Column

مکتوب چترالی بنام اقبال

مکتوب چترالی بنام اقبال
تحریر : ڈاکٹر ررحمت عزیز خان چترالی
میراندھ وادی کھوت
اپر چترال خیبرپختونخوا
پاکستان
مورخہ 8نومبر 2025
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
شاعر مشرق حضرت ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ صاحب، امید ہے کہ آپ جنت الفردوس میں خیریت سے ہونگے، میں ایک چترالی اقبال شناس یہ مکتوب آپ کی خدمت میں ہندوکش اور تریچ میر کے پہاڑوں کے دامن میں واقع وادی چترال کے کھوت میراندھ سے لکھ رہا ہوں۔ اسے میں بذریعہ پاکستان پوسٹ بھیج رہا ہوں کیونکہ آپؒ کا واٹس ایپ نمبر میرے پاس نہیں ہے۔ یہاں چترال میں ہوا اب بھی بہت ٹھنڈی ہے پہاڑوں پر برف کے اپنی بہادر بچھا دی ہے۔ وادی ویرمین کے اوشاک اوچ کے چشمے کا پانی اب بھی ٹھنڈا اور میٹھا ہے۔ مگر میرے محسن اقبالؒ صاحب یہاں میرے گائوں میراندھ میں ٹماٹر سات سو روپے کلو ہو گئے ہیں۔ اور چترالی عوام دیگر پاکستانی عوام کی طرح ٹماٹر خود خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اس لیے سالن اور ترکاری میں ٹماٹر کی جگہ نیمبو اور دہی ڈال کر ذائقہ برابر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے جس ملک پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ ملک آپ کے بعد وجود میں آ گیا۔ پر اس ملک میں عام آدمی کے دن آج بھی آسان نہیں بلکہ مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس پر میں نے یک مصرعی نظم لکھی ہے وہ یہ ہے کہ
’’ غلامی ختم ہوئی پر صرف انگریز کی‘‘۔
اقبالؒ صاحب اب ہم انگریزی کے غلام ہیں۔ اور اردو کو ہم نے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اقبالؒ صاحب آپ نے یہ کہا تھا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سی ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
لیکن آپ کے ملک پاکستان میں معاملہ اب اس سے بھی زیادہ تلخ دکھائی دے رہا ہے۔ ایک اور میری یک مصرعی نظم ملاحظہ کیجیے:
’’ میرے دیس میں چمن کے مالی کے بچے بھی ننگے پائوں ہیں‘‘۔
اور دیدہ ور پاکستانی نوجوانوں کے ہاتھ میں اب موبائل ریچارج بھی نہیں ہوتا کیونکہ آپ کے جانے کے بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ آپ تو جناح، سر سید اور غالب کے سات جنت الفردوس میں آرام کر رہے ہوں گے۔ یہاں کا مزدور اب بھی تھکا ہارا شام ڈھلنے پر گھر آ کر کہتا ہے کہ واقعی اقبالؒ نے سچ کہا تھا کہ
’’ ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات‘‘
میرے پیارے علامہؒ صاحب، میں نے آپ کی فکر کو اس دیس کی پہاڑی زبان کھوار کے قالب میں ڈھالا۔ یہ زبان ہندوکش ، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں بولی جاتی ہے۔ میں نے آپ کی شخصیت و فن پر کھوار اور اردو دونوں زبانوں میں کتابیں لکھی ہیں جن میں
فکر اقبال
فلسفہ اقبال
میرا اقبال
پھوپھوکان اقبال
اور آپ کی ذاتی ڈائری Stray Reflections کے اردو ترا جم شامل ہیں۔ ان سب کو کھوار اور اردو میں منتقل کیا ہے اب میں ان کتابوں کو آپ کو بھیجنا چاہتا ہوں لیکن میری والدہ اور والد صاحب کو جلدی جلدی تھی وہ دونوں جنت الفردوس چلے گئے ورنہ ان کے ہاتھ بھیج دیتا۔ میرے والدین جنت کے کسی اعلیٰ درجے پر فائز ہونگے ان کو میرا سلام کہئیے گا۔ اب میں آپ کے جناح صاحب کو لکھے گئے انگریزی خطوط کا اردو اور کھوار ترجمہ بھی کر رہا ہوں۔ میری یہ سب مزدوری دل سے ہے۔ میں زبانوں کے لیے سافٹویر بنا دیا ہے تاکہ کلام اقبال کے پاکستانی زبانوں میں تراجم ہو سکیں۔ اس اقبالیاتی خدمات پر مجھے چار علامہ اقبال گولڈ میڈلز بھی ملے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ میں نے آپ کی بات ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کی زبانوں تک پہنچائی ہے جوکہ میری اقبال دوستی کی اعلیٰ مثال ہے۔
اقبالؒ صاحب جنت الفردوس میں آپ کے رفیق کون کون ہیں وہاں مرزا غالب موجود ہیں؟ سر سید احمد خان؟، محمد علی جناحؒ؟، چودھری رحمت علی؟ اور وہ مونچھوں والا سردار عبدالرب نشتر؟، اگر ان سے ملاقات ہو تو ان سب کی طرف ایک چترالی سلام کہہ دیجئے یعنی سلامالیکو۔ اقبالؒ صاحب آپؒ اور آپ ؒ کے وہ ساتھی جو مملکت خداداد پاکستان بنا گئے اور پھر خود جنت الفردوس میں جا بیٹھے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ ابھی نومبر 2025ء چل رہا ہے چند مہینے بعد 2026ء کی عید آرہی ہے اس لیے عید کی پیشگی مبارک باد قبول کیجئے۔
اور ہاں اقبالؒ صاحب ایک عرض ہے کہ راجستھان میں ایک صاحب ہیں سرفراز بزمی وہ اقبالیاتی بحر میں شعر لکھ رہے ہیں اور لوگ اسے فیس بک پر آپ سے جوڑ کر بیچ رہے ہیں یہ کاروبار بھی شروع ہو گیا ہے، حسد عجیب چیز ہے، اور کاروبار شاعری چوری تک جا پہنچا ہے۔ میں نے مارک زکربرگ کو خط بھیج دیا ہے کہ ہمارے اقبالؒ سے منسوب غلط اشعار فیس بک پر شیئر ہو رہے ہیں ان پر کوئی ایکشن لیجئے، ورنہ ہم پاکستانی فیس بک یوز کرنا چھوڑ دینگے۔
اقبالؒ صاحب وہ پنجابی زبان میں کہتے ہیں کہ
’’ کووں کے کہنے سے ڈھکے نہیں مرا کرتے‘‘
سو آپؒ ان اشعار کی فکر نہ کیجئے میں تو بس آپؒ کو اطلاع دے رہا ہوں۔ اگر جنت الفردوس میں ٹیلی نار کے سگنل ڈراپ نہیں ہورہے ہیں تو مجھے کال بھی کر دیجیے یا واٹس ایپ پر وائس میسج ہی دے دیجئے میرا واٹس ایپ نمبر 03365114595ہے ۔
اور آخر میں
آپؒ ہی کا ایک شعر دل میں لگا رہتا ہے کہ
’’ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘
ہم پاکستانی کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہاں مہنگائی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ’’ اب تقدیر خود حساب کر کے بھاگ جاتی ہے‘‘
آپ کے اشعار کا عاشق
ایک چترالی اقبال شناس
رحمت عزیز خان چترالی

جواب دیں

Back to top button