Column

گُھٹن میں اضافہ نہ کیجئے

گُھٹن میں اضافہ نہ کیجئے
تحریر: رفیع صحرائی
خبر ہے کہ بہاولنگر میں پولیس نے دلہا کو مہندی کی رات گرفتار کر لیا، کیونکہ مبینہ طور پر دلہا نے سائونڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس کے بعد دلہا کو شیروانی سمیت ساری رات تھانے کی حوالات میں رکھا گیا، حالانکہ صبح اس کی بارات روانہ ہونا تھی۔ دلہے کو شادی والے لباس میں ہتھکڑی لگا کر پولیس نے عدالت میں پیش کیا اور علاقہ مجسٹریٹ سے 14روز کے ریمانڈ کی درخواست کی۔ تاہم معزز عدالت نے دلہا اور اس کے ساتھی کو مقدمہ سے بری کر دیا، جس کے باعث دلہا رہا ہو گیا اور پھر وہ بارات لے کر اپنی دلہن کو لینے گیا۔ پتا چلا ہے کہ گرفتاری کے وقت اہل خانہ پولیس کی منت سماجت کرتے رہے اور اللہ، رسولؐ کے واسطے دیتے رہے کہ انسانی ہمدردی کے تحت کم از کم دلہا کو گرفتار نہ کیا جائے۔ انہوں نے پیشکش کی کہ اس کی جگہ دوسرے افراد کو گرفتار کر لیا جائے، لیکن وکیل کے مطابق پولیس کو کوئی ترس نہیں آیا اور دلہا اور اس کے شہ بالا کو ساری رات حوالات میں گزارنی پڑی۔ ظاہر ہے دلہا بے چارہ کسی غریب یا انتہائی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہو گا، جس کی پہنچ کسی ایم پی کے سیاسی ورکر تک نہیں ہو گی، ورنہ نامزد پرچہ ہونے کے باوجود بھی ایسے کیس میں بندہ شخصی ضمانت پر رہا ہو جایا کرتا ہے۔ بہرحال ایک ہاتھ میں شگنوں کا گانا اور دوسرے ہاتھ میں ہتھکڑی پہنے ملزم قمر زمان کو جب اگلی صبح مجسٹریٹ رائو محمد زبیر صابر کی عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے اسے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایف آئی آر میں ملزم کے خلاف نفرت انگیز یا اشتعال انگیز تقریر کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں جبکہ تفتیشی افسر نے کسی گواہ کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ خود ہی تفتیشی افسر تھا اس لیے منصفانہ تفتیش ممکن نہیں تھی۔ عدالت نے 14روزہ ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کی فوری رہائی اور تمام ضبط شدہ جائیداد واپس کرنے کا حکم دیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ چودہ روزہ ریمانڈ حاصل کر کے پولیس کس قسم کی تفتیش اور کیا برآمد کرنا چاہتی تھی۔
جہاں تک پولیس والوں کا تعلق ہے تو شاید انہیں یہ ہدایات دے دی گئی ہیں کہ سائونڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑنا۔ اسی لیے آئے روز کوئی نہ کوئی شوقین مزاج اونچی آواز میں گانا سن کر اپنا رانجھا راضی کرنے کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدا رائے ونڈ روڈ پر لاہور کی جانب جانے والے ایک نوجوان کار ڈرائیور سے ہوئی جو پچھلی رات کے وقت نور جہاں کی آواز میں گانا ’’ جھانجھر دی پاواں چھنکار‘‘ سنتے ہوئے جا رہا تھا کہ اسے دھر لیا گیا۔ اس کے بعد اوکاڑہ کا ایک رکشہ ڈرائیور نوجوان نصیبو لال کا گانا ’’ مینوں سُتی نوں جگا کے آپ سون لگا ایں، کی ظلم کمائون لگا ایں‘‘ اونچی آواز میں سنتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ گانا اتنی اونچی آواز میں تھا کہ اردگرد کے لوگ بھی محظوظ ہونے لگے۔ یہ بات ٹریفک وارڈن کو پسند نہ آئی اور رکشہ ڈرائیور حوالات میں جا پہنچا۔ ادھر حبیب آباد میں ایک نوجوان کو نورجہاں کا گانا ’’ ویکھ وے دن چڑھیا کہ نہیں‘‘ اونچی آواز میں سننا مہنگا پڑگیا جبکہ میرا شہر منڈی احمد آباد بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ جہاں ٹریکٹر ڈرائیور بابر اونچی آواز میں ظفر علی ظفری کا گانا ’’ اسی پاگل ہوئے سجنا وے، اینا پیار تیرے نال کرنے آں‘‘ سنتے ہوئی عمر حیات اے ایس آئی کی گرفت میں آ گیا۔
