ColumnImtiaz Ahmad Shad

کلٹ ازم

ذرا سوچئے
کلٹ ازم
امتیاز احمد شاد
دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں الفاظ کے معنی اور ان کے استعمال کا دائرہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ کلٹ ایسا ہی ایک لفظ ہے جو آج کل پاکستان میں غیر معمولی طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ پہلے یہ اصطلاح صرف مذہبی یا روحانی تحریکوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی، مگر اب یہ سیاسی، سماجی اور فکری گروہوں کے لیے بھی عام ہو چکی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں سیاست، مذہب اور میڈیا ایک دوسرے کے ساتھ گہرے تعلق میں ہیں، وہاں ’’ کلٹ‘‘ کا تصور ایک نیا مگر نہایت اہم موضوع بن چکا ہے۔ لفظ ’’ کلٹ‘‘ دراصل لاطینی زبان کے لفظ ’’ کلٹس‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں’’ عبادت یا پرستش‘‘۔ قدیم زمانے میں اس لفظ کا مطلب کسی مخصوص عقیدے یا دیوتا کی عبادت کے لیے کیا جاتا تھا، مگر بیسویں صدی میں یہ لفظ اُس گروہ یا تحریک کے لیے استعمال ہونے لگا جو عام عقائد سے ہٹ کر کسی مخصوص شخصیت، نظریے یا رہنما پر اندھا اعتماد رکھتی ہو۔ ماہرینِ سوشیالوجی کے مطابق ’’ کلٹ‘‘ ایک ایسا فکری نظام ہے جو عقل اور دلیل کے بجائے عقیدت، جذبات اور اندھی تقلید پر مبنی ہوتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں ’’ کلٹ‘‘ کا لفظ اب محض مذہبی معنی تک محدود نہیں رہا۔ آج اسے سیاست، سوشل میڈیا اور سماجی رویّوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاست کے میدان میں بعض رہنمائوں کے گرد ایسی عقیدت پیدا ہو چکی ہے جو عام سیاسی حمایت سے بڑھ کر ’’ پرستش‘‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ عوام کا ایک طبقہ اپنے پسندیدہ لیڈر کو غلطیوں سے مبرا سمجھتا ہے، اور اُس پر تنقید کو دشمنی یا کفر کے مترادف سمجھتا ہے۔ یہ طرزِ عمل دراصل پولیٹیکل کلٹ کہلاتا ہے، جو دنیا بھر میں جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کلٹ فالوونگ کے اثرات صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ مذہب، فن، اور میڈیا میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مذہبی سطح پر بعض گروہ یا شخصیات ایسے حلقے بناتے ہیں جہاں ان کے پیروکار ان کے ہر قول و فعل کو حرفِ آخر مان لیتے ہیں۔ اس طرح کے مذہبی کلٹس عموماً تنقید برداشت نہیں کرتے، اور ان کے مخالفین کو دشمنِ دین یا گمراہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی رویہ مذہبی برداشت، مکالمے اور اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں کلٹ کی نئی شکلیں جنم لے چکی ہیں۔ اب کسی رہنما یا شخصیت کا کلٹ بننا صرف جلسوں یا مذہبی حلقوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ فیس بُک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر ڈیجیٹل کلٹس ابھر چکے ہیں۔ ان میں لوگ کسی شخصیت یا نظریے کے دفاع میں سوشل میڈیا پر منظم مہمات چلاتے ہیں، اختلاف کرنے والوں پر حملے کرتے ہیں، اور حقائق کو نظرانداز کر کے صرف اپنی پسندیدہ شخصیت کے بیانیے کو پھیلاتے ہیں۔ اس عمل کو ماہرین ایکو چیمبر ایفیکٹ کہتے ہیں، جس میں لوگ صرف وہی آوازیں سنتے ہیں جو اُن کے نظریے کی تائید کرتی ہیں۔ کلٹ کی اس بڑھتی ہوئی موجودگی کی وجوہات بھی پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے سے جڑی ہوئی ہیں۔ سب سے پہلی وجہ عوام میں تعلیم اور تنقیدی شعور کی کمی ہے۔ ہمارے معاشرے میں سوال اٹھانے کو اکثر گستاخی سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ مذہب میں ہو یا سیاست میں۔ اسی ذہنیت کا فائدہ اٹھا کر بعض طاقتور گروہ یا رہنما اپنے پیروکاروں کو اس طرح متاثر کرتے ہیں کہ وہ اُن کے ہر فیصلے کو صحیح مان لیتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ جذباتی سیاست ہے۔ پاکستان میں سیاست ایک نظریاتی یا فکری عمل سے زیادہ ایک ’’ شخصیت پرستی‘‘ بن چکی ہے۔ عوام اکثر لیڈر کے کردار یا کارکردگی کے بجائے اُس کی تقاریر، اندازِ گفتگو، یا دشمنوں پر تنقید سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ تیسری اہم وجہ سماجی ناانصافی اور محرومی ہے۔ جب عوام کو انصاف، تعلیم، روزگار یا مساوات نہیں ملتی تو وہ کسی ایسے رہنما یا نظریے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جو اُنہیں امید یا انقلاب کا خواب دکھاتا ہے۔ ایسے حالات میں کلٹ پیدا ہونا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ مایوس معاشرہ کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ چوتھی وجہ سوشل میڈیا کی وہ طاقت ہے جو بغیر تحقیق کے ہر رائے کو حقیقت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اب کسی کو ہیرو یا ولن بنانا صرف چند وائرل پوسٹس کا کام رہ گیا ہے۔
پاکستان میں کلٹ کا اثر صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ روزمرہ سماجی رویّوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی فنکار، یوٹیوبر، یا مذہبی شخصیت کے فالوورز اس حد تک جذباتی وابستگی ظاہر کرتے ہیں کہ تنقید کو برداشت نہیں کرتے۔ کسی شخصیت یا نظریے سے محبت اچھی بات ہے، مگر جب وہ محبت عقل اور تنقید کو ختم کر دے تو وہ کلٹ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کلٹ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ معاشرتی تقسیم کو بڑھا دیتا ہی۔ یہ ’’ ہم‘‘ اور ’’ وہ‘‘ کی سوچ پیدا کرتا ہے۔ جو شخص کلٹ کے اندر ہو، وہ خود کو حق پر سمجھتا ہے، اور جو باہر ہو، اسے دشمن یا گمراہ سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً مکالمے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے، اور قوم جذباتی پولرائزیشن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے اثرات ہم پاکستان کی سیاست اور عوامی مباحث میں روز دیکھتے ہیں، جہاں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے بجائے ذاتی حملوں، بہتان تراشی اور نفرت انگیز گفتگو کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تاہم، ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہر عقیدت یا نظریاتی وابستگی ’’ کلٹ‘‘ نہیں کہلاتی۔ فرق صرف ’’ اندھی تقلید ‘‘ اور ’’ عقل مندانہ حمایت‘‘ میں ہے۔ اگر کسی رہنما یا نظریے کی حمایت دلیل، شعور اور کارکردگی کی بنیاد پر ہو تو یہ صحت مند طرزِ فکر ہے۔ لیکن اگر حمایت عقیدت، خوف یا اندھی محبت کی بنیاد پر ہو تو وہ خطرناک کلٹ ازم کی طرف لے جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رجحان کو کم کیسے کیا جائے؟ اس کا سب سے موثر طریقہ تعلیم اور تنقیدی سوچ کا فروغ ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے مضامین اور مباحث ہونے چاہئیں جو طلبہ کو سوال اٹھانے، دلیل دینے اور اختلافِ رائے کو قبول کرنے کا حوصلہ دیں۔ میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے کہ وہ شخصیت پرستی کے بجائے فکر و عمل پر بحث کو فروغ دے۔ اسی طرح مذہبی اور سیاسی رہنماں کو چاہیے کہ وہ اپنے ماننے والوں میں برداشت، عقل اور دلیل کی عادت پیدا کریں۔
اختتاماً کہا جا سکتا ہے کہ ’’ کلٹ‘‘ ایک ایسا رویّہ ہے جو وقتی طور پر اتحاد اور جوش تو پیدا کرتا ہے، مگر طویل مدت میں معاشرتی بگاڑ، انتہا پسندی اور ذہنی غلامی کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں جہاں عوامی شعور ابھی ناپختہ ہے، وہاں کلٹ ازم کا پھیلا جمہوریت، مذہبی رواداری اور فکری آزادی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم عقیدت کے ساتھ ساتھ عقل کو بھی جگہ دیں، تاکہ محبت اندھی تقلید میں نہ بدلے، اور قیادت عبادت میں تبدیل نہ ہو۔ کیونکہ جب انسان سوچنا چھوڑ دیتا ہے، تب کلٹ جنم لیتا ہے اور جب سوچ زندہ رہتی ہے، تب قومیں بیدار رہتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button