افغان طالبان کے بعد دہشتگردی میں اضافہ

افغان طالبان کے بعد
دہشتگردی میں اضافہ
پچھلے چند برسوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت عالمی سطح پر مسلسل زیرِ بحث رہی ہے۔ خاص طور پر اس وقت، جب افغان طالبان نے اقتدار سنبھالا، پاکستان کو مختلف داخلی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ۔ وزارت خارجہ کی حالیہ رپورٹس اور ترجمان کے گزشتہ روز کے بیانات کے مطابق، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو نہ صرف ملکی سلامتی بلکہ معاشرتی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے خطے میں امن و استحکام کا خواہاں رہا ہے اور اس نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کو مثبت انداز میں فروغ دینے کی کوشش کی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ طالبان حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کی کمی نے پاکستان کے صبر اور تحمل کو بار بار پرکھا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے باوجود انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا اور چار سال تک دہشت گرد کارروائیوں کے باوجود جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ یہ طرز عمل عالمی سطح پر پاکستان کے ذمے دار اور پُرامن رویے کا مظہر ہے، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ تحمل کی ایک حد ہوتی ہے اور پاکستان اپنی سرحدوں اور شہریوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی قیمت پر کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ ترجمان کے مطابق، دہشت گردوں کے سہولت کار، حامی اور پناہ دینے والے عناصر کے خلاف پاکستان کا عزم غیر متزلزل ہے۔ یہ دہشت گرد حملے نہ صرف انسانی جانوں کے نقصان کا باعث بن رہے ہیں، بلکہ ملکی ترقی، سرمایہ کاری اور معاشی استحکام پر بھی منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دفاعی اقدامات کا مقصد واضح ہے، اپنے عوام کی جان و مال کی حفاظت اور خطے میں امن قائم رکھنا۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے لیے کئی مثبت اقدامات کیے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ پاکستان نے چار سال کے عرصے میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی متعدد کوششیں کیں، جن میں دوطرفہ تجارت میں نرمی، تعلیمی و طبی ویزوں میں آسانیاں اور دیگر معاشرتی و اقتصادی تعاون شامل ہیں۔ پاکستان کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ افغانستان ایک مستحکم، پُرامن اور ترقی یافتہ ملک بنے، تاکہ دونوں ممالک کے عوام امن اور خوشحالی کا مزا لے سکیں۔ تاہم، طالبان حکومت نے صرف وعدے کیے، عملی اقدامات نہ کیے اور پاکستان کی نیک نیتی کو بروئے کار نہیں لایا۔ ترجمان کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور 7نومبر کو استنبول میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ مذاکرات پاکستان کے دو طرفہ مسائل کو پُرامن اور مثر انداز میں حل کرنے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے یہ موقف رکھتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو مذاکرات اور سفارتی ذرائع سے حل کیا جانا چاہیے، لیکن افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بار بار دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے یہ حقیقت اجاگر کی ہے کہ پاکستان کی تحمل کی پالیسی کو مسلسل چیلنج کیا جارہا ہے۔یہ امر نہایت اہم ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد حملوں کے باوجود تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی جارحیت کا جواب فوری طور پر نہیں دیا۔ یہ رویہ نہ صرف پاکستان کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے اس کی سنجیدگی کا بھی ثبوت ہے۔ تاہم، ترجمان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی دہشت گرد کارروائی کے جواب میں فیصلہ کن اقدامات کرنے کے لیے پُرعزم ہے اور دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور حامیوں کے خلاف موثر کارروائی کرے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم خطے کے جغرافیائی اور سیاسی حالات پر نظر ڈالیں۔ افغانستان کی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پاکستان کے لیے مسلسل خطرہ ہے۔ طالبان حکومت نے اقتدار سنبھالنی کے بعد کئی بار یقین دہانیاں کرائی ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے، لیکن عملی اقدامات کی کمی نے پاکستان کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان کی نیت ہمیشہ مثبت رہی، لیکن طالبان حکومت کی جانب سے وعدوں کی تکمیل میں ناکامی نے خطے میں عدم تحفظ کے ماحول کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ اصول شامل ہے کہ کسی بھی مسئلے کا حل طاقت یا جارحیت سے نہیں بلکہ مذاکرات اور سفارتی ذرائع سے ہونا چاہیے۔ پاکستان نے چار سال میں افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، جس میں تعلیمی اور طبی ویزے کی سہولتیں، تجارتی تعاون اور اقتصادی راہیں کھولنا شامل ہیں۔ یہ اقدامات اس بات کا مظہر ہیں کہ پاکستان نہ صرف اپنے مفاد بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی پُرعزم ہے۔ تاہم، طالبان حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کی کمی نے پاکستان کے تحمل کو بار بار پرکھا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہے اور کسی بھی دہشت گرد کارروائی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ موقف نہ صرف پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے بھی اہم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں اس وقت ایک نازک موڑ ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کی کمی نے پاکستان کی صبر کی پالیسی کو محدود کردیا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں اور شہریوں کی حفاظت کے لیے مثر اقدامات کرے اور دہشت گرد حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا جواب دینے کے لیے تیار رہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان نے دہشت گرد کارروائیوں کے باوجود چار سال تک تحمل کا مظاہرہ کیا، لیکن اب وہ کسی بھی خطرے کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ اس پورے پس منظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عسکری اقدامات کا مقصد خطے میں استحکام قائم رکھنا، دہشت گردی کو ختم کرنا اور اپنے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی اور اپنے اقدامات سے یہ ظاہر کیا کہ وہ خطے کے امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ تاہم، طالبان حکومت کی جانب سے وعدوں کی عدم تکمیل نے پاکستان کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان کی پالیسی، صبر اور تحمل کے باوجود، خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے نے ملک کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں اور عوام کی حفاظت کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے۔ پاکستان کی نیت ہمیشہ مثبت رہی ہے، اور وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو پُرامن اور مستحکم بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، لیکن طالبان حکومت کی عملی ناکامی نے پاکستان کے صبر کی حد کو چھوا ہے اور اب ملک دہشت گردی کے خلاف موثر اور فیصلہ کن کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد واضح ہے: افغانستان کو ایک مستحکم اور پرامن ملک بننے میں مدد دینا، دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اور اپنے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا۔ یہ ایک نازک مگر اہم مرحلہ ہے، جس میں پاکستان کی تحمل، حکمت عملی اور عسکری قابلیت خطے میں امن و استحکام کی ضمانت فراہم کر رہی ہے۔
ڈینگی بخار۔۔۔ سنگین خطرہ
ڈینگی کی وبا ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے، حالیہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں اس کے باعث ایک نوجوان لڑکی کی موت نے اس بیماری کی شدت کو مزید واضح کردیا ہے۔ کراچی کے سندھ انفیکشن ڈیزیزز ہسپتال اور ریسرچ سینٹر میں 19 سالہ لڑکی کی موت نے نہ صرف اس خطے کے عوام کو جھنجھوڑا ہے بلکہ پورے پاکستان میں ڈینگی بخار کے پھیلائو کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ سندھ میں ڈینگی سے کئی اموات ہوچکی ہیں۔ صرف پچھلے 24گھنٹوں میں 727 افراد کے ڈینگی ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کیسز کراچی اور حیدرآباد سے رپورٹ ہوئے ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ڈینگی کی وبا کا مرکز سندھ بن چکا مگر یہ مسئلہ صرف سندھ تک محدود نہیں، پورے پاکستان میں ڈینگی بخار کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، خاص طور پر پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں۔ ڈینگی اینسفلیٹس، جو ڈینگی بخار کی ایک نایاب اور شدید پیچیدگی ہے، ایک اور خطرناک پہلو ہے جس نے اس نوجوان لڑکی کی جان لی۔ اس حالت میں دماغی سوزش، دورے، پٹھوں کی کمزوری اور شعور میں تبدیلی جیسے سنگین اثرات سامنے آتے ہیں، جو اگر فوری علاج نہ ملے تو جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ حالت ڈینگی کے متاثرہ مریضوں میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، مگر جب یہ ظاہر ہوتی ہے تو اس کا علاج انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں ڈینگی وبا کا بڑھنا بڑا چیلنج بن چکا، جس پر فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں، غیر موثر صفائی کے انتظامات، اور بارشوں کے باعث پانی کا ذخیرہ ہونے والے مقامات اس بیماری کے پھیلائو کا سبب بن رہے ہیں۔ مچھر کے لاروا کی افزائش کے لیے یہ تمام عوامل انتہائی سازگار ہیں۔ ڈینگی کے تدارک کی مہم کو زیادہ وسیع اور موثر بنایا جائے، خاص طور پر سندھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں جہاں ڈینگی کی وبا زیادہ پھیل چکی ہے۔ عوام کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ گھروں کے اردگرد پانی جمع نہ ہونے دیں، صاف ستھری جگہوں پر رہیں اور مچھر دانی کا استعمال کریں۔ اگر کسی کو بخار یا دیگر علامات محسوس ہوں، تو فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کریں تاکہ بیماری کا بروقت علاج کیا جاسکے۔ اگرچہ سندھ میں اس وقت ڈینگی بخار کے کیسز زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں، لیکن پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی اس بیماری کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔ حکومت کو صوبوں کے درمیان بہتر کوآرڈی نیشن اور مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہیے، تاکہ اس مرض کے پھیلائو کو روکا جاسکے۔ تمام صوبوں کو ایک ہی سطح پر اس مرض کے پھیلائو کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ڈینگی بخار سنگین اور مہلک بیماری بن چکا، جس کے اثرات پاکستان کے مختلف حصوں میں محسوس ہورہے ہیں۔ اس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومت، ادارے اور عوام کو ایک مشترکہ جنگ لڑنی ہوگی۔ اگر ہم فوری طور پر اس وبا پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کریں، تو یہ بیماری اور بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔





