اسلام آباد کچہری کے باہر دھماکہ، 12افراد شہید

اسلام آباد کچہری کے
باہر دھماکہ، 12افراد شہید
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز جی الیون کے علاقے میں واقع کچہری کے باہر ہونے والے خودکُش دھماکے میں 12افراد کی شہادت اور 36زخمی ہونے کی افسوسناک خبریں منظرعام پر آئیں۔ زخمیوں میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے، جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ دہشت گردی کی ایک مذموم کارروائی ہے۔ دشمن ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز ہی سیکیورٹی فورسز نے انتہائی جانفشانی سے کیڈٹ کالج وانا میں دہشت گرد حملے کو ناکام بناتے ہوئی ناصرف تمام خوارج کو ہلاک کیا بلکہ اسٹوڈنٹس اور اساتذہ سمیت 650افراد کو بحفاظت ریسکیو کیا۔ سیکیورٹی فورسز نے اس کارروائی کے ذریعے دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بناکر دفاع وطن کا فریضہ احسن انداز میں نبھایا۔ دوسری جانب جی الیون کی کچہری، جہاں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگ انصاف کی تلاش میں آتے ہیں، وہ ایک محفوظ مقام سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، حالیہ خودکُش حملے نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ یہ حملہ بھارت کے حمایت یافتہ اور افغان طالبان کی پراکسی ’’فتنہ الخوارج’’ کی جانب سے کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 12افراد شہید اور 36زخمی ہوئے۔ ان زخمیوں میں وکلا بھی شامل ہیں، جو اپنے پیشہ ورانہ امور میں مصروف تھے۔ دھماکے کے بعد پولیس اور ریسکیو ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کیں، جبکہ کچہری کی عمارت کو خالی کرالیا گیا۔دھماکے کے بعد جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق خودکُش حملہ آور باجوڑ سے اسلام آباد آیا تھا اور اس نے کچہری کے گیٹ کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس خودکش حملے کا تعلق پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر سے ہے۔ حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں خاص طور پر طالبان اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر دیکھنے کو ملی ہے، جو نہ صرف شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ ملک کی سیکیورٹی فورسز اور اہم اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ کچہری جیسے حساس مقام پر حملہ ہونا، جہاں روزانہ کی بنیاد پر وکلا، ججز اور عوامی نمائندے موجود ہوتے ہیں، ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس نوعیت کے حملوں کے نتیجے میں ملک میں سیاسی، سماجی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔ تاہم سیکیورٹی فورسز فتنوں کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں اور وہ ان کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، جن میں انہیں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچ کر ریسکیو سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور زخمیوں کو بہتر علاج فراہم کرنے کے لیے ضروری ہدایات جاری کیں۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خودکُش حملے میں 12افراد شہید ہوئے ہیں اور زخمیوں کا علاج جاری ہے۔ محسن نقوی نے یہ بھی کہا کہ فول پروف سیکیورٹی کی بدولت خودکش بمبار کچہری کے اندر داخل نہیں ہوسکا۔ سیکیورٹی فورسز نے اس دھماکے کے بعد پورے ملک میں سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ لاہور سمیت تمام بڑے شہروں میں نگرانی کو بڑھا دیا گیا ہے اور عوامی مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کو مزید سخت کیا گیا ہے۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع فوری طور پر سکیورٹی فورسز کو دیں۔ اس کے باوجود، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اقدامات کافی ہیں؟ کیا حکومت اور سکیورٹی ادارے اس دہشت گردی کی لہر کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث گروہ، جیسے کہ افغان طالبان اور ان کی پراکسی فورسز، پاکستان کے داخلی مسائل کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کے ذریعے پورے ملک کو دہشت گردی کا نشانہ بنارہے ہیں۔ دہشت گردی کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے صرف سکیورٹی اقدامات کافی نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ملک کی داخلی سیاسی صورت حال، سماجی استحکام اور اقتصادی ترقی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں کچہری کے باہر ہونے والا خودکش دھماکہ کرکے دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کو پورا نہیں کرسکتے، وہ پہلے بھی ناکام رہے تھے، آئندہ بھی ناکامیاں اُن کا مقدر بنیں گی اور وہ ملک کو نقصان پہنچانے کی سازش میں کسی طور کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز امن و امان کی فضا کو ہر صورت برقرار رکھیں گی۔ اسی لیے حکومت اور سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر ردعمل دکھایا گیا۔ پاکستان کو دہشت گردی کی اس لہر سے نمٹنے کے لیے اپنے اندرونی سکیورٹی ڈھانچے کو مزید مستحکم کرنا ہوگا۔ پاکستان کو دُنیا کی بہترین افواج کا ساتھ میسر ہے۔ پاکستان پہلے بھی تن تنہا دہشت گردی پر قابو پاچکا ہے اور اس بار بھی فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کا خاتمہ چنداں مشکل نہیں ہوگا۔ عوام اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اور انہیں ان پر فخر ہے۔
ای کورٹس نظام کیلئے لائحہ عمل تشکیل
پاکستان میں عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کا ایک نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے، جس میں ای کورٹس نظام کا نفاذ اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ چیف جسٹس پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں عدلیہ کے نظام کی ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ اس اجلاس کا مقصد عدلیہ کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا اور عوام کو تیز، شفاف اور موثر انصاف فراہم کرنا ہے۔ دنیا بھر میں عدلیہ کے نظام کو جدید بنانے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں بھی عدالتوں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے ای کورٹس کا نظام ضروری سمجھا گیا ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ عدلیہ کا ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن عوامی مفاد میں ہے اور اس سے شفافیت اور کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے گا تاکہ ایک جامع اصلاحات کا عمل ممکن ہوسکے۔ ای کورٹس کے ذریعے عدلیہ کی کارروائیاں مزید شفاف ہو سکیں گی اور بدعنوانی کے امکانات میں کمی آئے گی۔ کیسز کی سماعت آن لائن ہوسکے گی، جس سے عدالتوں میں پیش ہونے والے افراد کے لیے بہت سی مشکلات حل ہوجائیں گی، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں اور عدالتوں میں آنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ایک اور اہم اعلان یہ تھا کہ اگست 2026 ء تک پاکستان کی تمام عدالتیں سولر انرجی پر منتقل کردی جائیں گی۔ یہ اقدام عدلیہ کے توانائی کے اخراجات کو کم کرنے اور ماحول دوست توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف عدالتوں کی توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ پاکستان کے توانائی کے مسائل میں بھی بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ، چیف جسٹس نے خواتین کے لیے سہولت مراکز کے قیام، ای لائبریریز کے آغاز اور صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کی تکمیل کا بھی ذکر کیا۔ یہ اقدامات نہ صرف عدلیہ کی کارکردگی کو بہتر بنائیں گے بلکہ معاشرتی بہتری کے لیے بھی اہم ثابت ہوں گے۔ خواتین کے لیے سہولت مراکز کا قیام ان کی عدالتوں میں شرکت کو بڑھائے گا اور ان کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کرے گا۔ پاکستان میں عدلیہ کی اصلاحات کا یہ نیا لائحہ عمل عدلیہ کو نہ صرف جدید بلکہ عوامی ضروریات کے مطابق بھی ڈھالے گا۔ ای کورٹس، سولر انرجی، ای لائبریریز اور دیگر اقدامات سے عدلیہ کا نظام تیز، موثر اور شفاف ہو گا، جو پاکستان کے انصاف کے نظام کی بنیاد کو مزید مستحکم کرے گا۔





