Column

اقبالؒ کا عشقِ مصطفیٰؐ اور نوجوانانِ ملت

اقبالؒ کا عشقِ مصطفیٰؐ اور نوجوانانِ ملت
تحریر :محمد اکرم رضوی

ہر سال 9نومبر کو شاعرِ مشرق،مفکرِ اسلام، حکیم الامت عظیم عاشق رسول ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا یومِ ولادت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ اقبالؒ محض ایک شاعر نہیں بلکہ وہ ایک عہد ساز مفکر، مردِ مومن اور عاشقِ رسول تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔ ان کا کلام صرف شاعری نہیں بلکہ ایک فکری تحریک ہے جو ایمان، عشق، عمل، اور خودی کے پیغام سے لبریز ہے۔ اقبالؒ کی زندگی کا محور و مرکز عشقِ رسول تھا۔ ان کے نزدیک عشقِ مصطفیٰ ہی انسان کو بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
یہی وہ نعتیہ شعر ہے، جو اقبالؒ کی پوری فکر کا خلاصہ ہے۔ ان کے نزدیک ایمان کا سرچشمہ علم نہیں بلکہ عشق ہے اور عشق کی انتہا محبتِ رسولؐ میں ہے۔
اقبالؒ نے نوجوانوں کو یہی پیغام دیا کہ اگر تم عشقِ رسولؐ سے اپنے دلوں کو منور کر لو تو تمہاری تقدیر بدل جائے گی۔
نہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
اقبالؒ نوجوان کو صرف کتابی علم نہیں بلکہ ایمانی بصیرت اور اخلاصِ عمل کی تعلیم دیتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان اپنی خودی پہچانے، اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھے، اور عشق و ایمان کے ذریعے اپنی شخصیت کو تعمیر کرے۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
اقبالؒ کے نزدیک نوجوان امت کا سرمایہ ہیں۔ ان کی نگاہ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن کے نوجوان بیدار، باشعور اور عاشقِ رسول ہوں۔ آج کا نوجوان اگر سوشل میڈیا، فیشن اور مادیت کے شور سے نکل کر اقبالؒ کے افکار پر غور کرے تو اس کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اقبالؒ نے اپنے کلام کے ذریعے نوجوانوں کو غیرتِ ایمانی، خودی اور حرارتِ عشق کا درس دیا۔ وہ اس نوجوان کو دیکھنا چاہتے تھے جو دین کی خاطر دنیا کی سب آسائشیں قربان کر دے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنے کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ اقبالؒ کی امید ہے کہ اگر نوجوان کا دل عشقِ رسولؐ سے منور ہو جائے تو ویران دل بھی گلزار بن سکتے ہیں۔ اقبالؒ کے نزدیک عشقِ رسولؐ ہی وہ قوت ہے جو انسان کو غلامی سے نکال کر حریت کی راہ دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو دل عشقِ محمدؐ سے خالی ہو، وہ دل زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے۔
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
آج جب ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال، بے حسی اور فکری انتشار کا شکار ہے تو ایسے میں اقبالؒ کا پیغام پہلے سے کہیں زیادہ زندہ اور ضروری ہو چکا ہے۔ نوجوان اگر عشقِ رسولؐ کو اپنے ایمان کی بنیاد بنائیں، تو ان کے کردار میں سچائی، دیانت، خدمت اور حوصلہ پیدا ہو جائے گا۔ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب نوجوانوں کے دل عشقِ مصطفیٰ ؐسے سرشار ہوئے، تب تب دنیا کی تاریخ بدلی۔ بدر و احد کے مجاہد ہوں یا اقبالؒ کے شاگرد ، ہر دور میں انقلاب اُسی نوجوان نے لایا جس کے دل میں عشقِ رسولؐ کی آگ جلتی تھی۔ اقبالؒ نوجوان کو یہ نہیں کہتے کہ دنیا کو چھوڑ دو، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں رہو مگر خودی نہ کھوئو۔اپنے اندر عشق، غیرت، اور جرات پیدا کرو۔
وہ فرماتے ہیں:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یہی وہ انقلابی سوچ ہے جس کی آج کے نوجوان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنی پہچان، اپنی خودی اور اپنے نبی ٔ سے اپنے تعلق کو مضبوط کر لے تو پوری قوم کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ آج نو نومبر کے موقع پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اقبالؒ کو صرف تقریروں، تحریروں اور تصویروں تک محدود نہیں رکھیں بلکہ ان کے پیغام کو اپنے کردار کا حصہ بنائیں گے۔ نوجوان اپنی زندگی کا مقصد اقبالؒ کے اس تصور سے اخذ کریں، جس کی بنیاد ایمان، عمل اور عشقِ رسول ؐ پر رکھی گئی ہے۔
اقبالؒ کا یہ پیغام ہر نوجوان کے لیے روشنی کا مینار ہے:
اگر ہو عشق تو ہے کُفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
آج کے نوجوان کے لیے اصل امتحان یہی ہے کہ وہ اپنی خودی کو پہچانے، عشقِ مصطفیٰ ؐسے اپنے دل کو زندہ کرے اور اس امت کی سربلندی کے لیے عمل کے میدان میں اترے۔ یہی اقبالؒ کا خواب ہے، یہی ہمارا مقصدِ حیات ہونا چاہیے۔ نو نومبر صرف اقبالؒ کی یاد کا دن نہیں بلکہ احیائِ فکرِ اقبال اور تجدیدِ عشقِ رسولؐ کا دن ہے۔ آئیے، ہم سب اس دن یہ عہد کریں کہ ہم اقبالؒ کے پیغام کو اپنے کردار، اپنی تعلیم، اور اپنی اجتماعی زندگی کا منشور بنائیں گے تاکہ اقبالؒ کا خوابِ خودی، عشقِ مصطفیٰؐ اور ایمان ایک بار پھر اس قوم کی حقیقت بن جائے۔

جواب دیں

Back to top button