Column

ظہران ممدانی: نیویارک کے پہلے مسلم مئیر کی کامیابی، پسِ منظر، سیاسی سفر اور امریکی سیاست میں ایک نئی سمت

ظہران ممدانی: نیویارک کے پہلے مسلم مئیر کی کامیابی، پسِ منظر، سیاسی سفر اور امریکی سیاست میں ایک نئی سمت

تحریر : ڈاکٹر اے اے جان
دنیا بھر کی سیاست میں بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو علامتی ہونے کے ساتھ ساتھ نظریاتی تبدیلیوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ 2025ء میں نیویارک کے نومنتخب مئیر ظہران ممدانی کی کامیابی اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہے۔ نیویارک، جو امریکا کا سب سے بڑا اور عالمی سطح پر اثر رکھنے والا شہر سمجھا جاتا ہے، ہمیشہ سے سیاسی تجربات اور سماجی تغیرات کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی نژاد، تارکِ وطن پس منظر رکھنے والا شخص مئیر منتخب ہوا، یہ واقعہ محض ایک سیاسی کامیابی نہیں بلکہ ایک تاریخی موڑ ہے، جو امریکا کی بدلتی ہوئی سماجی ساخت اور جمہوری شعور کا آئینہ دار ہے۔
ظہران ممدانی کی فتح اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ انہوں نے روایت شکن سیاست، محنت کش طبقے کے مسائل، نسلی مساوات، اور اسلاموفوبیا کے خلاف ایک متبادل بیانیہ پیش کیا۔ اس تحریر میں ہم ان کی زندگی، سیاسی سفر، نظریاتی بنیاد، کامیابی کے اسباب، ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت، اور مستقبل کے امکانات کا تحقیقی تجزیہ پیش کریں گے۔ظہران ممدانی 18اکتوبر 1991ء کو یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ اُن کا خاندانی پس منظر نہ صرف علمی و فکری ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کے والد محمود ممدانی دنیا کے معروف سماجی مفکر، ماہرِ عمرانیات اور یونیورسٹی آف میکرری ( یوگنڈا) و کولمبیا یونیورسٹی ( امریکا) سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی والدہ میرا نائر بین الاقوامی شہرت یافتہ بھارتی فلم سازہ ہیں جنہوں نے ’’ سلام بمبے‘‘، ’’ مونسون ویڈنگ‘‘ اور ’’ دی نیم سیک‘‘ جیسی فلموں سے عالمی سطح پر پہچان بنائی۔
ظہران کی پیدائش ایسے وقت میں ہوئی جب مشرقی افریقہ میں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں تیزی سے جاری تھیں۔ یوگنڈا میں ایڈی امین کے بعد کا دور سیاسی استحکام کی تلاش میں تھا۔ ممدانی خاندان چونکہ علمی طبقے سے تعلق رکھتا تھا، لہٰذا ان کے لیے یہ قدرتی تھا کہ وہ بہتر مواقع کی تلاش میں نقل مکانی کریں۔ جب ظہران تقریباً پانچ سال کے تھے تو ان کا خاندان جنوبی افریقہ منتقل ہوا، جہاں ان کے والد یونیورسٹی آف کیپ ٹان میں پڑھاتے تھے۔ 1999ء میں خاندان نے نیویارک کو مستقل مسکن بنایا۔
نیویارک پہنچنے کے بعد ظہران کی ابتدائی تعلیم ’’ برونکس ہائی اسکول آف سائنس‘‘ میں ہوئی، جو شہر کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ بعد ازاں انہوں نے ’’ بوڈوئن کالج‘‘ (Bowdoin College)سے افریقن اسٹڈیز میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ یہ وہی مرحلہ تھا جب ان میں سیاسی اور سماجی شعور کی بیداری ہوئی۔ ان کے کالج کے زمانے میں ہی انہیں نسل پرستی، معاشی ناہمواری، اور امیگریشن کے مسائل پر گہری دلچسپی پیدا ہوئی۔ظہران ممدانی کی فکری تشکیل میں تین بڑے عناصر کارفرما نظر آتے ہیں: خاندانی پس منظر، نیویارک کا شہری تنوع، اور سماجی انصاف کی جدوجہد۔ ایک طرف اُن کے والد کی فکری تربیت نے انہیں سامراجی سیاست اور نوآبادیاتی ورثے کے نقائص سے روشناس کیا، دوسری جانب نیویارک جیسے کثیر الثقافتی شہر میں رہنے سے انہیں مختلف نسلوں، زبانوں اور مذہبی گروہوں کے ساتھ تعامل کا عملی تجربہ حاصل ہوا۔
