Column

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت
شہر خواب۔۔۔
صفدر علی حیدری
مصنوعی ذہانت (AI)کی بنیاد انسانی ذہن اور شعور کی مشینی نقل پر رکھی گئی۔ اس کا مقصد مشینوں کو سیکھنے، سمجھنے، مسئلہ حل کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت دینا ہے۔ AIکی کہانی صدیوں پر محیط ہے، اور اس کا ارتقاء انسانی تخلیقی جدت اور سائنسی کوششوں کا مظہر ہے۔
ابتدائی تصورات میں فلسفیوں اور ریاضی دانوں نے انسانی ذہن کی مشینی ساخت پر غور کیا۔ انسانی شعور کی پیچیدگی اور سوچ کی گہرائی نے ہمیشہ سائنسدانوں اور مفکرین کو اپنی طرف کھینچا۔
ایلن ٹورنگ نے 1936ء میں Turing Machineپیش کی، جس نے یہ سوال اٹھایا: کیا مشین سوچ سکتی ہے؟
1950ء میں ٹورنگ نے مشہور مقالے Computing Machinery and Intelligenceمیں Turing Testکا تصور دیا، جو آج بھی AIکی تشخیص میں معیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ تصور بتاتا ہے کہ اگر مشین انسانی طرز پر سوالوں کے جواب دے سکتی ہے تو اسے ’’ سمجھدار‘‘ مانا جا سکتا ہے۔
1956 ء میں Dartmouth Conferenceنے AIکو باقاعدہ سائنسی حیثیت دی، جہاں جان مکارتھی، ماروِن منسکی، آلن نیویل اور ہر برٹ سائمن جیسے محققین نے AIکے اصول اور پروگرامنگ کے بنیادی خاکے پیش کیے۔ ابتدائی AI پروگرامز جیسے Logic Theoristاور General Problem Solverنے منطقی مسئلے حل کرنے کی صلاحیت دکھائی، اور یہ مشینیں ریاضی، منطقی مسائل اور کھیلوں میں انسانی طرز کی حکمت عملی سیکھ سکتی تھیں۔1970ء کی دہائی میں AIکی ترقی محدود ہوئی اور سرمایہ کاری کم ہو گئی، جسے AI Winterکہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بنیادی اصول اور نظریات قائم رہے، اور تحقیق جاری رہی۔ 1980ء کی دہائی میں AIنے نیا رخ لیا جب Expert Systems نے مختلف شعبوں میں ماہرین کی طرح فیصلے کرنے کی صلاحیت دکھائی۔ مشہور مثال MYCIN ہے، جو طبی تشخیص میں مدد فراہم کرتا تھا۔ Expert Systemsنے ثابت کیا کہ مشینیں مخصوص اصول اور قواعد کے تحت انسانی ماہر کی طرح سوچ سکتی ہیں، لیکن پیچیدہ، تخلیقی اور غیر متوقع حالات میں محدود رہتی ہیں۔1990 ء کی دہائی میں Machine Learningاور Neural Networksنے AIکو ایک نئی جہت دی۔ کمپیوٹر کی تیز رفتاری، بڑے ڈیٹا بیس اور جدید الگوردمز نے AIکو پیچیدہ مسائل حل کرنے، شطرنج کھیلنے اور تجزیاتی کاموں میں ماہر بنایا۔ 1997ء میں Deep Blueنے شطرنج کے عالمی چیمپئن Garry Kasparovکو شکست دی، جو AIکی طاقت کی علامت تھی۔ یہ لمحہ انسانی ذہانت اور مشینی قوت کے تصادم کی تاریخ میں ایک سنگ میل بن گیا۔
2010 ء کے بعد AIنے Deep Learning, Natural Language Processingاور Computer Visionمیں انقلاب برپا کیا۔ بڑے ڈیٹا، GPUsاور جدید الگوردمز نے مشین کو انسانی زبان سمجھنے، تصاویر اور آواز پہچاننے، اور تخلیقی کام کرنے کی صلاحیت دی۔ 2016ء میں AlphaGoنے Goکھیل میں عالمی چیمپئن کو شکست دی، اور آج AIروزمرہ زندگی میں تخلیقی تحریر، آرٹ، خودکار گاڑیاں، اور دیگر شعبوں میں انسانی عمل کو آسان بنا رہی ہے۔اس مختصر مگر بھرپور تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ AIانسانی شعور، تخلیق اور علمی محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ انسانی فکری اور تخلیقی جدت کا عکاس بھی ہے۔ AIنے ہمیں نہ صرف نئے علم اور سہولت دی ہے بلکہ ادبی اور تخلیقی دنیا میں نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے ہیں۔
