آئی ایم ایف اور حکومتی مشکلات

آئی ایم ایف اور حکومتی مشکلات
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
باوجود اس کے حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط آئندہ ماہ ملنے کی توقع ہے لیکن اس کے ساتھ آئی ایم ایف کی کچھ شرائط ایسی ہیں جنہیں پورا کرنے میں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کا دیرینہ مطالبہ ہے حکومت بیوروکریسی اور عدلیہ میں احتساب کرے ۔ ملکی قانون کو دیکھا جائے تو حکومت کسی کے اثاثے پبلک نہیں کر سکتی تاوقتیکہ کوئی عدالت اس بات کا حکم نہ دے۔ ملک کے وجود میں آنے کے بعد جب کسی کے اثاثے ڈکلیر نہ کرنے کا قانون بنایا گیا ان دنوں ملک میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہمارے ہاں کرپشن کا آغاز 1985 ء کے بعد پڑا جب سے لوگوں نے بڑے بڑے محلات اور کرپشن کی دولت کو ملک سے باہر رکھنے کی روایت ڈالی۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے ہر حکومت نے کوئی نہ کوئی ادارہ ضرور بنایا جو بدقسمتی سے کرپشن کے خاتمے میں موثر ثابت نہیں ہو سکا۔ نواز شریف نے اپنے دور میں احتساب بیورو بنا کر اس کی سربراہی اپنے قریبی دوست کے سپرد کی جس نے سیاسی بنیادوں پر احتساب شروع کر دیا، چنانچہ اس نظام میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ صدر فاروق لغاری نے احتساب کمیشن بنایا جس کی سربراہی ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے سپرد کی جس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ جنرل پرویز مشرف نے نیب کا ادارہ بنایا جس کی سربراہی جنرلوں کے حوالے کی، البتہ کچھ نہ کچھ ریکوری ضرور ہوئی لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کرپشن کی دولت بیرون ملک سے وطن واپس نہ لائی جا سکی۔ ہمارے ملک میں کرپشن اس نہج پر پہنچ چکی ہے جس سے ہر بین الاقوامی ادارہ ہم پر شاکی ہے۔ موجودہ حکومت نے ایس آئی ایف سی ( سپشیل انوسٹمینٹ فسیلٹیشن کونسل) قائم کی آئی ایم ایف اس ادارے کو شفاف بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کو یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایس آئی ایف سی اپنے تمام کاروبار اور دی گئی مراعات کو اپنی سالانہ رپورٹ میں ظاہر کرے۔ یہ بھی مطالبہ ہے حکومت پروکیورمنٹ نظام میں اصلاحات لائے جس میں ریاستی اداروں کو دی جانے الی ترجیحی مراعات کا خاتمہ اور براہ راست ٹھیکے دینے پر پابندی شامل ہو۔ ایک مطالبہ یہ بھی ہے ایف بی آر میں ایک علیحدہ سے ٹیکس پالیسی آفس قائم کیا جائے جس کا کام صرف ٹیکس پالیسی کا نفاذ ہو جب کہ ٹیکس وصولی ایف بی آر کرے۔ مرکزی بینک ( اسٹیٹ بینک) جو ایک خود مختار ادارہ ہے جس میں وفاقی سیکرٹری خزانہ کا عمل دخل نہیں ہو نا چاہیے آئی ایم ایف کا ایک بھی مطالبہ ہے۔ ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے ججوں اور بیوروکریسی کے اثاثے عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کر رکھا ہے جس میں حکومت لیت و لعل کر رہی ہے حالانکہ یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے اجلاس سے قبل شائع کرنا ضروری ہے۔ ایک مطالبہ یہ بھی ہے حکومت سرکاری اراضی کا ریکارڈ رکھنے کے لئے سنٹرل رجسٹری ریکارڈ آفس قائم کرے جس میں اراضی کے اصل مالکان کی نشاندہی کے ساتھ زمینوں کی منتقلی کا پورا ریکارڈ رکھا جائے۔ حکومت کے لئے ججوں اور بیوروکریسی کا احتساب ممکن نہیں حکومتوں کے بیوروکریسی اور عدلیہ کے ججوں سے راہ و روابط ہوتے ہیں جس کے باعث سیاسی حکومتوں کے لئے کسی جج یا بیوروکریٹ کا احتساب ممکن نہیں۔ ملکی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قیام پاکستان سے اب تک ماسوائے دو چار بیوروکریٹس اور ایک دو ججوں کے سوا کوئی حکومت کسی کا احتساب نہیں کر سکی، جس کی بڑی وجہ سیاسی حکومتوں اپنی کرپشن ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پی ٹی آئی دور میں سیاست دانوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم ہوئے سیاست دانوں کے اثر و رسوخ سے ان پر فرد جرم تک نہیں لگ سکی اقتدار میں آنے کے بعد قوانین میں ترمیم کرکے مقدمات ختم کرا لئے۔ بعض سیاست دانوں کے خلاف بلین روپے کی مبینہ کرپشن کے مقدمات بنے جنہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے مقدمات کی سماعت نہیں ہونے دی ۔ شائد پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں کرپشن کو جرم نہیں سمجھا جاتا بلکہ کرپشن کی دولت سے امراء بننے والوں کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس کرپشن کی دولت جمع کرانے والوں کو جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کرپشن میں ملوث سیاست دانوں نے اپنے خلاف مقدمات کی سماعت نہیں ہونے دی بلکہ اپنے خلاف مقدمات سے بریت کی بجائے انہیں طوالت دینے کے لئے وکلا ء کو بھاری فیسوں کی ادائیگی کی۔ ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لئے وفاقی سطح پر ایف آئی اے ، احتساب کا ادارہ اور صوبائی سطح پر اینٹی کرپشن کے محکموں کے باوجود کرپشن میں ملوث افراد سزائوں سے بچ جاتے ہیں۔ کسی حکومت نے کرپشن میں ملوث افراد کو سزائوں سے بچنے کی وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سیاسی حکومتیں مبینہ طور خود کرپشن میں ملوث ہوتی ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں بعض اداروں میں کام کرنے والوں کو احتساب سے مبرا رکھا گیا ہے۔ آخر کیوں کوئی بھی ادارہ ہو اس میں کرپشن کی صورت میں احتساب بہت ضروری ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کرپشن کی دولت کا کچھ حصہ قومی خزانے میں جمع کرانے والوں کو سزائوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ چند روز پہلے کی بات ہے کئی ارب کی کرپشن میں ملوث ایک صوبائی محکمے کے سٹینوگرافر کو پلی بارگین کرنے پر چھوڑ دیا گیا حالانکہ کرپشن میں ملوث افراد خواہ کوئی بھی ہوں رو رعایت کسی کے مستحق نہیں ۔ دراصل حکومتیں بذات خود کرپشن کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں وگرنہ جس ملک میں قانون کی بالادستی ہو وہاں کوئی کرپشن کا سوچ نہیں سکتا۔ بدقسمتی سے ملک میں کرپشن کے خلاف قوانین اور ادارے تو موجود ہیں مگر کرپشن ختم نہیں ہو سکی کیونکہ مبینہ طور پر ہر شخص کرپشن میں کسی نہ کسی طور ملوث ہے۔ جس طرح آئین میں ترامیم کرکے کرپشن سے استثنیٰ کی روایت ڈالی جا رہی ہے کیا مستقبل قریب میں ریاست پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے؟، بھارت اور چین کو دیکھ لیں کیا وہ آئی ایم ایف کے مقروض ہیں؟۔





