آئین یا موم کی ناک
آئین یا موم کی ناک
شہر خواب ۔۔
صفدر علی حیدری
پاکستان میں آئینی ترمیم کوئی غیر معمولی عمل نہیں۔ یہ روایت 1973ء کے آئین کے ساتھ ہی قائم ہو گئی تھی، جب آئین سازوں نے واضح طور پر یہ دروازہ کھولا کہ وقت کے بدلتے حالات کے مطابق ریاست اور اس کے ادارے آئینی ڈھانچے میں اصلاحات کر سکتے ہیں۔ اس لچک نے آج تک کام کیا، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں ترمیمات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر ترمیم عوام کے فائدے کے لیے ہوتی ہے؟ ستائیسویں ترمیم اسی سوال کے گرد گھومتی ہے۔ یہ ترمیم بنیادی طور پر تکنیکی اور ادارہ جاتی نوعیت کی ہے۔ اس کا تعلق عدالتی اختیارات، پارلیمانی کارروائی، اور سرکاری فیصلوں کی قانونی وضاحت سے ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جو ریاستی ڈھانچے کے اندر وقوع پذیر ہوتے ہیں، عوام کی روزمرہ زندگی سے الگ۔
اگر ہم عوام کی روزمرہ زندگی کے مسائل دیکھیں، تو ہمیں نظر آتا ہے:
بجلی اور گیس کے بل
مہنگائی اور روزگار کی کمی
تعلیم اور صحت کی سہولیات
گھر کا نظام اور باعزت زندگی
ان میں سے کسی ایک مسئلے کا تعلق ستائیسویں ترمیم کے کسی نکتے سے بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض آئینی اصلاحات آئین کی ناک موم کی طرح لچکدار لگتی ہیں، یعنی اداروں کے اندر حرکت کے لیے بنائی گئی ہیں، مگر عوام کے مفاد کے لیے سخت اور محسوس نہیں ہوتیں۔
پاکستان میں آئینی ترمیم کا رواج اس لچک کا نتیجہ ہے جو آئین سازوں نے خود قائم کیا تھا۔ 1973ء کے آئین میں ترمیم کے لیے واضح شقیں موجود تھیں تاکہ وقت کی ضرورت اور بدلتی سیاست کے مطابق اصلاحات کی جا سکیں۔آٹھویں ترمیم ( 1985۔1988): اس نے صدر کو وسیع اختیارات دئیے، اور پارلیمنٹ کی طاقت محدود کی، جس سے سیاسی نظام میں طاقت کا مرکز تبدیل ہوا۔
سترہویں ترمیم (2003): وفاق اور صوبوں کے درمیان توازن میں تبدیلی، عدالتی معاملات میں تفویض، اور پارلیمانی اختیارات کی وضاحت۔
اٹھارویں ترمیم (2010): صوبائی خودمختاری کو بحال کیا، وفاقی ڈھانچے میں واضح اصلاحات آئیں۔
ستائیسویں ترمیم بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے، جس نے ریاستی اداروں کے اندر توازن، عدالتی حدود، اور قانونی وضاحت فراہم کرنے کی کوشش کیں ۔
ستائیسویں ترمیم ابھی منظرِ عام پر نہیں آئی تھی کہ سیاسی جماعتیں پہلے ہی اپنی پوزیشنیں واضح کرنے لگیں۔ کچھ نے حمایت شروع کر دی، کچھ نے مخالفت۔ دلچسپ اور اہم بات یہ تھی کہ دونوں جانب سے حقیقت کی سمجھ موجود تھی: یہ ترمیم عوام کے روزمرہ مفاد میں کچھ نہیں لا رہی تھی۔
حمایت کرنے والوں کو معلوم تھا کہ ترمیم کا مقصد ادارہ جاتی اور عدالتی اصلاحات ہے، جبکہ مخالفین کو بھی پتہ تھا کہ عوام کے لیے اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی، ترمیم کے گرد سیاست زیادہ تر پارلیمانی طاقت، عدالتی حدود اور ریاستی توازن کے مسئلے پر مرکوز تھی، نہ کہ عوام کی زندگی کے مسائل پر۔
یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ آئینی ترمیمات ہمیشہ عوامی مفاد سے جڑی نہیں ہوتیں۔ سیاستدان اپنی داخلی ترجیحات، اداروں کی صف بندی اور اقتدار کے توازن کو مدنظر رکھتے ہیں، اور عوام کے مسائل اکثر اس عمل سے دور رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئین اور عوام کے درمیان خلا پیدا ہوتا ہے، اور عوام اکثر ان ترمیمات کی حقیقی اہمیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہاں آئین سخت اور اصولی ہے، مگر موم کی طرح لچکدار بھی۔ اس کی ناک یا حساس نقطہ وہ مقام ہے جہاں قانون اپنی طاقت دکھاتا ہے، یا پھر نرمی اختیار کرتا ہے تاکہ ادارے اپنے اندر اصلاحات کر سکیں۔
