خدا سے خودداری تک، براستہ خودی
خدا سے خودداری تک، براستہ خودی
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری۔۔۔۔
انسانی روح کا سفر ایک مثلث میں جڑا ہوا ہے :
ماخذ ذات
شعورِ ذات
وقارِ ذات
کائنات کی ہر چیز کی بنیاد خدا ہے، جو خودی اور خودداری کے سب سے بڑے ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقبالؒ فرماتے ہیں:
یہ عالمِ آب و گل، تیری نمود کے لیے ہے
یہ شعور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان محض خاک کا پتلا نہیں بلکہ ماخُذ ذات کے تجلی کا مظہر ہے۔
مولانا رومی بھی اس پر اظہار حیرت و افسوس کرتے ہیں، ’’ تیرے پر ہیں تو پھر بھی رینگ رہا ہے پرواز نہیں کرتا‘‘۔
یعنی انسان میں توانائی موجود ہے، مگر جب تک وہ اپنی ماخُذ ذات سے رشتہ قائم نہیں کرتا، محدود رہتا ہے۔
شعورِ ذات: خودی انسان میں موجود شعور ہے، اپنی اصل پہچان، اور خدا کی جامع ذات کے ساتھ ہم آہنگی۔
اقبالؒ فرماتے ہیں:
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
خودی انسان کو اپنے اندر چھپی قوت، تخلیق اور معرفت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ شعور اس کی شخصیت کو مکمل کرتا ہے اور اسے خدا کی ذات سے ہم آہنگ کرتا ہے۔
خودداری:
خودداری وہ عملی اظہار ہے جو شعورِ ذات کو حقیقت میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ انسان کو آزادی، عزت نفس اور اخلاقی طاقت عطا کرتی ہے۔
اقبالؒ فرماتے ہیں:
نہ تو زمیں کے لیے ہے، نہ آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے
خودداری انسان کو غلامی سے آزاد کرتی ہے اور اس کی ذات کی وقار و عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔
اگر علامہ اقبالؒ کی ساری شاعری، فکر اور فلسفے کو کسی ایک نکتے میں سمیٹا جائے تو وہ محوری نکتہ ’’خودی‘‘ ہے۔یہ کوئی لفظ نہیں، اصطلاح ہے جس نے اقبالؒ کے پورے فکری نظام کو معنویت بخشی، اور انسان کو اس کے خالق سے جوڑنے والا پُل بنایا۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی محض خود پسندی نہیں، بلکہ خود شناسی کا وہ عرفانی سفر ہے جو بندے کو بندگی سے بادشاہی، اور مخلوق سے خالق کی قربت تک پہنچاتا ہے۔
انسان اپنا سفر ہمیشہ صفر سے شروع کرتا ہے۔ خودی وہی نکتہ آغاز ہے، جو یہ سکھاتا ہے کہ خود کو صفر مان لو، تمہیں’’ ایک ‘‘ مل جائے گا ۔
اللہ ہک ہے ہک ہے ہک ہے
ساکوں ہک دی دم دم سک ہے
یہی نکتہ یہ سجھاتا ہے کہ
میں کچھ بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں
بس میرا ماہی صل علی
یہی نکتہ بتاتا ہے کہ
صاحب تیڈی بندی آں
مندی ہاں کے چنگی ہاں
کہتے ہیں بادشاہوں کا کلام ش کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے
’’ کلام امام امام الکلام‘‘
اقبالؒ سے قبل خودی کا لفظ انا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
اردو ارکان خمسہ سے ایک اہم رکن سر سید خودی کے بارے رقم طراز ہیں، ’’ خودی، جو انسان کو برباد کرنے والی چیز ہے ‘‘۔
اقبالؒ نے بتایا کہ یہ انسان کو برباد کرنے والی چیز نہیں، اس کی باطنی زندگی کو آباد کرنے والی چیز ہے ۔
علامہ اقبالؒ اور ان کی انفرادیت نے قیامِ پاکستان کے بعد ادب کو ایک نئی شکل دی جس میں نہ تو مریضانہ ماضی پرستی تھی اور نہ ہی قدیم شعرا کی طرح محبوب نگاری کا رحجان پایا جاتا تھا۔
