CM RizwanColumn

ابڑو کا ووٹ اور حق کی آبرو

جگائے گا کون؟
ابڑو کا ووٹ اور حق کی آبرو
تحریر: سی ایم رضوان
فیلڈ مارشل کا رینک پاک فوج میں جنرل، فضائیہ میں ایئر چیف اور بحریہ کے ایڈمرل سے بھی بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ یہ ایک اعزازی عہدہ ہے جو کسی بھی جنرل کو اس کی اعلیٰ ترین فوجی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے جبکہ یہ ایک اعزازی اور تاحیات عہدہ ہوتا ہے مگر اس تاحیات عہدے کو لے کر وطن دشمنوں کے اشاروں پر پچھلے سات ماہ سے جو واہیات بولی اور لکھی جا رہی ہیں۔ عام اور محب وطن شہری اس سے عاجز آ چکے ہیں۔ ان واہیات تبصروں کے رد کے لئے اور فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی حیثیت دینے کے لئے اور دیگر ملکی آئینی و جمہوری معاملات میں بہتری کے لئے گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ اب سینیٹ سے بھاری اکثریت سے منظور ہو چکی ہے۔ اب اگلے مرحلے میں یہ قومی اسمبلی سے بھی بھاری اکثریت سے منظور ہو جائے گی۔ لا محالہ اس میں کچھ خامیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کو آئندہ قانون سازی کے ذریعے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن اور طریقہ کار ہے۔ مگر خواہ مخواہ کی تنقید اور فضول قسم کے تبصرے وقت کے ضیاع اور توانائی کے غیر موزوں استعمال کے مترادف ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں مجموعی طور پر 7 بڑے پروپیگنڈے کئے گئے جبکہ ان پروپیگنڈوں کے برعکس حقائق کچھ اور ہیں۔ ان پراپیگنڈوں کے ناکام ہونے سے وہ عناصر جو نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے وہ سوشل میڈیا پر طرح طرح کا پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں۔ اس حوالے جو گمراہ کن باتیں پھیلائی گئی ہیں ان میں پہلی یہ ہے کہ یہ ترمیم اقتدار پر قبضے کی کوشش ہے جب کہ حقیقت میں یہ اختیارات چھیننے کی نہیں بلکہ اداروں کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔ اس ترمیم کا مقصد آئینی تنازعات کے تیز تر حل کے لئے ایک آئینی عدالت قائم کرنا ہے تاکہ سپریم کورٹ صرف اپیلوں اور نظائر پر توجہ دے سکے۔ دوسرا پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ اس ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی کمزور ہو گی جبکہ حقیقت میں یہ عدلیہ کی آزادی کو مضبوط کرتی ہے۔ ججوں کی تعیناتی اور مدتِ کار کو واضح اور معیاری بنا کر پسند و ناپسند اور ذاتی اثر و رسوخ کے تاثر کو ختم کیا جائے گا تاکہ آزادی ایک اصول بنے، رعایت نہیں۔ فیصل واوڈا نے اس حوالے سے خوبصورت تبصرہ کیا ہے کہ نوکری میں مرضی نہیں چلتی۔ تیسرا پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ اس سے صوبائی خودمختاری متاثر ہو گی جبکہ حقیقت میں این ایف سی ایوارڈ کی نظرِ ثانی کا مقصد مرکزیت نہیں بلکہ مالی توازن ہے۔ وفاق اختیارات واپس نہیں لے رہا بلکہ محصولات اور اخراجات کے فرق کو بہتر طریقے سے متوازن کر رہا ہے تاکہ صوبائی خودمختاری کاغذ پر نہیں بلکہ عمل میں برقرار رہے۔ چوتھا پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ اس ترمیم کے ذریعے فوج کو سیاسی بنایا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ تبدیلی کمان کے ڈھانچے میں نہیں بلکہ جنگ کے تصور میں جدت لاتی ہے کیونکہ جدید جنگ کے تقاضے مشترکہ منصوبہ بندی اور ہم آہنگی پر مبنی ہیں۔ اس ترمیم کا مقصد یہی واضح کرنا ہے کہ سول اور عسکری سطح پر ہم آہنگی آئینی حدود میں رہتے ہوئے مضبوط بنائی جائے۔ پانچواں پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کمزور ہو گا جبکہ حقیقت میں یہ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کی سمت ایک قدم ہے کیونکہ اس ترمیم کے بعد چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی میں سیاسی تعطل ختم کرنے کے لئے واضح ٹائم لائن اور غیر جانبدار نامزدگی کا طریقہ شامل کیا جا رہا ہے تاکہ کمیشن زیادہ خود مختار اور موثر ہو۔ چھٹا پروپیگنڈا یہ ہے کہ مجسٹریٹ کے اختیارات پرانی حکمرانی واپس لائیں گے جبکہ حقیقت میں یہ محدود اور محفوظ انتظامی اصلاح ہے۔ اب چھوٹے مقدمات اور تنازعات کے فوری حل کے لئے محدود مجسٹریسی اختیارات عدالتی نگرانی میں بحال کیے جائیں گے تاکہ عوام کو تیز تر انصاف مل سکے۔ ساتواں پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ یہ انقلابی تبدیلی ہے جبکہ حقیقت میں 27ویں ترمیم انقلاب نہیں، ارتقا ہے۔ یہ پاکستان کے آئینی سفر کی پختگی کا پہلا مرحلہ ہے، اقتدار کی تقسیم نہیں بلکہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کا قدم ہے۔ اس بل کے مسودے کے مطابق ’’ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘‘ کا عہدہ رواں برس 27نومبر سے ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح ’’ کمانڈر، نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ‘‘ کا ایک نیا عہدہ بنائے جانے کی تجویز ہے، جس کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے چیف آف ڈیفنس فورسز یا آرمی چیف کی سفارش پر کیا جائے گا جبکہ چیف آف ڈیفنس فورسز پاکستان فوج سے ہوں گے۔ مسودے کے مطابق حکومت افسران کو ’’ فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ‘‘ کے عہدے پر ترقی دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ افسران زندگی بھر اپنے عہدے، مراعات اور وردی کو برقرار رکھیں گے اور انہیں آرٹیکل 47کے طریقہ کار کے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے، جو صدر کے مواخذے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں صدر کی طرح آرٹیکل 248کے تحت استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، جس کے تحت ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ ترمیمی بل کا دوسرا بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے جس میں ایک الگ ’’ وفاقی آئینی عدالت‘‘ کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ الگ عدالت آئینی تنازعات، وفاق اور صوبوں کے اختلافات، بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات اور آئین کی تشریح جیسے معاملات کی سماعت کرے گی۔ اس عدالت کا مستقل صدر مقام اسلام آباد ہو گا، ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68سال جبکہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال ہو گی جو عمر پوری ہونے سے پہلے ہی مکمل ہو سکتی ہے۔ مجوزہ ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اختیارات میں سب سے بڑی تبدیلی آئین کے آرٹیکل 184 کی منسوخی ہے، جس کے ذریعے سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جائے گا۔ اس اختیار کو وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو بنیادی حقوق یا آئینی نوعیت کے مقدمات میں خود کارروائی کر سکے گی۔
آرٹیکل 185میں بھی ترمیم کر کے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو اپیلوں تک محدود کیا گیا ہے۔ ترمیم میں عدالتی تقرریوں اور ضابطہ اخلاق کے نظام میں بھی تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹسز شامل ہوں گے جو چیف جسٹس سینیارٹی میں برتر ہوں گے وہ کمیشن یا کونسل کے چیئرمین کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔ ترمیم میں یہ بھی درج ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس اور ججوں کی تقرری صدرِ مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے، تاہم یہ شق صرف ابتدائی تقرریوں تک محدود ہو گی۔ ججز کے تبادلے کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے جبکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سینئر نہیں ہو گا، ٹرانسفر سے انکار پر جج کو ریٹائر کر دیا جائے گا، ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقررہ مدت تک کی پنشن اور مراعات دی جائیں گی۔ س کے علاوہ 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق آرٹیکل 93میں ترمیم کے ذریعے وفاقی مشیروں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر سات کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آرٹیکل 130کے تحت صوبائی کابینہ کے ارکان کی تعداد 17اور وزرائے مملکت کی حد 13کی گئی ہے۔ ایک اہم شق صدر پاکستان اور گورنروں کو حاصل استثنیٰ سے متعلق ہے۔ یعنی آرٹیکل 248میں ترمیم کے بعد صدر کو تاحیات فوجداری استثنیٰ ہو گا۔ اسی طرح گورنروں کو یہ استثنیٰ ان کے عہدے کی مدت کے دوران حاصل ہو گا۔
پچھلے ایک ہفتے سے 27ویں آئینی ترمیم پر بڑے بڑے انقلابی تبصروں اور بے تکی گالی گلوچ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ واویلا کیا جاتا رہا ہے کہ حکمران اس ترمیم کے ذریعہ فوج کو اور خاص طور فیلڈ مارشل کو بڑا تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر یہ ترمیم منظور ہو گئی تو ملک کا اور جمہوریت کا بڑا نقصان ہو جائے گا حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سینیٹ میں جب اس ترمیم کو منظور کیا جانا تھا تو یہ سارے ناقدین واک آئوٹ کر کے پارلیمنٹ سے باہر چلے گئے یعنی حکومت کو یہ ترمیم پاس کرانے کا انہوں نے پورا موقع دے دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بڑھ کر سب سے زیادہ شور مچانے والی پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے اپنی ہی پارٹی کی پالیسی کے خلاف 27ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کا جو کردار تھا اس سے انڈیا نے دنیا بھر میں ذلت اٹھائی، اس شکست کو انڈیا پہلے نہیں مان رہا تھا، میں نے یہ ووٹ فیلڈ مارشل کی وجہ سے دیا اور جنرل عاصم منیر کی وجہ سے ووٹ دینے آیا ہوں۔ اپنی پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے ابڑو نے کہا کہ پچھلی ترمیم کے موقع پر میرے خاندان کے دس افراد اٹھا لئے گئے تھے اُس کے بعد میری پارٹی نے میرے لئے کیا آواز اٹھائی تھی۔ سیف اللہ ابڑو نے اعلان کیا کہ میں اپنی سینیٹر شپ سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ ان کے مستعفی ہونی کا اعلان سُن کر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے استعفیٰ دے دیا، ہم ان کو پھر سے سینیٹر بنوائیں گے۔ قبل ازیں سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سیف اللہ ابڑو نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے اور حکومت کو ووٹ دیا ہے حالانکہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے سینیٹ سے اپنے خطاب میں واضح کر دیا تھا کہ یہ ووٹ انہوں نے حکومت کو نہیں بلکہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی معرکہ حق میں عظیم فتح حاصل کرنے پر حق کی آبرو میں دیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button