اقبالؒ کا فلسفہ جبر و قدر

اقبالؒ کا فلسفہ جبر و قدر
تحریر : رفیع صحرائی
علامہ محمد اقبالؒ کا فلسفہ ’’ جبر و قدر‘‘ محض شاعرانہ خیالات کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی فکر، خودی، ارادہ اور تقدیر کے گہرے مفہوم کی توضیح ہے۔ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور خطبات میں جو فکری نظام پیش کیا، اس کا ایک اہم پہلو جبر و قدر یعنی آدمی کے اختیار اور تقدیر کا مسئلہ ہے۔ یہ موضوع صدیوں سے فلسفیوں اور صوفیوں کے درمیان بحث کا مرکز رہا ہے۔ انسان آزاد ہے یا مجبور؟
اسلامی فکر میں ہمیشہ سے یہ سوال اٹھتا رہا کہ انسان اپنے اعمال میں کس حد تک مختار ہے۔ قدریہ اور جبریہ دو معروف مکاتبِ فکر اس بحث کے نمائندہ ہیں۔ جبریہ کے نزدیک انسان محض خدا کے فیصلوں کا مظہر ہے۔ اس کے پاس اپنی کوئی قوتِ ارادہ نہیں۔ مشہور شاعر میر تقی میر کا یہ شعر جبریہ مکتبِ فکر کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بندہ اپنے اعمال کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر تو ایک پتّا بھی نہیں ہل سکتا لہٰذا میں نے جو برائیاں، غلطیاں یا کوتاہیاں کی ہیں ان کا ذمہ دار میں کیسے ہو سکتا ہوں۔ اگر دوربیں نگاہوں سے دیکھیں تو یہ دوزِ محشر کو لگنے والی میزانِ عدل سے فرار کی کوشش ہے کہ جب بندے کے پاس خود سے کچھ اختیار ہی نہیں تھا تو اس سے اب حساب کتاب کیسا؟ یہ جیتے جاگتے اور جذبات سے بھرپور انسان کو ایک پروگرام فیڈ کیے ہوئے اور کمانڈ دیئی ہوئے روبوٹ بنانے کے مترادف بات ہے۔ گویا انسان اپنی بداعمالیوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔
دوسری طرف قدریہ یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے عمل میں آزاد ہے اور اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔
اقبالؒ کا نظریہ جبر و قدر تقدیر کے اندر اختیار کا ہے۔
اقبالؒ نے ان دونوں انتہائوں کے درمیان ایک حیاتی، حرکی اور متوازن نظریہ پیش کیا۔ ان کے نزدیک انسان مجبورِ محض بھی نہیں اور آزادِ مطلق بھی نہیں۔ وہ خدا کی مشیت کے دائرے میں ارادے اور کوشش کے ساتھ اپنا راستہ خود تراش سکتا ہے۔ یہ عین اسلامی نظریہ ہے۔
قرآن کہتا ہے: ’’ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا‘‘۔ ( سورہ الدبر: 3)
یعنی انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم اور ارادے کے دائرے میں رہ کر کام کرتا ہے۔ نظریہ قدر کا مطلب یہ نہیں کہ انسان مجبورِ محض ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر چیز کا ایک نظام مقرر کیا ہے مگر اس نظام کے اندر ایک انسان کو سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی آزادی دی ہے۔
میں ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں۔ ہمیں ایک سمت اشارہ کر کے کہا گیا کہ ناک کی سیدھ میں چلتے جائیں تو آپ مطلوبہ مقام پر پہنچ جائیں گے۔ ہم روانہ ہو گئے۔ کافی سفر طے کرنے کے بعد ہمارے راستے میں ایک کنواں آ گیا۔ ہم اب یہ تو نہیں کریں گے کہ ناک کی سیدھ قائم رکھنے کی خاطر کنوئیں میں چھلانگ لگا دیں گے۔ ہم اس کنوئیں کے دائیں یا بائیں طرف سے ہو کر نکل جائیں گے۔ یہاں فیصلہ ہم نے اپنی عقل کے مطابق خود کیا ہے۔
قرآن نے یہ بھی کہا ہے: ’’ اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی‘‘۔ ( سورہ النجم: 39)
اقبالؒ فرماتے ہیں:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ شعر واضح کرتا ہے کہ اقبالؒ عمل، ارادہ، اور خودی کی قوت کو تقدیر پر غالب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تقدیر جبر نہیں بلکہ قانونِ امکان ہے، جو محنت، ایمان اور خودی سے بدل سکتی ہے۔
اقبالؒ کے فلسفے کا مرکزی نکتہ’’ خودی‘‘ ہے۔ خودی دراصل انسان کی وہ اندرونی قوت ہے جو اسے کائنات میں خالقانہ کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ جب انسان اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے تو وہ ’’ عبد‘‘ رہتے ہوئے’’ مفوض الیہ‘‘ بن جاتا ہے یعنی خدا کا نائب، جو تقدیر کے اندر رہ کر اپنی تقدیر لکھ سکتا ہے۔
اقبالؒ نے کہا:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سِرِ آدم ہے، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
یہاں’’ ضمیرِ کن فکاں‘‘ کا مطلب ہے کہ انسان میں تخلیق اور ارادے کی قوت موجود ہے، وہ محض تماشائی نہیں بلکہ فاعل ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک جبر کا عقیدہ قوموں کو سست اور غلام بناتا ہے، جبکہ اختیار کا یقین انہیں بیدار اور مجاہد بناتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو ماضی پر قانع رہنے کے بجائے عملِ پیہم، یقینِ محکم اور محبتِ خالص کا درس دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان یہ ہے کہ بندہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی راہ خود چنے اور کوشش سے تقدیر کے دھارے کو موڑ دے۔
اقبالؒ کا فلسفہ جبر و قدر ہمیں بتاتا ہے کہ تقدیر اندھی طاقت نہیں، بلکہ ایک ایسا میدان ہے جس میں انسان کو جدوجہد، ارادے، اور یقین کے ساتھ اپنی کامیابی تخلیق کرنی ہے۔ ان کا پیغام آج بھی زندہ قوموں کے لیے رہنمائی ہے کہ:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے




