تائید غیبی

تائید غیبی
محمد مبشر انوار
بطور انسانی تاریخ کے طالبعلم، ایک قدر مشترک دکھائی دیتی ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی مقصد کے لئے نکلا ہے، اسے غیر متوقع طور پر عوامی حمایت نصیب ہوئی ہے، بلا شک و شبہ اس میں انسان کی اپنی شخصیت کا گہرا تاثر ایک مسلمہ حقیقت ہے، اس کا اپنا کردار اور قول و فعل اسے اپنے مقصد سے مخلص ثابت کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر بنی نوع انسان اس کی ہم رکاب ہوتی ہے۔ پیغمبران کرامٌ ، انبیائے کرامٌ اور رسولوںٌ کو بالخصوص اس کی تربیت اور حکم دیا گیا ہے کہ ان کا کام صرف اور صرف اللہ رب العزت کا پیغام خلق خدا تک پہنچانا ہے، اس کے نتائج کی ذمہ داری کسی بھی صورت ان برگزیدہ ہستیوں کی نہیں کہ اللہ جسے چاہے ہدایت عطا کرے اور جسے چاہے اس سے محروم رکھے، یہ اس کی اپنی صوابدید، حکمت و دانش ہے، جس تک انسانی بصارت و بصیرت کسی بھی صورت نہیں پہنچ سکتی حتی کہ اللہ کی برگزیدہ ہستیاں بھی اس راز سے اس وقت تک واقف نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کی ذات خود نہ چاہے۔ اسی طرح دنیاوی معاملات میں اللہ کی طرف سے منتخب شدہ افراد انسانی بہتری کے لئے بروئے کار آتے ہوئے، اپنی تمام تر توانائیاں، اپنے مقصد کے حصول میں صرف کرتے ہیں لیکن کامیابی کا سہرا کسی ایک شخص کے سر سجتا ہے جبکہ اس مقصد کے لئے کئی ایک اس راہ کے مسافر بنتے ہیں، کچھ منظر عام پر آتے ہیں تو کچھ گمنام رہ جاتے ہیں لیکن ان کی جدوجہد سے قطعی انکار نہیں اور یقینا وہ اپنے حصہ بقدر جثہ اللہ کی بارگاہ سے حاصل کریں گے ۔ تاہم اس کے برعکس ایسے افراد یا گروہ جو انسانی تباہی کے لئے بروئے کار آتے ہیں، ان کا دنیاوی انجام تو برا ہوتا ہی ہے لیکن آخرت میں بھی ان کے لئے رسوائی کا معاملہ ہی طے شدہ امر ہے بشرطیکہ ان کے نامہ اعمال میں کوئی ایسی نیکی ہو، جسے اللہ رب العزت کی ’’ قبولیت‘‘ ہو اور آخرت میں بخشش کا سبب بن جائے۔ اس لئے کسی کے ظاہر پر اس کی آخرت کا فیصلہ کرنے کی جرات نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کسی کے ماضی کی بنیاد پر اس کے حال کو دکھاوا کہا جا سکتا ہے اور نہ کسی ہمارا یہ اختیار ہے کہ کسی کی نیت کو جان سکیں تاآنکہ حالات و واقعات واضح طور پر کسی بھی امر کی نشاندہی نہ کر دیں۔ بہرکیف قرون اولی یا انبیائٌ و رسل کی کیا مثالیں دی جائیں کہ وہ بہرحال بشر ہوتے ہوئے، عام بشر سے افضل ترین اور اللہ کریم کے انتہائی منتخب شدہ افراد تھے اور تا قیامت ان کی یہ حیثیت یونہی برقرار رہے گی، ان کے ذمہ واجب کام کی تکمیل کا سوال بھی ان ہی سے ہو نا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ جتنی ذمہ داری تفویض ہوئی، اسی کی مناسبت سے سوال و جواب بھی ہو گا۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبران کو، جیسا کہ عرض کیا ، اللہ رب العزت نے پیغام توحید پھیلانے کے لئے مبعوث کیا جبکہ نبی آخر الزمانؐ اور اپنے محبوبؐ کہ جن بعد کوئی نبی نہیں اور نبوت ان پر تمام ہوئی، کو پیغام توحید پھیلانے کے علاوہ دو اور کام تفویض کئے ۔ آپؐ کو حکم دیا گیا کہ دنیا بھر میں اسلام کو پھیلانے کے لئے، غیر مسلموں کو دعوت دیں اور اگر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں تو وہ آپؐ کے دینی بھائی ہیں وگرنہ ان سے جزیہ طلب کریں، جس کے بدلے ان کی جان و مال و آبرو کی حفاظت کا ذمہ لیں، پہلی دونوں باتوں کی نفی پر تلوار سے جہاد کریں اور ایسی ریاستوں کو فتح کر کے اسلامی سلطنت میں شامل کریں اور دوبارہ پہلی دونوں شرائط غیر مسلم شہریوں کو پیش کریں، یعنی جبرا اسلام میں داخل کرنے کی پھر بھی اجازت نہیں۔
گزشتہ صدی میں برصغیر پر ٹوٹی انگریزوں کی آفت سے نجات کے لئے، ابتداء میں بابائے قوم محمد علی جناحؒ کے خیالات کانگریس سے ملتے تھے مگر بعد ازاں، کانگریسی رہنمائوں کی بدنیتی کو بھانپتے ہوئے، قائد اعظمؒ نے اپنا لائحہ عمل بدل لیا اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر، اس خطہ میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ حالات کے مطابق جناح کا یہ مطالبہ بہت بڑا تھا اور بظاہر حالات بھی موافق نہ تھے لیکن اس کے باوجود، عزم و ہمت و مضبوط قوت ارادی کے مالک محمد علی جناحؒ نہ صرف حالات کو موافق بنانے میں کامیاب رہے بلکہ تحریک پاکستان کی جاری تحریک میں ایک نئی جان اور روح پھونک کر الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ، اپنی شدید ترین بیماری کے باوجود تن تنہا الگ وطن کے مطالبے پر ڈٹ کر کھڑے رہے کہ ان کے قریب ترین ساتھیوں کو بھی ان کی بیماری کا علم نہیں تھا اور آزادی کے بعد جب نہرو کو قائد اعظمؒ کی بیماری کا علم ہوا تو یہ کہتے ہوئے کہ، کاش مجھے علم ہوتا تو آزادی میں تاخیر کر لیتا، سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ نہ کر سکا وگرنہ ممکن تھا کہ تحریک آزادی پاکستان کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتی یا اس میں مزید تاخیر ہوتی یا جو حالات آج بھارت میں مسلمانوں کے ہیں، وہی ہمارے بھی ہوتے۔ بہرکیف اس جدوجہد میں کئی ایک قد آور سیاسی شخصیات نے قائد اعظمؒ کو حق بجانب سمجھا تو کئی ایک نے شدید ترین مخالفت بھی کی جبکہ اسی طرز کئی ایک قدآور مذہبی شخصیات کی جانب سے قائد اعظمؒ کی پرزور و غیر مشروط حمایت ہوئی تو بیشتر نے انہیں نعوذباللہ کافر اعظم بھی کہا، لیکن کیا ان کے ایسے لغو الفاظ سے قائداعظمؒ کا قد کسی بھی طور کم ہوا؟، تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایسے ناقدین کا نام کیسے لیا جاتا ہے اور ان کی پیروکار کتنے ہیں جبکہ قائد اعظمؒ کا نام بلا شک و شبہ نہ صرف تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جا چکا ہے بلکہ ان شاء اللہ توقع اور گمان یہی ہے کہ اللہ کے حضور بھی وہ سرخرو ہو چکے ہیں، باقی واللہ اعلم بالصواب۔ قائد اعظمؒ تو اپنے حصے کا کام کر گئے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت نے انہیں مزید مہلت نہ دی اور تکمیل پاکستان کا ادھورا کام قدرت کسی اور سے لینا چاہتی ہے، آزادی کے بعد، یوں تو کئی ایک رہنما افق سیاست پر نمودار ہوئے ہیں جنہوں نے بہرطور پاکستان کی بہتری و فلاح کا ڈھنڈورا زیادہ پیٹا ہے لیکن بالعموم اس ریاست کو ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک سیکیورٹی سٹیٹ میں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ قائد اعظمؒ کی خواہش کے برعکس اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں، دو نئی ریاستوں کے درمیان تعلقات، امریکہ و کینیڈا ( جو آج بہرحال تنائو کا شکار ہو چکے ہیں) کی بجائے روز اول سے ہی مخاصمانہ طرز پر استوار ہو چکے، کچھ بدنیتی بھارت کی جانب سے ابتداء میں کی گئی جبکہ بعد ازاں اس میں دونوں ریاستوں کے ذمہ داران نے حصہ بقدر جثہ ڈالا اور آج دو پڑوسی ریاستیں سخت دشمن ہیں، جنگیں لڑ چکی ہیں اور مستقبل قریب میں مزید جنگوں کا شدید ترین امکان موجود ہے تاوقتیکہ دونوں میں ایک ریاست واضح طور پر دوسری کو زیر نہیں کر لیتی۔ بہرکیف بھارت کم از کم اس حوالے سے کہیں بہتر ہے کہ وہاں روز اول سے ہی جمہوری اقدار پنپتی رہی ہیں اور وہاں عوامی رائے کا احترام بہرطور پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ کیا جاتا ہے یا کم از کم بھارت جمہوری عمل پر گامزن ہیں، وہاں کی صنعتی ترقی تو ضرور ہے لیکن عوامی خوشحالی کا تناسب اس ترقی کے مطابق نہیں، جو بہرحال ان کا اندرونی معاملہ ہے۔
پاکستان اپنے کئی ایک سیاسی رہنمائوں اور آمر مطلق حکمرانوں کی جانیں گنوانے کے باوجود تاحال اسی کشمکش میں ہے کہ اس ملک پر حکومت کون کرے گا؟، یہ سوال پاکستانی معاشرے میں ، اب پہلے انڈا یا مرغی والی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ مقتدرہ کسی بھی صورت سویلین حکمرانوں کو حق حکمرانی دینے کے لئے تیار نہیں، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ، اختیارات اپنے قبضے میں کر رہی ہے، جبکہ عوامی حقوق کی بحالی کی جدوجہد کرنے والوں کے لئے زمین تنگ بلکہ اجیرن ہو چکی ہے۔ تاہم اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی نامور مفکر اسلام جناب شیخ عمران حسین صاحب کا یہ کہنا کہ عمران خان جیل میں میری کتابیں پڑھ رہے ہیں، میں ایک اور کتاب لکھ کر ان کے نام کر دونگا، عمران خان مسلمانوں کی جنگ لڑتے ہوئے جیل میں شہید ہو گئے تو محمد علی جناحؒ سے جا ملیں گے اور اگر رہا ہوئے تو وزیراعظم بنیں گے۔ عمران خان کو بتائو کہ تم اکیلے نہیں ہو، تمہارا یہ کارواں جنت میں جائے گا، یا اس دنیا میں کامیاب ہوگا۔ اس پیغام کے بعد یہ واضح ہے کہ مذہبی دنیا کے مستند علمائے کرام عمران خان کی کس نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے نزدیک عمران خان کا کیا مقام ہے، جبکہ سرکاری و درباری علما کی حقیقت کیا ہے، اس سے ان کو سمجھ لینا چاہئے۔ بات انتہائی واضح اور پیغام واشگاف ہے کہ تکمیل پاکستان کی جدوجہد میں عمران خان کے مخالفین جو مرضی کہیں، جو مرضی کریں، انہیں ہو آشکار عوامی حمایت تک نصیب نہیں کہ ان کا مقصد فقط طاقت کا حصول یا ذاتی مفاد ہے، جبکہ عمران خان کا مقصد اپنی ذات سے کہیں اوپر ہے، جسے نہ صرف دکھائی دینے والی عوامی حمایت میسر ہے، بلکہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے اسے بہرطور ’’ تائید غیبی‘‘ بھی نصیب دکھائی دیتی ہے، باقی واللہ اعلم بالصواب۔