ممدانی کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ’’ سیاست ایک پیشہ نہیں بلکہ خدمت کا ذریعہ‘‘ ہے۔ وہ اپنے آپ کو ’’ ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘‘ قرار دیتی ہیں، اور اس نظریے کے مطابق سماج کو زیادہ مساوات، عوامی شمولیت، اور معاشی انصاف پر استوار ہونا چاہیے۔ وہ برنی سینڈرز کے ترقی پسندانہ سیاسی وژن سے متاثر ہیں اور امریکی سیاست میں بائیں بازو کی تنظیم ’’ ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا‘‘ (DSA)سے وابستہ رہے۔
تعلیمی میدان سے نکل کر انہوں نے عملی زندگی میں ’’ ہائوسنگ کونسلر‘‘ کے طور پر کام کیا، جہاں وہ کم آمدنی والے خاندانوں کو بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتے تھے۔ اسی تجربے نے انہیں نیویارک کے عام مزدوروں اور تارکینِ وطن کے روزمرہ مسائل سے براہِ راست جوڑا۔
ظہران ممدانی کا سیاسی سفر 2019ء میں بھرپور انداز میں شروع ہوا، جب انہوں نے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے حلقہ 36 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ یہ حلقہ کوئنز کا ایک متنوع علاقہ ہے جہاں جنوبی ایشیائی، لاطینی، عرب اور افریقی نسلوں کی بڑی آبادی رہتی ہے۔ 2020ء میں وہ نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اور انہوں نے کم آمدنی والے طبقے کے حقوق، رہائشی تحفظ، اور کرایہ داروں کے مفادات کے لیے قانون سازی کی۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
ان کے ابتدائی سیاسی بیانیے میں تین نکات نمایاں تھے:
1۔ عوامی نقل و حمل کو مفت یا سستا بنانا۔
2۔ رہائش کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرانا۔
3۔ معاشی مساوات کے لیے دولت مند طبقے پر اضافی ٹیکس عائد کرنا۔
2023ء کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی فعالیت کو بڑھایا اور ترقی پسند تنظیموں، یونینز، اور سوشلسٹ کارکنوں کے ساتھ وسیع روابط قائم کیے۔ ان کا نعرہ تھا: "نیویارک سب کے لیے، صرف امیروں کے لیے نہیں”۔
انتخابی مہم، عوامی حمایت اور کامیابی کی وجوہات 2025ء کے میئرل انتخاب میں ممدانی نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندرونی پرائمری میں سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست دی۔ یہ انتخاب امریکی سیاسی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کومو جیسے تجربہ کار سیاستدان کے مقابلے میں ممدانی جیسے نوجوان اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدوار کا جیتنا روایتی سیاست کے خاتمے کا اشارہ تھا۔
ان کی مہم انتہائی منظم، رضاکارانہ، اور کمیونٹی پر مبنی تھی۔ ہزاروں نوجوانوں، تارکینِ وطن مزدوروں، اساتذہ، نرسوں، اور ٹیکسی ڈرائیوروں نے ان کی مہم میں رضاکارانہ حصہ لیا۔
ان کے نعروں میں Workers Firstاور Homes, not Luxuryنمایاں تھے۔
