Column

بھیانک خواب

بھیانک خواب
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ارشادات کے مطابق پاکستان کی انڈیا کے ساتھ سہ روزہ جھڑپ میں ان کے گرائے گئے طیاروں کی تعداد آٹھ بیان کی گئی ہے۔ یہ سکور چار سے شروع ہوا ہے اور فقط چند ماہ میں آٹھ تک جا پہنچا ہے۔ یہ تعداد اسی طرح بڑھتی رہی تو آئندہ برس کے آغاز تک بارہ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب بھی اس تعداد میں ایک عدد کا اضافہ کرتے ہیں مجھ سمیت ہر پاکستانی بہت خوش ہوتا ہے، جبکہ بھارت میں ان کیلئے نفرت میں اضافہ ہو جاتا ہے، گرائے گئے طیاروں کی تعداد کے حوالے سے کبھی کبھار ایک ڈرائونا خواب آتا ہے، وہ یوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دارالحکومت میں اپنے قیمتی اور محفوظ ترین جہاز ایئر فورس ون سے باہر آ رہے ہیں، ایئر پورٹ پر بھارتی سول قیادت ان کے استقبال کیلئے موجود ہے۔ وزراء کے بعد فوجی قیادت بھی لائن بنائے کھڑی ہے۔ وزیراعظم مودی، ٹرمپ کے قدم بھارتی زمین پر پڑتے ہی لپک کر ان کی بڑھتے ہیں اور ایسی مضبوط جھپی ڈال دیتے ہیں گویا انہیں خطرہ ہو ٹرمپ اگلے ہی لمحے اپنے دورہ بھارت کا اسی انداز میں اختتام نہ کر دیں جس طرح ایک مرتبہ مودی نے اپنے دورہ سعودی عرب کے ہنگامی اختتام کا اعلان کر دیا تھا۔ مودی کے اعزاز میں اس شام ڈنر دیا جانا تھا، لیکن انہوں نے اچانک اعلان کر دیا کہ انہیں فوراً بھارت پہنچنا ہے، لہٰذا وہ ڈنر میں شرکت نہیں کریں گے۔ مودی نے سوچا ہو گا انہوں نے کون سا مٹن، سجی، چکن، روسٹ، بھنے ہوئے بٹیرے یا بیف پلائو کھانا ہے۔ پتلی سی مسور کی دال اور ایک چپاتی ہی تو کھانی ہے، اس کیلئے آدھی رات اور اگلا پورا دن ضائع کرنے کی تو ضرورت نہیں، پس انہوں نے واپسی کا جہاز پکڑ لیا۔
مودی کی جھپی سے فارغ ہو کر ٹرمپ دیگر اہم شخصیات سے ملتے ہوئے آگے بڑھے، اس دوران بھارتی ناریاں ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی رہیں۔ ٹرمپ کو کاروں کے جلوس میں وہاں پہنچایا جاتا ہے جہاں ان کے اعزاز میں استقبالیے کا اہتمام ہے۔ ہال اہم شخصیات، بھارت کی کاروباری شخصیات، ان کی بیگمات، اہم سماجی شخصیات سے بھرا ہوا ہے۔ ٹرمپ کے پہنچتے ہی وہاں موجود سب لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں، دونوں ملکوں کے قومی ترانے بجائے جاتے ہیں، جس کے بعد بھارتی وزیراعظم ڈائس پر آ کر خطبہ استقبالیہ نما گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ امریکہ سے بھارت کے تعلقات پون صدی پرانے ہیں، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتے رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو دو لخت کرنے کا فیصلہ کیا تو امریکہ ان کا ہم خیال تھا، بلکہ یہ خیال بنیادی طور پر امریکہ کا ہی پیش کردہ تھا، کیونکہ امریکہ اور سی آئی اے، بنگالیوں کی آزاد سوچ، کسی کی غلامی میں نہ رہنے کے عزم کو پڑھ چکی تھی، ان کا خیال تھا اگر بنگالیوں کی طاقت پر ضرب نہ لگائی گئی تو وہ سوشلسٹ یا کیمونسٹ اثر سے متاثر ہو سکتے ہیں، لہٰذا بہتر ہے انہیں پاکستان سے علیحدہ کر کے بھارت کی غلامی میں دے دیا جائے، یہ نسخہ ابتداء کے پچاس برس تک مطلوبہ نتائج دیتا رہا، ہم پاکستان کو شکست دینے میں امریکہ کے کردار کے ہمیشہ معترف رہے ہیں، آج بھی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے امریکہ اور ٹرمپ کے ساتھ مثالی تعلقات رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسے ہی رہیں گے، ہال میں بیٹھے ہوئے افراد تالیاں پیٹتے ہیں۔
