امریکا کی نظر میں آزادی کے سپاہی ؟

امریکا کی نظر میں آزادی کے سپاہی ؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
احمد الشرع کا واشنگٹن کا دورہ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو امریکی خارجہ پالیسی کی پیچیدہ تاریخ کو دوبارہ سامنے لاتا ہے۔ شام کے صدر کا وائٹ ہائوس میں داخل ہونا، جو شام کی آزادی کے بعد سے کسی بھی شامی صدر کے لیے اول مرتبہ ہے، یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو محض سیاسی مناسبتوں سے آگے جاتی ہے۔ یہ دراصل امریکی سفارتکاری کے اس طویل سفر کی نمائندگی کو نمایاں کرتا ہے جہاں فوری حکمت عملی کے مقابلے میں اصول اور اخلاقیات کبھی غالب نہیں آئے۔ الشرع شام کے ایک متنازعہ رہنما رہے ہیں جن پر امریکی حکومت نے دس ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا جو بعد میں ختم کر دیا گیا۔ ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کے سابق سربراہ کو جولائی میں امریکی دہشت گردی کی درجہ بندی میں سے نکال دیا گیا، حالانکہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو اس وقت بھی شامی حکومت میں سرگرم ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ نو سال سے زیادہ عرصے کے بعد جہادی ڈھانچے والی کوئی تنظیم دہشت گردی کی درجہ بندی سے نکالی گئی ہے ۔
امریکی حکومت کے اس رویے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ماضی میں امریکا نے کیسے کیسے رجحانات قائم کیے ہیں۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں رونالڈ ریگن کے دور میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کو امریکا نے بہت سے ہتھیار فراہم کیے تھے۔ اس آپریشن کا نام سائیکلون تھا اور یہ سرد جنگ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن تھا۔ امریکا نے افغان مجاہدین کو تین ارب ڈالر فراہم کیے۔ ابتدائی سالوں میں یہ رقم بیس ملین ڈالر فی سال تھی، بعد میں یہ بڑھ کر چھ سو تیس ملین ڈالر سالانہ ہو گئی تھی۔ یہ مجاہدین جو امریکا کی نظر میں آزادی کے سپاہی تھے، انہیں ریگن نے وائٹ ہائوس میں بھی ملنے کا موقع دیا۔ سوویت فوج نے افغانستان میں چودہ ہزار سے زیادہ سپاہی کھوئے اور پچاس ہزار زخمی ہوئے۔ اسے سوویت اتحاد کی شکست سمجھا گیا۔ لیکن اس فتح کے بعد کیا ہوا؟ جیسے ہی سوویت فوج افغانستان سے نکل گئی، امریکا نے اپنی توجہ ہٹا لی۔ صدر بش کے دور میں نوے کی دہائی میں افغانستان کو کوئی فوجی امداد نہیں دی گئی۔
اس دوران ایک ایسی تنظیم سامنے آئی جو بعد میں طالبان کے نام سے دنیا بھر توجہ کا مرکز بن گئی۔ اسی خانہ جنگی میں القاعدہ نے پناہ لی اور اپنے ٹریننگ کیمپ بنائے۔ احمد الشرع کے ساتھ آج جو ہو رہا ہے وہ دراصل ایک پرانا نمونہ ہے جو بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔ کیا امریکا واقعی دہشت گردوں کو اپنے قابو میں لانا چاہتا ہے؟ یہ سوال اتنا سادہ نہیں ، جتنا لگتا ہے۔ امریکی حکومت نے خود کو اس طرح کی صورتحال میں پایا ہے جہاں اس کے لیے شامی معاملات میں شامل ہونا ناگزیر ہے۔ روس شام میں موجود ہے۔ ایران بھی وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل شام کی سرحد کے قریب ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں۔ لیکن ایران کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آج کا دوست کل کا دشمن کیسے بن سکتا ہے۔ امریکا نے ایران میں ایک تختہ الٹ دیا تھا۔ اس موقع پر ایران کے منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کو ہٹایا گیا تھا۔ امریکی ایجنسی سی آئی اے نے یہ کام انجام دیا تھا۔ اس آپریشن کو خود امریکا نے بعد میں تسلیم کیا۔2013ء میں امریکا نے یہ دستاویزات جاری کیں جو اس ڈھانچے کو ثابت کرتی ہیں۔ اس تختہ الٹ کے بعد امریکا نے شاہ محمد رضا پہلوی کو واپس لایا اور چھبیس سال تک اس کی حمایت کی۔ شاہ کے دور میں امریکا نے اسے ہتھیار فراہم کیے۔ خفیہ پولیس کا ڈھانچہ بھی امریکا نے مدد دی جسے سواک کہا جاتا تھا۔ لیکن شاہ کی حکومت بہت سخت تھی۔ آزادی کے لیے جو جدوجہد شروع ہوئی، وہ 1979ء کا انقلاب بن گئی۔ امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا اور چار سو چوالیس دن تک امریکی شہری قید میں رہے۔ اب ایران امریکا کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ مثال ہمیں سمجھاتی ہے کہ جب امریکا کوئی فیصلہ کرتا ہے تو وہ فوری مقصد تو حاصل کر لیتا ہے لیکن طویل مدتی نتائج کبھی بہتر نہیں ہوتے۔ مصدق کو ہٹانے سے امریکا کو فوری فائدہ ہوا لیکن اگلے کئی دہائیوں میں ایران امریکا کے ساتھ دشمنی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
فوری مقصد کے لیے اگر طویل مدتی اصول قربان کیے جائیں تو آگے چل کر بہت بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ ہیئت تحریر الشام کا الگ ہونے کا دعویٰ بھی شک کی بنیاد پر ہے۔ تنظیم نے کہا کہ و ہ تحلیل ہو گئی ہے لیکن اس کے لوگ شامی حکومت میں کام کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم ختم ہی نہیں ہوئی۔ وہ صرف دوسری شکل میں سامنے آئی ہے۔ شام کے معاملے سے بھی ایک اور بات سامنے آتی ہے۔ جب شام نے اپنی حکومت بدلی تو اسے فوری طور پر بین الاقوامی توثیق نہیں ملی۔ لیکن اب امریکا نے الشرع کو وائٹ ہائوس میں بلایا تو یہ ایک بہت بڑا بیان ہے۔ اس سے دوسری حکومتوں کو پیغام جاتا ہے کہ امریکا اپنے فیصلے بدل سکتا ہے۔ یہ پیغام سازی ہے۔ یہ کہنا ہے کہ اگر تم امریکا کے مفاد میں ہو تو تمہارا ماضی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ معیار تمام امریکی اتحادیوں و مخالفین کے لئے یکساں ہے۔
شام میں مستقبل بہت غیر یقینی ہے۔ الشرع کی حکومت کتنے عرصے تک چلے گی یہ معلوم نہیں۔ اگر کوئی دوسری تبدیلی آئے تو کیا ہوگا؟ شام کو دوبارہ بنانے کا کام بہت مشکل ہے۔ تیرہ سالوں میں جو تباہی ہوئی ہے اس کو ٹھیک کرنے میں دہائیوں لگیں گی۔ اس میں نہ صرف رقم کی ضرورت ہے بلکہ سیاسی استحکام بھی درکار ہے۔ امریکا یہ دونوں چیزیں فراہم کر سکتا ہے لیکن کیا وہ کرے گا؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ تاریخ سے ہم نے سیکھا ہے کہ امریکی حکومتیں اپنے مفادات میں تیزی سے کام کرتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو وہ اپنی توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ افغانستان میں یہی ہوا۔ شام میں بھی یہی ہو سکتا ہے۔ امریکی سیاست میں طویل مدتی سوچ کی کمی ہے۔ امریکا اکثر فوری مقصد کو حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے۔ پھر جب کوئی نیا مسئلہ سامنے آتا ہے تو اسے پرانی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں۔ یہی نمونہ ہے جو بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ کیا الشرع اپنی پرانی شناخت سی جان چھڑا چکی ہے اور امریکا کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ شام میں جمہوری نظام قائم ہو رہا ہے۔ امریکا کو یہ بھی ملاحظہ کرنا چاہیے کہ اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہو رہے ہیں۔ افغانستان، ایران، اور بہت سی دوسری جگہوں پر امریکا کے فیصلے آخر کار ناکام ہو گئے۔ شام میں بھی یہی رونما ہو سکتا ہے۔