ممدانی کی مقبولیت کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ طبقاتی سیاست کا احیائ: انہوں نے طبقاتی تفریق کے خاتمے کی بات کی اور شہر کو محنت کشوں کا شہر قرار دیا۔
2۔ تارکین وطن کا دفاع: ان کی تقاریر میں ہمیشہ تارکین وطن کے احترام اور شمولیت پر زور رہا۔
3۔ اسلامو فوبیا کی مخالفت: انہوں نے کھل کر کہا کہ نیویارک میں اسلامو فوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔
4۔ شفافیت اور سادگی: ممدانی نے بڑے سرمایہ داروں سے چندہ لینے سے انکار کیا اور عام شہریوں سے چھوٹے عطیات پر انحصار کیا۔
5۔ نوجوانوں کی شمولیت: ان کی مہم میں کالج اور یونیورسٹی طلبہ کی بڑی تعداد شامل تھی، جس نے انتخابی سیاست کو نیا جذبہ دیا۔
انتخابی نتائج کے مطابق، ممدانی نے تقریباً 57فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ریپبلکن امیدوار محض 38فیصد پر رہ گئے۔ ان کی کامیابی کے بعد نیویارک میں جشن کا سماں تھا۔
ممدانی کی کامیابی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلقوں میں شدید ردعمل پیدا کیا۔ ٹرمپ، جو 2016ء کے بعد سے امریکی سیاست میں قوم پرستی، امیگریشن کی مخالفت، اور مسلم شناخت کے خلاف بیانیے کے نمائندہ رہے ہیں، نے ممدانی کو "ریڈیکل سوشلسٹ” قرار دیا۔ٹرمپ کے قریبی سیاسی تجزیہ کاروں نے دعویٰ کیا کہ ممدانی کی کامیابی ’’ امریکی اقدار‘‘ کے لیے خطرہ ہے، کیونکہ وہ امیر طبقے پر ٹیکس اور پبلک ٹرانسپورٹ کو مفت کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ان بیانات کے ردِعمل میں ممدانی نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا:’’ ٹرمپ سن لیں، نیویارک تارکین وطن کا شہر ہے اور رہے گا‘‘۔
ان کا یہ جملہ امریکی میڈیا کی سرخیوں میں آیا۔ یہ بیان صرف ٹرمپ کے لیے نہیں بلکہ اس پوری سیاسی سوچ کے لیے چیلنج تھا جو خوف، تقسیم، اور مذہبی تعصب پر سیاست کرتی ہے۔
انتخابی مہم کے دوران انہیں سوشل میڈیا پر اسلام مخالف بیانات اور دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔ تاہم ممدانی نے ان کا جواب جارحانہ انداز میں نہیں بلکہ پُراعتماد سیاسی استقامت سے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ شہر ان سب کا ہے جو یہاں محنت کرتے ہیں، چاہے ان کی نسل، مذہب یا رنگ کچھ بھی ہو‘‘۔
ان کی کامیابی اس بات کی علامت بنی کہ امریکی عوام کے ایک بڑے طبقے نے مذہبی تعصب اور نسل پرستی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
ممدانی کا سیاسی وژن Democratic Socialismکے گرد گھومتا ہے، ایک ایسا نظریہ جو سرمایہ داری کے اندر مساوات اور عوامی فلاح کے اصول متعارف کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کی مجوزہ پالیسیوں میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ رہائش کا بحران حل کرنا: کرایہ فریز پالیسی، بے دخلی کے قوانین میں نرمی، اور کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے عوامی ہائوسنگ کا قیام۔
2۔ پبلک ٹرانسپورٹ مفت کرنا: ان کا منصوبہ ہے کہ بسیں اور میٹرو عام شہریوں کے لیے مفت ہوں تاکہ آمد و رفت سب کے لیے ممکن بن سکے۔
3۔ محنت کش طبقے کی یونینز کی تقویت: وہ مزدور یونینز کے حقوق کے لیے کھل کر کھڑے ہیں۔