مودی کہتے ہیں میں بھارت کے عوام کو امریکہ کے ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی اور جدید اسلحے کے معاہدے پر مبارک پیش کرتا ہوں اور ٹرمپ حکومت انتظامیہ اور پینٹاگون کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر تالیاں، ٹرمپ یہ منظر دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سماتا، لیکن اس کی نظریں مسلسل ایک بھارتی خاتون پر گڑی ہیں، جو اپنے سانولے رنگ، تیکھے نقوش و موقع کی مناسبت سے کئے گئے میک اپ، خوبصورت ملٹی کلر ساڑھی، مختصر بلاوز میں اپنی پتلی کمر اور دراز قد کے سبب بہت دلکش لگ رہی ہے۔
ٹرمپ کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلتا ہے وہ مودی کی گفتگو دھیان سے نہیں سن رہا، بلکہ سوچ رہا ہے کہ تقریب کے اختتام پر وہ اس خاتون کے قریب کیسے جائے، اسے جھپی کیسے ڈالے اور اسے اپنا کونٹیکٹ نمبر اور امریکہ آنے کی خصوصی دعوت کیسے دے۔ ٹرمپ کی پریشانی بجا ہے، ٹرمپ کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دنیا کے ہر ملک میں مسٹر ایبسٹین جیسے کردار موجود ہوتے ہیں، جو صاحب کی نظروں کا مفہوم بنا بیان کیے ہی سمجھ لیتے ہیں، بھارت میں اسے کرداروں کی کمی نہیں ہے۔ بھارت میں کسی غیر ملکی سیاسی شخصیت، سماجی شخصیت یا کسی کھلاڑی کو گھیرنا اور اس سے کوئی کام نکلوانا ہو تو وہ ایسے انتظامات کرنا نہیں بھولتے، بھارتی وزیراعظم اچانک اپنا خطاب ختم کر کے ڈونلڈ ٹرمپ کو اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں تو وہ چونک کر اپنے سر کو ایک جھٹکا دے کر تقریب میں ذہنی طور پر واپس آ جاتے ہیں اور ایک مصنوعی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بکھیرنے کی کوششیں کرتے ہیں جبکہ ہال میں موجود ہر شخص جان چکا ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک ایک بلاوز میں گم ہیں، جس کا گلا بہت گہرا ہے اتنا گہرا کہ دو راہا صاف نظر آتا ہے۔
امریکی صدر اپنے جوابی خطاب کیلئے کرسی سے اٹھتے ہوئے قدرے لڑکھڑا جاتے ہیں، اب وہ اتنے توانا نہیں رہے جتنے اپنی پہلی ٹرم میں تھے، ان کی پتلون اب ان کے پیٹ سے ڈھلک جاتی ہے، جسے قابو کرنے کیلئے انہوں نے گیلس لگانا شروع کر دئیے ہیں، لیکن پینٹ پھر بھی قابو نہیں آتی۔ ان کے سر کے اصلی بالوں کی جاتی بہار ہے جس میں انہوں نے سامنے کی طرف ایک پیچ لگوایا ہے، وہ دنیا کے سامنے یہ پیچ لگا لیتے ہیں، جبکہ سونے سے قبل اسے اتار کر رکھ دیتے ہیں، تاکہ خراب نہ ہو، ان کے سامان میں، بریف کیس میں، اٹیچی کیس میں، ان کی پرائیویٹ سیکرٹری کے پرس میں ایک ایک سٹینڈ بائی بالوں کا یہ پیچ موجود ہوتا ہے، تاکہ بروقت ایک نہ ملے تو دوسرا دستیاب ہو، ان کے سامان میں ایک ایسی دوا بھی موجود رہتی ہے جو ہر قسم کے زہر کے توڑ پر استعمال ہوتی ہے، وہ ایک نیلی دوا بھی ساتھ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ وہ قمیض کے نیچے باریک مگر جدید بلٹ پروف بنیان بھی پہنتے ہیں۔
ٹرمپ ڈائس پر آ کر تمہیدی کلمات کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے عوام سے ایک انتہائی ضروری بات کرنا چاہتے ہیں، وہ بتاتے ہیں ان کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان نے سہ روزہ جھڑپ میں بھارت کا کوئی طیارہ نہیں گرایا، تمام خبریں اسی طرح غلط ہیں جس طرح عراق پر کیمیائی ہتھیار رکھنے کی رپورٹیں آئی تھیں، ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ میری آنکھ کھل جاتی ہے، بھیانک خواب ختم ہوتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button