ColumnImtiaz Aasi

تمہیں کوئی مسئلہ ہو تو بتائو؟

تمہیں کوئی مسئلہ ہو تو بتائو؟
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
چند ماہ پہلے کی بات ہے وفاقی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا تو راولپنڈی کے علاقے صادق آباد میں مقیم ایک افغان جان پہچان والے تندورچی سے ہم نے از راہ ہمدردی کہہ دیا اسلم اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے ضرور بتانا۔ اسلم کا ایک ساتھی جو اس سے کسی بات پر ناراض تھا اس نے علیحدہ سے اپنا تنور کھولا ہوا تھا کہنے لگا اسلم کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہے۔ خیر اب اسلم افغانستان چلا گیا ہے، سنا ہے بیکری کھول لی ہے۔ یہ ساری کہانی بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جن مہمانوں کو یہاں چالیس سال قبل بلوایا گیا تھا، وہ مجھ ایسے پاکستانی شہری سے کہتے ہیں، جس کے آباواجداد ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلرسیداں کے رہنے والے تھے، اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتانا۔ وفاقی دارالحکومت میں خودکش دھماکے کے واقعے سے مجھے اسلم والی بات یاد آگئی۔ ہماری خارجہ پالیسی ٹھیک ہوتی تو افغانستان کے رہنے والے لوگ یہاں سے کب کے واپس چلے جاتے۔ وفاقی حکومت کی بات کریں تو پناہ گزینوں کے خلاف کئی بار وقفے وقفے سے آپریشن کا اعلان ہوا، لیکن غیر قانونی افغان بدستور جڑواں شہروں میں موجود ہیں۔ اگرچہ خودکش دھماکہ کچہری کے اس احاطے سے باہر ہوا، جہاں واک تھر گیٹ نصب ہے، لہذا اسے سکیورٹی اداروں کی ناکامی نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں اگر دھماکہ عدالت کے احاطے کے اندر ہوتا پھر کہا جا سکتا تھا سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا شاخسانہ ہے۔ اگلے روز کوئٹہ ہوٹل کے ایک ملازم سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو۔ اس کے جواب سے پہلے میں نے کہا یا ر جیتنے کوئٹہ ہوٹلوں والے ہیں سب افغان ہیں، تو اس نے جواب دیا وہ بھی افغان ہے لیکن اس کے دادا بھی کوئٹہ میں آئے تھے۔ اسلام آباد میں خودکش دھماکے کے سانحہ پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ جو بھی اس واقعے میں شہید ہوئے خواہ وکیل تھے یا عام شہری حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے ( امین)۔
پاکستان کی حکومت نے حالیہ دنوں میں افغانستان بارے کچھ سخت موقف ضرور اپنایا ہے، تاہم وقت آگیا ہے ہماری حکومت کو ہر صورت میں افغان پناہ گزینوں کو ملک سے بدر کرنا چاہیے۔ جہاں تک خودکش بمبار کی بات ہے اس کا سر ملے یا ٹانگیں، ہمارے شہید ہونے والے بھائی تو واپس نہیں آسکتے۔ افغانوں کا ہمارے ملک میں دھماکے کرنا نئی بات نہیں ہے، کئی عشرے قبل فیصل آباد اور لاہور میں ہونے والے بم دھماکے افغانوں نے کئے تھے۔ گو اس وقت خودکش دھماکوں کا رواج نہیں تھا، لیکن وہ دھماکے افغانوں نے کئے تھے۔ دھماکے کرنے والوں میں سے ایک کا نام سخی تھا، جسے سینٹرل جیل اڈیالہ کی سزائے موت میں سخی ماما کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ سخی ماما افغانستان کے علاقے کنٹر کا رہائشی تھا، اس کے خاندان کے لوگ گوجر خان میں مقیم تھے۔ یہ بات یقینی ہے سخی ماما کے خاندان کے لوگ اب بھی گوجر خان میں قیام پذیر ہوں گے۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے پر رونق بازاروں میں بڑی، بڑی دکانوں کے مالکان میں زیادہ تر افغان ہیں۔ چھابے والوں اور رکشہ چلانی والوں کی تو بات نہ کریں، اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آرہا آخر انصار مدینہ والی میزبانی اور کب تک چلتی رہے گی۔ ایک طرف جنگ بندی اور دوسری طرف خودکش دھماکے منافقت کی انتہا ہے۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہے اگرچہ شہباز حکومت کمزور ترین اور فارم 47کی حکومت ہے، کم از کم افغان بارڈر کے معاملے میں تو ڈٹی ہوئی ہے، انہیں بھی پتہ چلے بارڈر بند ہونے کا مزہ کیسا ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت کو اب چاہیے جو بھی افغان ملک کے کسی حصے میں مقیم ہیں ان کے شناختی کارڈ کی فوری جانچ پڑتال ہونی چاہیے، ہمیں یقین ہے اگر حکومت یہ کام کر لے تو غیر قانونی افغانوں کی بہت بڑی تعداد گرفت میں آسکتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے نواح میں مارگلہ ٹائون کے قریب پونا فقیراں میں افغانوں نے غیرقانونی طور پر بستی آباد کی ہوئی تھی، کم از کم وہ تو ختم ہو گئی ہے۔ اگلے روز مجھے ہمشیرہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے جانا ہوا تو قبرستان کے قرب میں واقع افغانوں کی غیر قانونی بستی منہدم ہو چکی تھی، جسے دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔
شیخ سعدیؒ نے اپنی کتاب میں افغان قوم بارے ویسے نہیں لکھا تھا یہ بد ذات قوم ہے۔ یوں تو افغانستان مغل بادشاہوں کی کبھی سلطنت ہوا کرتا تھا۔ برصغیر میں مغلوں کی آمد کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوا تھا۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کالعدم تحریک طالبان کو پاکستان سے کیا مسئلہ ہے۔ اگر وہ قبائلی علاقوں کے مکین تھے تو انہیں قانونی دھارے میں لانا کوئی جرم تو نہیں تھا۔ ہمارے ایک عزیز دوست شہید سینیٹر ملک فرید اللہ خان وزیر نے جنرل پرویز مشرف کو قبائل سے چھیڑ خانی سے منع کیا تھا مگر وہ باز نہ آئے، جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ امریکیوں کو دوست سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ امریکہ نے قبائل کے خلاف آپریشن کرا کر ہمارا امن برباد کر دیا۔ جب تک قبائل وفاق کے زیر انتظام رہے، ان کے سینیٹر اور ایم این ایز ہوتے تھے۔ ماسوائے ملک فرید اللہ خان کے جو ایچی سن کا تعلیم یافتہ اور لاء گریجویٹ تھا تمام کے تمام قبائلی سینیٹر اور ایم این ایز انگوٹھا چھاپ ہوا کرتے تھے۔ کم از کم دہشتگردی تو کے پی کے میں نہیں ہوتی تھی۔ ملک فرید اللہ خان کے ولد ملک نصر اللہ خان بھی ایڈووکیٹ تھے۔ فرید اللہ خان کے دادا خان بہادر مانی خان نے صدر پاکستان غلام اسحاق خان مرحوم کو بنوں میں نائب تحصیل دار بھرتی کرایا تھا۔ ویسے تو غلام اسحاق خان نے اپنے کیرئیر کا آغاز ژوب میں بطور کلرک کیا تھا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے افغانوں کو مکان اور دکان کرایہ پر دینے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جو احسن اقدام ہے، کم از کم غیر قانونی افغان شہریوں کی وطن واپسی کے سلسلے میں یہ اقدام مددگار ثابت ہو گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے افغان شہری اب کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں، انہیں ہر صورت ان کے ملک واپس جانا چاہیے اور اس مقصد کے لئے پاکستانی شہریوں کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button