درج بالا تمام کیسز میں گانا سننے والے تمام ملزمان عدالت میں جا کر بری ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایف آئی آرز ہی غیرقانونی تھیں۔ ان میں سے کوئی ایف آئی آر بھی سیکشن 6، پنجاب سائونڈ سسٹمز ( ریگولیشن) ایکٹ 2015کے زمرے میں نہیں آتی۔ پنجاب سائونڈ سسٹم ایکٹ کا مقصد ایسے نفرت انگیز تقاریر یا اعلانات پر قابو پانا ہے جو لسانی، نسلی، صوبائی یا علاقائی تنازعات یا دہشت گردی کو جنم دے سکتے ہوں۔ گانا سننے والوں کے خلاف ایسا کوئی سنگین الزام نہیں لگایا گیا۔ یوں لگتا ہے جیسے پولیس پیش بندی کے طور پر ہاتھیوں کو خبردار کرنے کے لیے لیلوں کو پکڑ رہی ہے۔
بات ٹریکٹروں اور گاڑیوں سے ہوتی ہوئی شادی بیاہ کی تقریبات تک پہنچ گئی ہے۔ پولیس کو جرائم کی روک تھام کی بجائے عوام کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں قتل کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔ ماحول میں پہلے ہی بہت گھٹن ہے۔ اگر گانا سن کر لوگ اپنا جی خوش کر لیتے ہیں تو اس سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ لوگوں کا کتھارسس ہو جاتا ہے۔ ان کے اندر کی حبس میں کمی ہو جاتی ہے۔ سائونڈ ایکٹ کا نفاذ نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر تک ہی محدود رکھا جائے تو مناسب ہے۔ عوام کو اتنا زیادہ مت دبائیں کہ ردِعمل کے طور پر وہ پھٹ پڑیں۔ شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت یاد آ گئی۔
گلستانِ سعدی میں ایک حکایت بابِ اوّل: در سیرتِ پادشاہاں میں مذکور ہے۔
جس کے مطابق روایت ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے دوران ایک ہرن پکڑ لایا۔ اس نے اپنے غلام سے کہا کہ اسے ذبح کر کے بھون لائو۔ غلام نمک لینے کے لیے گائوں کی طرف گیا۔
بادشاہ نے کہا:
’’ نمک قیمت دے کر خریدنا تاکہ یہ رسم نہ پڑے اور گائوں برباد نہ ہو‘‘۔
غلام نے عرض کیا: ’’ حضور! اتنی سی بات سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘۔
بادشاہ نے فرمایا:
’’ دنیا میں ظلم کی بنیاد ابتدا میں بہت معمولی تھی مگر ہر آنے والے نے اس میں کچھ اضافہ کیا یہاں تک کہ یہ نوبت آ پہنچی‘‘۔
شیخ سعدیؒ اس حکایت کے ذریعے یہ سبق دیتے ہیں کہ اگر بادشاہ یا حکمران اپنے ماتحتوں کو معمولی ظلم یا زیادتی کی اجازت بھی دے دے مثلاً رعایا سے نمک بھی بغیر قیمت لینے کا کہے تو وہ لوگ رفتہ رفتہ بڑی بڑی زیادتیاں اور ظلم شروع کر دیں گے۔ چھوٹا ظلم بڑا بن جاتا ہے جس سے انصاف کا نظام کمزور ہو جاتا ہے۔
سائونڈ سسٹم ایکٹ 2015ء بھی نفرت انگیز مواد سے سفر کرتا ہوا لوگوں کی خوشیوں کو غارت کرنے تک آ پہنچا ہے ۔ اب لوگ اپنی شادی بیاہ پر سائونڈ سسٹم نہیں چلا سکتے۔ خدارا پولیس کے ان لامحدود اختیارات کو محدود کر کے عوام کو تازہ ہوا میں سانس لینے دیجئے۔ گھٹن اور حبس کی فضا تخلیق کر کے عوام کی سانسیں بند نہ کیجئے۔

جواب دیں

Back to top button