کھولتی۔ اور تو اور سیاسی نادان پاکستان کے خلاف مہم کو بھی حب الوطنی سے معمور کرتے نہیں چوکتے۔
اپنی عوامی مقبولیت اور پارلیمانی قوت کو درست طریق سے بروئے کار لا کر PTIکہیں آسان طریق سے اپنے اہداف کا حصول ممکن بنا سکتی تھی مگر شاید اس جماعت میں جہاندیدہ اور سیاسی بلوغت کے حامل کسی فرد کی گنجائش ہے اور نہ انہیں اپنی جماعت کے دیگر قائدین پر اعتماد۔ قیادت سے کارکنوں تک سبھی ہوا کے گھوڑے پر سوار اور حد درجہ عناد کا شکار۔ انہی بیماریوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھرپور طاقت ہونے کے باوجود پوری جماعت کو وینٹیلیٹر پہ ڈال رکھا ہے اب جھوٹ اور بہتان ان کی آکسیجن۔
حکومت پر تنقید حرام اور نہ عوامی مسائل پر بات ناجائز، یہ جمہوریت کا حسن اور صاحبان اقتدار کو درست سمت رکھنے کی نکیل، بشرطیکہ حدود کراس نہ ہوں تو۔ کوئی ضابطہ کوئی قاعدہ پرتشدد احتجاج کی اجازت دیتا پے اور نہ قومی سلامتی سے کھیلنے کی۔ اب تو کھلاڑیوں کے محبوب یوٹیوبر نے بھی 26نومبر واقعہ کو پلندہ قرار دیکر پارٹی قیادت کے خوب لتے لیے۔ کہ پارٹی نے آج تک دعووں کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی فہرست جاری کی اور نہ کسی سطح پر کوئی قانونی چارہ جوئی۔ ان حالات میں 26یا 27ویں کے بعد 28ویں ترمیم کا آنا اچنبھا نہیں۔ ہاں مگر ان ترامیم کو ثمر آور بنانے کے لیے سیاسی قیادت کے رویوں میں ترمیم کی ضرورت، مگر 70سالہ بابوں کے رویوں میں ترمیم کیسے ممکن ۔ ؟ حل آپ بھی سوچیں اور میں بھی۔