اب ہم ادب کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے استعمال کا جائزہ لیں گے۔
ادب انسانی روح کی عکاسی ہے۔ یہ محض لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ انسانی جذبات، تجربات، اور خیالات کی عمیق تعبیر ہے، جو معاشرت، تاریخ، ثقافت اور وجودی تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔ صدیوں سے ادب نے انسان کی فکری اور جذباتی دنیا کو بیان کیا ہے۔ ہر لفظ، ہر جملہ، اور ہر مکالمہ انسانی شعور، احساس اور فکر کا مظہر ہوتا ہے۔ ادب نہ صرف انسانی تجربات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ قاری کے دل اور ذہن پر گہرے اثرات بھی چھوڑتا ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI)نے حالیہ دہائیوں میں علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور تخلیقی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے۔ AIاب ادب میں بھی قدم رکھ چکی ہے۔ یہ نہ صرف مواد کی تجزیہ کاری، ترمیم اور تدوین میں مددگار ہے بلکہ خود تخلیقی مواد تیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا AIانسانی تخلیق کا متبادل ہے یا صرف ایک معاون ذریعہ؟ کیا یہ انسانی جذبات، نفسیاتی پیچیدگی اور تخلیقی آزادی کو حقیقی طور پر منتقل کر سکتی ہے؟
AIکسی مختصر خیال یا جملے سے پورے افسانے یا ناول کا پلاٹ، کردار، مکالمے اور اختتام تیار کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر: ’’ ایک لڑکی جو اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے ساتھ دنیا کو بدلنا چاہتی ہے‘‘۔AI اس جملے سے متعدد ورژنز، پلاٹ اور مکالمے تیار کر سکتی ہے، جو مصنف کو تخلیقی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ سہولت خاص طور پر ان مصنفین کے لیے اہم ہے جو وقت کی کمی یا تخلیقی بلاک کا سامنا کر رہے ہیں۔ AIانہیں فوری تخلیقی مواد اور نئے زاویے فراہم کر سکتی ہے تاکہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لا سکیں۔AI نظم اور نثر کے اسلوب، قافیہ، ردیف اور تھیم کو پہچان سکتی ہے۔ اگر شاعر ’’ محبت، انتظار، اور فراق‘‘ کے موضوع پر کام کر رہا ہے، تو AIمختلف طرز کے اشعار، تصورات اور علامتی مکالمے پیش کر سکتی ہے۔ انسان پھر انہیں اپنی منفرد تخلیقی سوچ کے مطابق ترمیم اور ترتیب دیتا ہے، اور نتیجہ ایک انسان + AIکی مشترکہ تخلیق بنتا ہے۔AI طویل افسانے یا ناول کے لیے بیانیہ ڈھانچہ، کرداروں کے تعلقات، کہانی کی روانی اور اختتام کے ممکنہ زاویے بھی پیش کر سکتی ہے۔ مصنف AIکی مدد سے مختلف اختیارات دیکھ کر اپنی کہانی کو زیادہ مربوط، معنی خیز اور موثر بنا سکتا ہے۔ AIکے فوائد میں وقت کی بچت، تخلیقی تحریک، جدت، تجربہ، اور تحقیقی معاونت شامل ہیں۔
AI کے ادبی کردار پر ادیبوں کی رائے مختلف ہے: مارگریٹ ایٹ وڈ کے مطابق AIتخلیقی عمل میں ہلکا سا سہارا فراہم کرتی ہے، مگر انسانی جذبات اور تجربات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ نارمن میلر AIکو صرف ایک تخلیقی آلہ سمجھتے ہیں، تخلیق کا متبادل نہیں۔ جدید محققین کے مطابق AIتحقیق، تجزیہ اور متن کی اصلاح میں مفید ہے، مگر انسانی تجربے کی گہرائی کی جگہ نہیں لے سکتی۔ AI انسانی جذبات، نفسیاتی پیچیدگی اور وجودی کشمکش کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی۔کچھ نقاد اور ادیب AIکے استعمال کے خلاف تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ AIصرف تخلیقی ٹول ہے، انسانی جذبات اور تخیل کی جگہ نہیں لے سکتی۔ AIکے تیار کردہ افسانے بعض اوقات جذباتی ہم آہنگی سے خالی ہوتے ہیں، اور بعض ادیب کہتے ہیں کہ AIکے استعمال سے تخلیقی کشمکش اور انسانی خودی کمزور ہو سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت ادبی تنقید میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ متن میں علامات، موضوعات اور بیانیہ ترتیب کی نشاندہی کر سکتی ہے، تاریخی اور ثقافتی سیاق و سباق کے مطابق متن کی مطابقت جانچ سکتی ہے، اور افسانے یا نظم کے تضاد، علامتی کنٹریسٹ، اور کرداروں کے تعلقات کی تشخیص کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، AI کسی افسانے کے پلاٹ میں موجود علامتی تضاد اور کرداروں کے پیچیدہ تعلقات کی نشاندہی کر سکتی ہے، جو مصنف یا محقق کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ تاہم، اختتام کی تاثیر اور جذباتی گہرائی انسانی شعور کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI )کی تخلیقی صلاحیت مصنف کے لیے ایک سہولت، رہنما، اور تخلیقی محرک کے طور پر کام کرتی ہے، مگر اصل تخلیق انسانی دماغ، دل اور روح سے نکلتی ہے۔ AIمواد تیار کر سکتی ہے، مگر انسانی تجربات کی عکاسی محدود ہوتی ہے۔ AIبیانیہ ڈھانچے پیش کر سکتی ہے، مگر جذباتی گہرائی انسانی شعور کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔
اصل ادیب کبھی بھی اپنی تخلیق سے مکمل مطمئن نہیں ہوتا۔ ہر لفظ، ہر جملہ اور ہر فقرہ اس کے لیے تلاش اور جستجو کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اسی لیے AIکی تحریر کو بھی وہ من و عن تسلیم نہیں کر سکتا: جذبات کی شدت، منفرد اسلوب، اور ادبی کشمکش صرف انسانی شعور میں موجود ہیں۔ AIانسانی تخلیق کا متبادل نہیں، معاون ہے۔
افسانچہ ’’ ایک جملے کی زندگی‘‘ میں لڑکی اپنے معیار کے مطابق صحیح انسان کے انتظار میں گھر کی دہلیز پر بیٹھتی ہے اور بوڑھی ہو جاتی ہے۔ AIصرف کہانی کا خاکہ فراہم کر سکتی ہے، مگر انسانی ادیب کی حساسیت، دکھ، اور علامتی اظہار کے بغیر یہ اثر پیدا نہیں ہوتا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ AIتخلیقی عمل میں مددگار ہے، مگر انسانی ادبی روح کی جگہ نہیں لے سکتی۔
ادب کا تخلیقی عمل ہمیشہ انسان کی جدت اور وسائل کے مطابق بدلتا رہا ہے:
قلم و کاغذ: ہر حرف میں ذہنی محنت، غور و فکر اور صبر شامل۔
رائٹر ( ٹائپ رائٹر): لکھنے کا عمل تیز اور صاف، مگر انسانی تخلیق لازمی۔
کمپوزنگ اور چھپائی: ادب وسیع قارئین تک پہنچا اور معاشرتی اثرات پیدا کیے۔
بول کر لکھنا اور AI: خیالات اور جذبات فوری منتقل، نئے تخلیقی امتزاج کی راہیں کھلیں۔
یہ تسلسل واضح کرتا ہے کہ ہر نئی ایجاد نے ادیب کی تخلیقی آزادی کو محدود نہیں کیا بلکہ نئے امکانات پیدا کیے۔ آج AI اور بول کر لکھنے کے طریقے اسی سلسلے کی نئی کڑی ہیں، جو انسانی تخلیق کی مرکزی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے نئے تخلیقی امکانات فراہم کرتے ہیں۔
قصہ مختصر ، یہ ادب کے لیے ایک طاقتور آلہ ہے، لیکن انسانی تخلیق کی جذباتی، فلسفیانہ اور وجودی گہرائی ہمیشہ لازمی رہے گی۔ AIکا کردار معاون ہے، انسانی تخلیق کے متبادل نہیں۔ مستقبل میں انسان اور AIکا مشترکہ تخلیقی امتزاج ادب کو نئی جہتیں دے سکتا ہے، مگر اصل ادبی کمال انسانی خودی، تجربے اور شعور کا مظہر رہے گا۔
آخر میں ایک مشہور شعر
ہم دعا لکھتے رہے، وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا

جواب دیں

Back to top button