مذاکرات ختم ہو چکے؟

مذاکرات ختم ہو چکے؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جب ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ ڈیڈلاک کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو سب سے پہلے ایک حقیقت واضح کرنی ضروری ہے کہ یہ محض ایک سیاسی اختلاف نہیں ہے بلکہ پاکستانی شہری کی جان و مال کا براہ راست خطرہ ہے۔ فتنہ الخوارج کے سیکڑوں حملوں میں ہزاروں بے قصور افراد کو موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ کوئی بیان بازی نہیں، یہ حقیقت ہے جو ہر خاندان میں درد کی شکل میں ہے۔ خواجہ آصف کا یہ بیان کہ ’’ مذاکرات ختم ہو چکے ہیں‘‘ دراصل پاکستان کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ استنبول میں جب پاکستانی وفد نے افغان طالبان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے میں لکھا ہوا معاہدہ مانگا، تو یہ محض کاغذ پر دستخط نہ تھا۔ یہ ایک حتمی تقاضا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغان طالبان سے وعدے بار بار ٹوٹے ہیں۔ یہاں تک کہ دوحہ معاہدہ جو تحریری تھا اس پر بھی افغان طالبان نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا۔
2001میں، 2021میں، اور آج بھی۔ تو پاکستان صرف یہی چاہتا تھا کہ کم از کم اس بار کوئی تحریری دستاویز ہو۔ کوئی شہادت ہو۔ کوئی ریکارڈ ہو۔ یہ بالکل معقول تقاضا ہے۔ لیکن افغان طالبان نے کیا کیا؟ وہ زبانی یقین دہانیاں دے کر جانے کی کوشش کی۔ ’’ ہم پر اعتماد کرو‘‘ ۔ یہ الفاظ اب خوب آشنا ہو چکے ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان غلط ہے؟ کیا کسی ملک سے یہ مطالبہ غیر معقول ہے کہ اگر آپ کے یہاں سے دہشت گرد ہمارے شہری کو قتل کر رہے ہیں، تو کم از کم یہ تو لکھیں کہ آپ ان کے خلاف اقدام کریں گے؟ اگر یہ غیر معقول ہے تو پھر کیا معقول ہے؟۔ یہ امر بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں افغان طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لویہ جرگہ آج تک نہیں بلایا گیا ۔ عبوری حکومت میں اپوزیشن کو کوئی نمائندگی نہیں دی ، خواتین کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکے۔ تعلیم کی ہر صنف کو بلارکاوٹ عمل کرنے میں رکاوٹیں معمول بن چکی ہیں۔ افیون کی کاشت ختم نہیں کرا سکے اور اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ افیون کی کاشت کر رہا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کا حقیقی چہرہ کیا ہے؟ یہ محض ایک علیحدگی پسند گروہ نہیں ہے۔ یہ سنگین دہشت گردی کا ایک نیٹ ورک ہے جو افغانستان کی سرزمین سے تنظیمی سہولیات، ہتھیار، رسد، اور تدریب حاصل کر رہا ہے۔ بازار میں بمے دھماچتے ہیں، سکولوں میں حملے ہوتے ہیں، عسکری اہداف پر حملہ کیا جاتا ہے۔ 2024ء میں 67حملے تھے، لیکن 2025 میں یہ نو گنا بڑھ گئے۔ یہ کوئی اتفاقی اضافہ نہیں۔ یہ ایک منظم سازش ہے۔ خیبر پختونخوا میں صورت حال ایسی ہے کہ کوئی نہ کوئی والدین کو اپنے بیٹے یا بیٹی کا خبر نہ ملتا۔ خو ف کا سایہ ہر شہری کی روح میں پیوست ہے جس سے جان چھڑانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ مہاجرین کے ذریعے ممکن ہے؟ بالکل۔ پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی کے سرغنائوں کو تمام سہولیات ملتی ہیں۔ سرحد پار کریں، پاکستان میں حملہ کریں، ہتھیار استعمال کریں، شہری قتل کریں، واپس آجائیں۔ یہ ایک سسٹم ہے جو صرف افغان طالبان کی رضامندی سے ممکن ہے۔ اگرافغان طالبان واقعی اس سے الگ تھلگ کرنا چاہتے ہوں تو یہ بہت ممکن ہے۔ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو گرفتار کر سکتے ہیں، سرحد سے نکال سکتے ہیں، سہولیات بند کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے۔ نظریاتی تشابہ اہم ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان دونوں اپنی خودساختہ شریعہ پر مبنی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ’’ اندرونی معاملہ‘‘ کہتے ہیں، تو وہ اپنی نظریاتی برادری کا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ ان کے اسلام کے حقیقی روح کے برخلاف شدت پسندی کا عقیدے کا مسئلہ ہے۔ وہ ایک نظریاتی اتحاد کے ذریعے ایک دوسرے کی حمایت کر رہے ہیں۔
افغان طالبان کا موقف خطرناک ہے۔ اگر ہر ملک یہ کہہ دے کہ دوسرے ملک کے دہشت گرد اس کا اندرونی معاملہ ہیں، تو دنیا میں کوئی قانون و نظم نہیں رہے گا۔ بین الاقوامی سطح پر ایک ملک سے بنیادی توقع یہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دوسری ریاست کے خلاف دہشت گردی کی اجازت نہ دے۔ طالبان نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ سب سے بڑا طریقہ تحریری معاہدہ کو مسترد کرنا ہے۔ جب آپ کسی چیز پر دستخط نہیں کرتے، تو ذمہ دار نہیں رہتے۔ دوسرا، وہ ترکیہ اور قطر جیسے ثالثوں کو یقین نہیں دلا رہے۔ بھارت کے ساتھ افغانستان کے بہتر تعلقات بھی اہم ہیں۔ اکتوبر 2025میں جب افغان وزیر خارجہ بھارت گئے، تو یہ واضح پیغام تھا کہ طالبان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں۔ پاکستان کا موقف معقول ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس اقدامات، اقدامات کی تحریری شہادت اور بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داری کے پابند رہا جائے ۔
یہ غیر معقول نہیں۔ یہ معیاری مطالبات ہیں۔ طالبان جانتے ہیں کہ سنجیدہ اقدامات کے نتیجے میں ان کے اپنے گروپ میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی قریبی شخصیات سے ناراض ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے وہ سبوتاژ کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف صحیح کہتے ہیںکہ اب اگلا دور نہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بار کوشش ضرور ہوگی ۔ مذاکرات کے لیے سچائی کا ارادہ ضروری ہے۔ افغان طالبان کے پاس وہ نہیں ہے۔ وہ سرفہ پوشی چاہتے ہیں، پاکستان حقیقی حل چاہتا ہے۔ یہی فرق ہے۔ آخر میں، پاکستان نے غلطی نہیں کی۔ غلطی افغان طالبان کی ہے جو دہشت گردوں کو سرپناہ دے رہے ہیں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ مذاکرات کی ناکامی افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور دہشت گردوں کے ساتھ نظریاتی اتحاد کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے۔
سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہے؟ کیا یہ کشیدگی ہمیشہ رہے گی؟ شاید نہیں۔ لیکن اس سے نکلنے کے لیے بہت سے مسائل کو حل کرنا ہوگا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کو امن کی فضا میں سانس لینی ہے۔ بچوں کو اسکول جانا چاہیے، خواتین کو اپنے مسائل کے لئے طبی سہولیات کے لئے ماہرین سے ملاقات کرنی ہے، بے روزگاری کے باعث کام کی تلاش کرنی چاہیے۔ یہ سب ممکن ہے صرف امن سے۔ امن میں حیات ہے۔ یہ تمام کچھ سننے میں بہت آسان لگتا ہے، لیکن عملی طور پر بہت مشکل ہے۔ سیاسی ارادہ ضروری ہے، بات چیت کی خواہش ضروری ہے۔ لیکن اگر نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ اور اگر اب نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟ یہی تو سب سے بڑے سوالات ہیں جو ہر دل میں اٹھ رہے ہیں اور جن کے جوابات بہت مشکل ہیں۔