اقبالؒ نے پہلی بار ادب کو خودی کا وہ فلسفہ متعارف کرایا، جس کا انکار غیر ترقی پسند ناقدین کے ہاں لازماً ہوتا تھا۔اقبالؒ پورے یقین سے کہتے ہیں کہ انسانی تجربہ سلسلہ اعمال کی کڑیوں میں سے ہے، ہر عمل ایک دوسرے سے باہم مربوط ہے اور ایک کے بعد دوسرا عمل مجبوراً ہوتا چلا جاتا ہے، جو کہ ایک باہمی وحدت مقصد میں منسلک ہوتا ہی۔ علامہ کا کہنا ہے کہ انسانی خودی کا اور تقدیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر انسان نفس کی تربیت میں ان اصولوں کو مدنظر رکھے تو اس کے اندر اندرونی صلاحیتیں ابھرتی ہیں جس سے وہ اپنی تقدیر کا مالک بن جاتا ہے۔
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سُو بدل جائے
اقبال کے مطابق خودی کے دو پہلو ہیں۔
1۔ نفسِ فعال ( Effective Self)
2۔ نفسِ بصیر (Appreciative Self)
نفسِ فعال کی تشریح ہمیشہ زمان و مکان کے پیمانوں سے ہوتی ہے جبکہ نفسِ بصیر دورانِ خالص سے رابطہ رکھتا ہے اور حیاتِ الٰہیہ سے براہ راست فیض یاب ہوتا ہے۔
اقبالؒ کے ہاں خودی کی حقیقت اور صداقت کو ثابت کرنے کے بعد اس کی تین خصوصیات ملتی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں۔
1۔ وحدت
وحدت خودی کی پہلی اکائی ہے جس کے مطابق خودی کا اظہار کلیاتِ نفس سے ہوتا ہے۔
2۔ خلوت
خلوت کے مطابق ہر خودی کی اپنی الگ حیثیت ہے۔ کیفیاتِ نفس کا ہی بے مثل ربط باہمی ہے جس کا اظہار ہم لفظ میں سے ’’ حرکت‘‘ کرتے ہیں۔
اقبالؒ کی شاعری رومی کے فلسفے پر دوڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہے، علامہ کے بیشتر اشعار میں رومی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ پیر رومی مرشد روشن ضمیر
کاروانِ عشق و مستی را امیر
شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ اور مولانا کے ہاں بہت سے نظریات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں اپنے علومِ عصر سے واقفیت رکھتے تھے، دونوں کا نظریہ خودی ایک ہی تھا، دونوں ارتقائے حیات اور عظمت آدمیت پر یقین رکھتے تھے، دونوں کے ہاں عشق کو عقل پر فوقیت ہے۔
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
علامہ کی شاعری اور شخصیت کے آخری دور کی خوبصورتی عشقِ محمد سے روشنائی پاتی ہے ۔
مولانا مودودی لکھتے ہیں،’’ وہ ( اقبالؒ) جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے‘‘۔
اقبالؒ کی نظر میں ہر نسل کے نوجوان بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور انہوں نے نوجوانوں کے لیے اپنا قلم سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔
اقبالؒ نے ہمیشہ اللہ کے احکامات کو اپنے اشعار میں نوجوان کے لیے نصحیت بنا کر پیش کیا۔
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تُو نہیں جہاں کے لی
خودی وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنے اندر اس شعور کو بیدار کرتا ہے جو اسے اپنے خالق سے ہم کلام ہونے کے قابل بناتا ہے۔یوں اقبال کے نزدیک ’’ خدا شناسی‘‘ ہی ’’ خود شناسی‘‘ کا پہلا زینہ ہے۔
اقبالؒ کی نگاہ میں کائنات کی ہر شے متحرک ہے، زندہ ہے، متکلم ہے۔
یہ حرکی قوت خودی ہی کی جلوہ گری ہے۔