4۔ تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری: ان کا وعدہ ہے کہ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں میں سہولیات بہتر بنائی جائیں گی۔
5۔ پولیس اصلاحات: پولیس کے بجٹ کو محدود کر کے کمیونٹی سیفٹی پروگراموں میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔
6۔ ماحولیاتی انصاف: نیویارک کو ’’ گرین‘‘ شہر بنانے کے لیے متبادل توانائی کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
یہ تمام نکات ان کے نظریے کی جڑیں ظاہر کرتے ہیں: ایک منصفانہ، سب کو شامل کرنے والا، اور مساوات پر مبنی شہری نظام۔
چیلنجز اور ممکنہ اثرات
ظہران ممدانی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اپنے انقلابی وعدوں کو عملی جامہ کیسے پہناتے ہیں۔ نیویارک جیسے شہر میں بجٹ کا انحصار ریاستی اور وفاقی حکومت پر بھی ہے، اور وہاں مختلف سیاسی دبائو موجود ہیں۔
1۔ مالی وسائل کا مسئلہ: مفت ٹرانسپورٹ اور کرایہ منجمد کرنے جیسے منصوبے اربوں ڈالر کے متقاضی ہیں۔ اس کے لیے انہیں ریاستی سطح پر سیاسی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔
2۔ سیاسی مخالفت:: روایتی ڈیموکریٹک قیادت اور ریپبلکن اپوزیشن دونوں ان کی پالیسیوں کو ’’ انتہا پسند‘‘ قرار دے رہی ہیں۔
3۔ اسلاموفوبیا کا تسلسل: اگرچہ ان کی کامیابی نے مثبت پیغام دیا، مگر امریکا میں مسلم مخالف بیانیہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
4۔ میڈیا کا کردار: امریکی کارپوریٹ میڈیا ان کے منصوبوں کو ناکام دکھانے یا ’’ یوٹوپیا‘‘ قرار دینے کی کوشش کر سکتا ہے۔
5۔ وفاقی تعلقات: ٹرمپ نواز ریاستی سیاست دان ان کی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔تاہم، اگر ممدانی اپنی انتظامی صلاحیت، شفافیت، اور عوامی رابطے کو برقرار رکھتے ہیں تو وہ نیویارک کی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کر سکتے ہیں۔
نتیجہ: ظہران ممدانی کی کامیابی امریکی معاشرتی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں قوم پرستی، تعصب، اور خوف کی سیاست دوبارہ زور پکڑ رہی ہے، ممدانی کا انتخاب اس رجحان کے برعکس امید، شمولیت اور مساوات کا پیغام دیتا ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ امریکی خواب محض سفید فام امیر طبقے کا نہیں بلکہ ہر اُس شخص کا ہے جو ایمانداری سے محنت کرتا ہے۔ نیویارک جیسے شہر میں ایک مسلمان مئیر کا انتخاب اس بات کی دلیل ہے کہ عوام نے مذہب، نسل اور رنگ کے بجائے کارکردگی، وژن اور اصولوں کو ترجیح دی ہے۔ ان کا کہنا بالکل بجا ہے: ’’ آج نیویارک میں خوف کی شکست اور امید کی جیت ہوئی ہے‘‘۔ اگر ممدانی اپنے نظریاتی عزم پر قائم رہتے ہیں اور عوامی توقعات کے مطابق عمل کرتے ہیں، تو ممکن ہے کہ ان کی قیادت نہ صرف نیویارک بلکہ پورے امریکا کی سیاست میں ایک نئی جہت پیدا کرے۔ ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوریت اب بھی زندہ ہے، اور عوام کی طاقت کسی بھی سیاسی روایت سے بڑی ہے۔ ظہران ممدانی کی سیاسی جدوجہد اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر نہیں بلکہ شروع ہوئی ہے۔ ان کے لیے اصل امتحان اب آغاز ہوتا ہے ، وہ امتحان جس میں انہیں اپنے نظریے، وعدوں، اور عوامی اعتماد کو ایک مضبوط، شفاف، اور منصفانہ حکومت کی شکل دینی ہے۔
ڈاکٹر اے اے جان

جواب دیں

Back to top button