گالی اور پستول

گالی اور پستول
کالم نگار: تجمّل حسین ہاشمی
خود کشی کے رجحانات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، اس اضافہ کی وجوہات گھریلو ناچاکیاں، مہنگائی اور خاندانی لڑائی جھگڑے ہیں لیکن ایک تعلیم یافتہ، با شعور انسان جب خود کشی کرتا ہے تو اس کی خود کشی کا جواز تلاش کرنا کافی مشکل کام ہے، کیوں وہ زندگی کے حالات واقعات کو سمجھتا ہے۔ کئی واقعات سے ثابت ہے کہ تعلیم یافتہ کی خود کشی کی وجہ پریشر اور دبائو ہے جو اس کو خود کشی پر مجبور کر جاتا ہے۔ اسلام آباد میں 2018ء سے 2025تء ک تین بڑی خودکشیاں رونما ہوئی ہیں ۔ جو تعلیم یافتہ افراد کی تھیں جو اہم کیس تھے اور قابل تفتیش ہیں ۔ سرکاری سطح پر اس کی وجوہات پر کام ہونا چاہئے تھا لیکن ہمارے ہاں مر جانے والے کے اپنے بھی نہیں بنتے اس کو رضا الٰہی پر ڈال کر مٹی ڈال دی جاتی ہے ۔ اسلام آباد میں کامران فیصل نیب کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھا۔ 18جنوری 2013 کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر کامران فیصل کو ان کی سرکاری رہائش گاہ میں لٹکا ہوا پایا گیا پولیس نے اسے خود کشی قرار دیا ۔ ان کی موت کی تحقیقات سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث رہی، جہاں پولیس نے خودکشی کی تصدیق کی۔ خود کشی کی وجوہات ممکنہ طور پر کام کے دبائو اور تحقیقات کی وجہ بتائی گی تھیں ۔ خرم ہمایوں ( کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس جو گریڈ 22کے افسر تھے۔ ( 29دسمبر 2020ئ) رپورٹ جنوری 2021ء میں ہوئی کہ اکائونٹس آفس کے چیف (CGA)خرم ہمایوں نے اسلام آباد میں مبینہ خودکشی کی، جو ذاتی پریشانیوں کی وجہ سے ہوئی ۔ سروس ریولور سے خود کو گولی مارنے کا واقعہ پیش آیا اور ابتدائی تحقیقات میں خودکشی کی تصدیق ہوئی۔ ہتھیار کو فرانزک لیب بھیجا گیا۔ ان کی موت کی وجوہات ذاتی مسائل اور ممکنہ طور پر پروفیشنل تنائو بتایا گیا۔ تیسری خود کشی ایس پی عدیل اکبر۔ 23اکتوبر 2025ء سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (SP)عدیل اکبر نے ریڈ زون کے قریب ایک ہوٹل کے پاس ڈیوٹی کے دوران سرکاری پستول سے خود کو گولی مار لی، جس سے ان کی فوری موت ہو گئی ۔ ابتدائی پولیس رپورٹ میں خودکشی کی تصدیق ہوئی، لیکن خاندان نے کور اپ کا الزام لگایا اور تحقیقات میں معمے پیدا ہوئے۔ وجوہات کیریئر کی پریشانیاں پروموشن میں تاخیر، ڈپریشن، اور ممکنہ طور پر ڈینگی کی بیماری کا تنائو بتایا گیا۔ آپ اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے جھانک کر دیکھیں، محسوس ہوگا ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ ڈپریشن، ذہنی کیفیت سے گزر رہے ہیں، لوگوں میں برداشت تحمل ختم ہو چکا ہے، ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے، حکومت ذمہ داری سے بھاگ رہی ہے، ترامیم سے ملک کو سیدھا کیا جا رہا ہے۔ لوگ اب نہایت معمولی اختلاف پر پستول نکال لیتے ہیں، گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں، طاقتور کمزور کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ غریب امیر کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ ہر کوئی دوسرے پر چڑھ دوڑاتا ہے۔ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں، آپ کو پاکستان کا ہر شخص دوسرا سے الجھتا ہوا نظر آئے گا، ہر شخص کے چہرے پر ناراضی، نفرت اور شکوے ملیں گے۔ وہ خود کو ذمہ دار سے زیادہ دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار سمجھ رہا ہے۔ کوئی مسکراتا ہوا شخص نظر نہیں آئے گا، بڑے بچوں کے ساتھ دست و گریباں ہیں، باپ بیٹے سے الجھ رہا ہے، بیوی خاوند سے الجھ رہی ہے، ڈرائیور مسافر کو گالی دے رہا۔ ہر طرف تفریق و تقسیم ہے۔ سرکاری ادارے اپنی خدمات کا حصہ مانگ رہے ہیں۔
اس وقت کوئی بندہ آپ کو مسکراتا ہوا نظر نہیں آتا ، جو مسکرا رہا ہے وہ دوسروں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ ہر بندہ خود کی عزت چاہتا ہے، لیکن دوسرے کی عزت کی اس کو پروا نہیں ہے، خنجر پکڑے کھڑا ہے۔ اپنی کہانیاں سنانا چاہتا ہے لیکن دوسرے کے غموں کو اسے کوئی پروا نہیں۔ اپنی ہاں میں ہاں چاہتا ہے، آپ غور کریں اس وقت معاشری میں غصہ ، شور و غل ، توڑ پھوڑ ، نفرت ، شکوے اور اختلافات کے سوا کچھ نہیں بچا۔ اس وقت پاکستان میں موت کی خواہش یا کوشش عام ہے، اتنی خواہش کسی اور ملک میں نہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ہر شخص روزانہ 10 مرتبہ موت کا ذکر کرتا ہے اور اس میں 7مرتبہ قتل اور خودکشی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ وہ ظالم کو دہلیز پر ڈھیر کر دینا چاہتا ہے اور پھر اپنی کنپٹی پر پسٹل رکھ کر دنیا کے دکھوں سے خود کو آزاد کرنا چاہتا ہے، ہم لوگوں نے گالی، بھرم اور پستول کو ہر ظلم کا حل تسلیم کر لیا ہے، لہذا آج معاشرے میں جس کو دوا چاہیے وہ پستول لے کر گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ انسانی تعلقات میں شر اور انتشار پھیل رہا ہے، اس نے علاقائی کے ساتھ گھریلو سکون کو ختم کر دیا ہے، اس وقت آپ کی خوشی دوسرے کو ہضم نہیں ہوتی، شر انگیزی اور چغل خوری عام ہو گئی ہے، حسد ، انا نے انسانوں کو اندھا کر دیا ہے، انا اور حسد انسان کا بڑا قتل بن چکا ہے، کسی کے اچھے پن کو بھول کر دوست احباب اس کی قبر کھودے میں لگ جاتے ہیں ، تسبیحات کا ورد بھی کرتے ہیں لیکن دل میں حسد کی آگ جلائے بیٹھے ہیں۔ اس وقت لوگوں کو کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا اس لئے برداشت ختم ہو رہی ہے، ہمارے جیسے کئی کالم نگاروں و صحافی حضرات کی زندگیاں بھی خطرات میں گھیری ہوئی ہیں، حالانکہ لکھاری کا وجود دوسروں کے لیے اصلاحی ہے۔ وہ وہی لکھے گا جو سچ ہو گا۔ سچ کسی کو پسند نہیں۔ صحافیوں کیلئے خطرات کے پیغامات عام ہیں، میں تو جتنا سمجھا ہوں وہ آپ کو بتا رہا ہوں۔ اللّہ پاک سے باتیں کریں اسے اپنے غم سنائیں، اپنی خوشیاں اور غم کو چھپا کر رکھیں۔ اللّہ پاک خود کشی سے محفوظ رکھے۔ گلی محلوں کے فسادیوں کے لیے غنڈہ ایکٹ تو نفاذ ہوا ہے لیکن ان کی شر انگیزی سے اللّہ پاک سب کو محفوظ رکھے، امین۔ سندھ حکومت کو بھی قانون سازی کرنی چاہئے، عوام کیلئے اقدامات کریں، ویسے سندھ میں صحافیوں کیلئے خطرات کے ساتھ سنوائی بھی ہے۔ خود کو محفوظ رکھیں اور سچ گوئی کہنا ہم سب کے ذمہ ہے۔





