Column

دشمن کو ہر بار منہ کی کھانی پڑے گی

دشمن کو ہر بار منہ کی کھانی پڑے گی
گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ہونے والی کارروائیاں اور کیڈٹ کالج وانا پر حملے کی ناکام کوشش ایک بار پھر اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہیں کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی نئی لہر کسی مقامی ردعمل یا داخلی اختلاف کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم بیرونی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج، انٹیلی جنس ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل اپنی جانیں قربان کرکے ان سازشوں کو ناکام بنارہے ہیں اور ان کی یہ قربانیاں ملک کے استحکام کی بنیاد بن چکی ہیں۔ آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے مطابق 8اور 9نومبر کو شمالی وزیرستان اور درہ آدم خیل میں ہونے والی دو الگ الگ کارروائیوں میں مجموعی طور پر 20بھارتی حمایت یافتہ خوارج مارے گئے۔ یہ کوئی معمولی پیش رفت نہیں، کیونکہ ان کارروائیوں نے نہ صرف دہشت گردی کے نیٹ ورک کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ پاکستان کے ازلی دشمن کی اس پالیسی کو بھی بے نقاب کردیا جو پراکسی جنگ کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے فتنہ الخوارج جیسے گروہوں کی مالی، فنی اور نظریاتی سرپرستی دراصل اس کے اُس پرانے نظریے کی عکاسی ہے جو پاکستان کی ترقی اور سلامتی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ان خوارج کی فکری بنیادیں نہ اسلامی ہیں اور نہ ہی قومی، یہ صرف اور صرف غیر ملکی آقاں کے اشارے پر کام کرنے والے عناصر ہیں، جو اپنے ملک کے امن و استحکام کے دشمن بن چکے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (IBO)اس امر کا مظہر ہے کہ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے اور سیکیورٹی فورسز کتنی گہری اور مثر کوآرڈی نیشن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ دشمن جس علاقے میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اب کسی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر باقی نہیں رہا۔ آپریشن کے دوران 8دہشت گردوں کی ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر اب کسی بھی دہشت گرد نیٹ ورک کے لیے جگہ نہیں۔ اسی طرح درہ آدم خیل میں کی گئی کارروائی میں مزید 12خوارج کی ہلاکت ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کے دشمن جہاں بھی چھپیں، ان کا انجام موت ہے۔ یہ کارروائیاں صرف عسکری کامیابیاں نہیں، بلکہ یہ ایک بیانیہ تشکیل دے رہی ہیں کہ ریاست پاکستان اب کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گی۔ دہشت گردوں کی جانب سے کیڈٹ کالج وانا پر حملے کی کوشش دراصل ایک نفسیاتی حربہ تھا۔ دشمن چاہتا تھا کہ ملک میں خوف، بے یقینی اور انتشار کی فضا پیدا کی جائے۔ مگر جس تیزی اور پیشہ ورانہ انداز میں سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے تمام 650طلبہ اور اساتذہ کو بحفاظت ریسکیو کیا، اس نے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دئیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، دہشت گردوں کا تعلق بھارت کی پراکسی تنظیم فتنہ الخوارج سے تھا۔ حملہ آوروں نے کالج کی بیرونی سیکیورٹی دیوار کو توڑنے اور بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے تباہی پھیلانے کی کوشش کی، مگر پاکستانی فورسز کی بروقت کارروائی نے ان کی منصوبہ بندی کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔ اس واقعے میں دو دہشت گرد مارے گئے جب کہ باقی تین کا محاصرہ کر کے علاقے کو کلیئر کرلیا گیا۔ یہ کامیابی نہ صرف سیکیورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت کی علامت ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ پاکستان کے دفاعی نظام میں ایسے کوئی خلا باقی نہیں رہے جن سے دشمن فائدہ اُٹھا سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ان کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کی کامیابیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی حفاظت کے لیے ہمارے جوان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ ان کا یہ بیان دراصل سیاسی قیادت اور افواجِ پاکستان کے درمیان ہم آہنگی کی علامت ہے، وہ ہم آہنگی جس کی بدولت ریاست اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صرف عسکری قوت کافی نہیں، بلکہ سیاسی استحکام، معاشی بحالی، اور نظریاتی اتحاد بھی ضروری ہیں۔ آج پاکستان میں ان تینوں سمتوں میں پیش رفت ہورہی ہے۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ سیاسی سطح پر بھی قومی مفاہمت کی ضرورت کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ بھارت کی ’’ پراکسی وار‘‘ حکمتِ عملی اب کوئی راز نہیں رہی۔ چاہے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت ہو یا شمالی وزیرستان میں خوارج کی پشت پناہی بھارت کا مقصد ایک ہی ہے، پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا، مگر وہ یہ بھول رہا ہے کہ آج کا پاکستان 2008ء یا 2014ء والا پاکستان نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان، آپریشن ضربِ عضب، ردُالفساد اور اب وژن عزمِ استحکام کے تحت ملک کے سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔ دنیا کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کی راہ اسلام آباد سے گزرتی ہے، نئی دہلی سے نہیں۔ اگر عالمی برادری واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے بھارت کی ان مداخلتوں پر خاموش نہیں رہنا چاہیے جو پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دی ہے، مگر کبھی ہمت نہیں ہاری۔ یہی جذبہ اب نئے عزم میں ڈھل چکا ہے۔ وژن عزمِ استحکام صرف ایک عسکری مہم نہیں بلکہ ایک قومی فلسفہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو داخلی طور پر مستحکم اور عالمی سطح پر باوقار بنانا ہے۔ کیڈٹ کالج وانا پر حملہ ناکام بنانا، تمام اساتذہ اور طلبہ کو بحفاظت ریسکیو کرنا اور خیبر پختونخوا میں کامیاب آپریشنز اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ دشمن چاہے کسی بھی شکل میں سامنے آئے، ریاست پاکستان اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ صرف بندوق یا بارود سے نہیں ہوتا، بلکہ اتحاد، عزم اور شعور سے ہوتا ہے۔ پاکستان آج ان تینوں محاذوں پر مضبوط کھڑا ہے۔ بھارت کی جانب سے خوارج کو استعمال کرنے کی کوشش دراصل مایوسی کا مظہر ہے۔ دشمن جتنی بار بھی وار کرے گا، اسے ہر بار اسی طرح منہ کی کھانی پڑے گی، کیونکہ یہ وطن قربانیوں سے بنا ہے، اور قربانی دینے والی قوم کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان کے سپاہی، طلبہ، اساتذہ، اور عوام، سب ایک ہیں۔ یہی اتحاد دشمن کے لیے سب سے بڑی شکست ہے۔
امریکی آئل کے دوسرے بحری جہاز کی آمد
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار امریکی خام تیل کی درآمد کا آغاز ایک اہم تجارتی سنگ میل ہے۔ سنرجیکو آئل کمپنی کی جانب سے 10لاکھ بیرل ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (WTI)کروڈ آئل کی درآمد نے نہ صرف دو ممالک کے تجارتی تعلقات کو ایک نیا رخ دیا ہے بلکہ یہ ایک ایسی پیش رفت بھی ہے جو پاکستان کے توانائی کے بحران کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکی خام تیل کا پہلا بحری جہاز ایم ٹی پیگاسس 29 اکتوبر کو پاکستان پہنچا تھا اور اب ایم ٹی البانی نے 10نومبر کو پاکستانی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہوکر اس سلسلے کو مزید مستحکم کیا ہے۔ امریکا دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور اس کا خام تیل پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے اہم اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں توانائی کی شدید کمی اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کے درمیان، امریکی خام تیل کی درآمد سے توانائی کی قیمتوں میں کچھ استحکام آسکتا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے توانائی کی فراہمی کے متبادل ذرائع فراہم کرے گا، جس سے نہ صرف توانائی کی کمی دور ہوگی بلکہ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں تنوع بھی آئے گا۔ امریکی خام تیل کی درآمد سے پاکستان کو صرف توانائی کی فراہمی میں مدد نہیں ملے گی بلکہ اقتصادی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ جب ایک ملک بڑے تجارتی معاہدے کرتا ہے تو اس کا اثر اس کی معیشت پر پڑتا ہے۔ اس معاہدے سے پاکستان کی خام تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ پورا ہوگا، جس سے ملک کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کی اتار چڑھائو سے کم متاثر ہونے کا امکان ہے۔ امریکی تیل کی درآمد سے پاکستان کی بندرگاہوں پر تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی، جس سے پورٹ سروسز، لاجسٹک کمپنیوں اور مقامی مزدوری کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان کا توانائی کا شعبہ ہمیشہ سے عالمی تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھائو سے متاثر رہا ہے۔ امریکی تیل کی درآمد سے پاکستان کو عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں ممکنہ طور پر کم قیمتوں پر تیل حاصل ہوسکتا ہے، جس سے ملک کی اقتصادی حالت پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات نہ صرف اقتصادی لحاظ سے اہم ہیں بلکہ سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر پاکستان اس معاہدے سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے معاشی استحکام کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو توانائی کے بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ یہ معاہدہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک روشن مستقبل کی طرف قدم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تجارتی روابط کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر یہ تجارتی شراکت داری مزید مستحکم ہوتی ہے تو پاکستان نہ صرف توانائی کے شعبے میں استحکام حاصل کر سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر اپنے تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دے سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button