ستائیسویں ترمیم کا اثر زیادہ تر ادارہ جاتی اور عدالتی سطح پر محسوس ہوتا ہے:
عدالتی نظام میں شفافیت اور وضاحت آتی ہے۔
پارلیمانی کارروائیوں کے قواعد واضح ہو جاتے ہیں۔
سرکاری اداروں کے فیصلے قانونی بنیاد پر مضبوط ہوتے ہیں۔
لیکن عام شہری کے لیے اس ترمیم کا اثر تقریباً نا محسوس ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل ، جیسے بجلی، روزگار، تعلیم، اور صحت ، پر اس ترمیم کا کوئی براہِ راست اثر نہیں ہے۔
چونکہ یہ ترمیم عوام کی روزمرہ زندگی سے تعلق نہیں رکھتی، عوام کا ردعمل بھی محدود یا غیر محسوس رہتا ہے۔ یہ ترمیم ریاستی اداروں کی داخلی اصلاحات کے لیے ہے، نہ کہ عوام کے مفاد کے لیے۔
یہ فاصلہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک حقیقی خلا پیدا کرتا ہے۔ آئینی عمل اور سیاسی فیصلے عوام کی زندگی کے قریب نہیں ہوتے۔ جب ترمیم عوام کی زندگی پر اثر نہیں ڈالتی، تو اسے قبول بھی خاموشی میں کیا جاتا ہے، اور عوام زیادہ تر اسے صرف خبروں یا سرکاری بیانات کے ذریعے جان پاتے ہیں۔
ستائیسویں ترمیم کے عدالتی پہلو بھی اہم ہیں۔ یہ ترمیم عدالتوں کی حدود اور اختیارات میں وضاحت کرتی ہے، تاکہ قانونی ابہام ختم ہو اور فیصلی شفاف بنیاد پر ہوں۔ سیاسی سطح پر، یہ ترمیم پارلیمانی کارروائیوں کی قانونی وضاحت اور اداروں کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔
یہ دونوں پہلو، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے لیے اہم ہیں، لیکن عوام کی روزمرہ زندگی میں اس کا اثر محسوس نہیں ہوتا۔ یہی حقیقت ہمیں بتاتی ہے کہ آئینی اصلاحات کا مرکز ہمیشہ عوام نہیں ہوتا۔
ستائیسویں ترمیم نہ بری ہے، نہ اچھی۔ یہ ایک ادارہ جاتی ضرورت تھی، جس کا مقصد عدلیہ، پارلیمنٹ، اور سرکاری اداروں کی شفافیت اور مضبوطی تھا۔ عوام کی روزمرہ زندگی میں کوئی تبدیلی نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آئینی اصلاحات ہمیشہ عوام کے مفاد کے لیے نہیں ہوتیں۔
اصل عوامی ترمیم وہ ہوگی جو قانون سازی کا مرکز عوام کی زندگی کو بنائے، نہ کہ ریاستی اداروں کی داخلی صف بندی کو۔ آئین تب واقعی زندہ محسوس ہوگا، جب ہر ترمیم، ہر قانون، اور ہر فیصلہ عوام کے دل کے قریب ہوگا، نہ کہ صرف عدالتی اور سیاسی مباحثوں میں۔
ستائیسویں ترمیم ایک یاد دہانی ہے کہ آئین کی ناک کبھی سخت ہے، کبھی موم کی طرح لچکدار، لیکن عوام کی زندگی سے جڑنا اس کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ عوامی مفاد کے بغیر آئینی اصلاحات صرف اداروں کی داخلی صف بندی اور قانونی شفافیت کے لیے ہوتی ہیں، جبکہ عوام کے مسائل ویسے کے ویسے رہتے ہیں۔
پاکستان میں آئینی عمل کی یہ حقیقت عوام اور ریاست کے درمیان ایک خلا پیدا کرتی ہے، جو سیاسی شعور، عدالتی شفافیت، اور ادارہ جاتی اصلاحات کے درمیان مسلسل کھنچائو کا سبب بنتی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے ریاست نے اپنے اندر استحکام پیدا کیا، مگر عوام کی روزمرہ زندگی اس سے جڑ نہ سکی۔
اصل آئین اور اصلاحات تب کامیاب ہوں گی جب آئین کی ناک عوام کے احساس اور ضرورت سے جڑی ہو، موم کی طرح لچکدار نہیں، بلکہ عوامی زندگی کو مضبوط کرنے والی ہو۔