انسان، جب اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے، تو وہ اس کائناتی حرکت کا حصہ بن جاتا ہے جو خدا کی تخلیقی تجلی سے عبارت ہے۔
مگر انسان کی یہ عظمت تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی خودی کو پہچانے، اسے پروان چڑھائے، اور اس کی راہوں میں قربانی، عشق اور یقین کے چراغ جلائے۔
اقبالؒ کے ہاں خودی محض ایک فلسفیانہ اصطلاح نہیں، بلکہ انسان کے روحانی و اخلاقی ارتقاء کا راستہ ہے۔
یہ راستہ خدا سے شروع ہوتا ہے، خودی سے گزرتا ہے، اور خودداری پر منتہی ہوتا ہے۔
یعنی جب انسان اپنے خالق کو پہچانتا ہے تو اپنے اندر وہ الٰہی قوت دریافت کرتا ہے جو اسے عزتِ نفس، آزادیِ فکر اور قوتِ عمل عطا کرتی ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی دراصل خودداری کی بنیاد ہے۔
جو خود کو پہچان لیتا ہے، وہ کسی کے آگے جھکتا نہیں۔
جو شخص خود کو نہیں پہچانتا، وہ اس پر والے پرندے کی مانند ہے جو پر رکھتا ہے مگر زمین پر رینگتا ہے۔
اقبال کے نزدیک خودی کا فلسفہ محض ذہنی یا روحانی تجربہ نہیں بلکہ عملی زندگی کا ضابطہ بھی ہے۔
خودی انسان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلے پر عزت، کردار، اور استقلال کا مظاہرہ کرے۔
یہی خودی انسان کو بتاتی ہے کہ غلامی صرف سیاسی نہیں بلکہ فکری اور روحانی بھی ہوتی ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک آزاد قوم وہ نہیں جو سلطنت رکھتی ہے، بلکہ وہ ہے جو اپنے ضمیر کی مالک ہو۔
اسی لیے وہ کہتے ہیں:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ؒاقبال ؒنے عقل کو محدود اور عشق کو لامحدود کہا۔
عقل انسان کو سوال سکھاتی ہے، مگر عشق اسے یقین عطا کرتا ہے۔
خودی کی پرورش کے لیے عشق لازمی ہے، کیونکہ عشق وہ آگ ہے جو انسان کے اندر چھپی خودی کو تپش دیتی ہے۔اقبالؒ کے نزدیک عشق ہی وہ قوت ہی جو انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے اور اس کے ضمیر کو زندہ رکھتی ہے۔
اسی لیے انہوں نے کہا:
عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم
اقبالؒ کا فلسفہ خودی صرف فرد کے لیے نہیں، بلکہ پوری ملت کے احیاء کا منشور ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ کی کمزوری اس کی خود فراموشی میں ہے۔
اقبالؒ کے ہاں ’’ خودی‘‘ انسان کو خدا سے جدا نہیں بلکہ قریب کرتی ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی کا کمال یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات میں اتنا کامل ہو جائے کہ خدا کی مشیت اس کے ارادے سے مطابقت اختیار کرے۔
’’ خدا سے خودداری تک، براستہ خودی‘‘ دراصل انسان کے باطنی سفر کا استعارہ ہے۔
یہ سفر بندگی سے شروع ہوتا ہے، معرفت پر رک کر نہیں رہتا، بلکہ خودداری پر پہنچ کر مکمل ہوتا ہے۔
خودی انسان کو بتاتی ہے کہ اصل آزادی کسی نظام، قوم یا سلطنت میں نہیں، بلکہ اندر کے احساسِ وجود میں ہے۔اقبالؒ کی شاعری انسان کو ’’ خدا سے خودداری‘‘ تک پہنچنے کا راستہ دکھاتی ہے ، ایک ایسا راستہ جو عشق، یقین، اور عمل کی روشنی میں طے ہوتا ہے، اور جس کا ذریعہ صرف ایک ہے: خودی، جس کا بدیہی نتیجہ خود داری ہے اور یہی آج کے پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ یہی ایک غیور قوم کا طرہ امتیاز ہے
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا





