Column

قومی زبان ہماری ذمہ داری، یومِ اردو و یومِ اقبال کا پیغام

قومی زبان ہماری ذمہ داری، یومِ اردو و یومِ اقبال کا پیغام
تحریر : ثنااللہ مجیدی
9 نومبر پاکستان کی تاریخ کا وہ روشن دن ہے، جس نے ایک ایسی ہستی کو جنم دیا جس نے ملتِ اسلامیہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔ شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان، حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا یومِ پیدائش دراصل ’’ یومِ اردو‘‘ بھی ہے، کیونکہ اقبالؒ نے اپنی فکر، فلسفے اور پیغام کے اظہار کے لیے جس زبان کا انتخاب کیا، وہ اردو تھی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اقبالؒ کی شاعری نے اردو کو وہ روح بخشی جو آج بھی ہماری تہذیب و ملی شناخت کا نشان ہے۔ اقبالؒ نے اردو کو صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بنایا بلکہ اسے قوم کی بیداری اور خودی کے پیغام کا علمبردار بنا دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انسان زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کا اظہار الفاظ کے ذریعے ہی کرتے ہیں، اور کسی شہر یا ملک کی زبان خود وہاں کے باشندوں کے جذبات کی عکاس بھی ہوتی ہے۔ زبان دراصل تہذیب و تمدن کا وہ آئینہ ہے جو قوموں کے ماضی حال اور مستقبل کو جوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے بغیر معاشرہ ایک ایسے جسم کی مانند ہو جاتا ہے جس سے خون نکال دیا گیا ہو۔ اردو ہماری قومی زبان ہے، یہ ہمارے احساسات جذبات اور تاریخ کی امین ہے۔ اسی زبان میں ہمارا علمی و فکری ورثہ محفوظ ہے ہمارے بزرگوں کی دعائیں، علماء کے فتاویٰ، شعرا کے کلام اور مصلحین کی تقریریں سب اسی زبان کے دامن میں ہیں۔
اردو وہ زبان ہے جس نے برصغیر کے مختلف خطوں نسلوں اور بولیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ اس نے مذہب ثقافت اور انسانیت کے رنگوں کو اپنے اندر سمو لیا۔ اردو کی عظمت اس بات سے ظاہر ہے کہ آج بھی ہمارے دینی مدارس کے دروس، مساجد کے خطبات اور علمی درسگاہوں کا بڑا سرمایہ اردو زبان میں موجود ہے۔ فقہ، تفسیر، حدیث اور تصوف کے بے شمار ذخائر اردو میں منتقل ہو چکے ہیں، جنہوں نے دین کو عوام کے دلوں تک پہنچایا۔ یہی زبان شریعت کی ترجمان بنی ہے اردو کے دامن میں تفاسیر واحادیث فقہی ذخیرہ اور اسلامی علوم کا وہ بحرِ بے کنارہ محفوظ ہے جو دنیا کی کسی اور عجمی زبان کو نصیب نہیں ہوا ۔
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو نہ صرف ہماری قومی زبان بلکہ دینی زبان بھی ہے۔لیکن افسوس کہ ہم نے اردو کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جس کی وہ مستحق تھی۔ ہم نے اسے اپنے دفاتر، اسکولوں، عدالتوں اور اداروں سے دھیرے دھیرے بے دخل کر دیا۔ آج ہماری نئی نسل اردو بولنے یا لکھنے میں جھجک محسوس کرتی ہے، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر رومن اردو نے اصل رسم الخط کو کمزور کر دیا ہے۔ ہماری تعلیمی پالیسیوں نے بھی اردو کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ حالانکہ قوموں کی ترقی اپنی زبان سے وابستہ ہوتی ہے۔ جاپان، چین، ترکی، ایران اور فرانس وغیرہ نے اپنی زبان کو اختیار کر کے دنیا میں عزت حاصل کی مگر ہم نے اپنی شناخت کو خود ہی کمزور کر دیا۔یومِ اقبال اور یومِ اردو ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی زبان کو فراموش کر دیا تو ہم اپنی فکری بنیاد کھو بیٹھیں گے۔ اقبالؒ نے ہمیں خودی اور خود اعتمادی کا درس دیا اور خودی کا پہلا زینہ اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے محبت ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ہمیں اس دن یہ عہد کرنا چاہیے کہ اردو کی بقا اور فروغ کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ صرف تقاریب یا تقاریر سے زبانیں زندہ نہیں رہتیں بلکہ عمل سے فروغ پاتی ہیں۔ ہمیں اپنے گھروں، اسکولوں، اور دفاتر میں اردو کے استعمال کو عام کرنا ہوگا۔ نئی نسل کو اردو پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کی ترغیب دینی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ سرکاری محکموں دفاتر و عدالتوں میں اردو کے نفاذ کے لیے حقیقی اقدامات کرے، اور نصاب میں اردو کے حصے کو مضبوط بنائے۔اردو کے فروغ میں ہمارے اخبارات، رسائل اور جرائد نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ روزانہ کے اخبارات نے اردو زبان کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ عوامی سطح پر فکری بیداری پیدا کی۔ ہفت روزہ، ماہنامہ اور دینی جرائد و رسائل نے دینی و اصلاحی ادب کو عوام تک پہنچا کر اردو کو علم و عرفان کی زبان بنا دیا۔ ان اداروں اور اہلِ قلم کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہم سب کا اخلاقی فریضہ ہے، کیونکہ انہی کی بدولت آج بھی اردو کی شمع روشن ہے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی ہمیں اردو کے فروغ کے لیے جدید ذرائع کو استعمال کرنا ہوگا۔ ویڈیوز، بلاگز، ایپلیکیشنز اور آن لائن کورسز کے ذریعے اردو کو نوجوانوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم خود اردو میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا فخر سمجھیں تو آہستہ آہستہ یہ رجحان عام ہو جائے گا۔
یومِ اردو صرف ایک دن منانے کا نام نہیں، بلکہ یہ اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان ایک فکری رشتہ جوڑنے کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اقبالؒ کے پیغام کے وارث ہیں، اور اقبالؒ کا پیغام اردو کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جس طرح انہوں نے اپنی شاعری سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا، ہمیں بھی اپنی زبان کے ذریعے فکری و اخلاقی بیداری پیدا کرنی ہے۔
ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ جب تک اردو زندہ ہے، ہماری تہذیب زندہ ہے۔ یہ زبان ہمارے دلوں کی زبان ہے، ہماری شناخت اور ہمارا فخر ہے۔ ہمیں اس کی بقا کے لیے وہی جذبہ دکھانا ہوگا جو اقبالؒ نے امت کی بیداری کے لیے دکھایا تھا۔ یاد رکھئے! اردو صرف زبان نہیں، ہماری پہچان ہے، ہماری تاریخ ہے، ہمارا ایمان ہے۔
شعر:
چرچا ہر ایک آن ہے اردو زبان کا
گرویدہ کل جہان ہے اردو زبان کا
اس لشکری زبان کی عظمت نہ پوچھیے
عظمت تو خود نشان ہے اردو زبان کا

جواب دیں

Back to top button