Column

پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک

اداریہ۔۔۔۔۔
پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک
پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحدی کشیدگی کے تناظر میں استنبول مذاکرات کا انعقاد ہوا، ترکی اور قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا، تاکہ ایک مستقل تصفیے یا کم از کم ایک مستحکم معاہدے کی بنیاد رکھی جائے۔ پاکستان نے ثالثوں کے سامنے ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد تنظیمیں پاکستانی حدود میں حملے کر رہی ہیں۔ افغان طالبان نے موکداً تحریری معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور صرف کلامی یقین دہانی پر زور دیا۔ وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے سوشل میڈیا پر تصدیق کی کہ یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے اور افغان طالبان نے اپنا وعدہ نبھانے میں ناکامی ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے تحریری معاہدے پر زور دیا مگر افغان طالبان نے صرف زبانی یقین دہانی کی پیشکش کی، جو پاکستان کے لیے ناکافی تھی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغان سرزمین سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) سمیت دہشت گرد تنظیمیں پاکستانی حدود میں کارروائیاں کررہی ہیں، اور وہ چاہتا ہے کہ افغانستان ان کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔ افغان طالبان نے کہا ہے کہ ان کا اِن تنظیموں پر مکمل کنٹرول نہیں ہے۔ پاکستان نے تشویش ظاہر کی ہے کہ افغان طالبان نے ماضی میں وعدے کیے مگر عمل درآمد نہیں کیا۔ اس وجہ سے اعتماد کا فقدان پیدا ہوا۔ ترکی اور قطر کی ثالثی کے باوجود گفتگو کے عمل میں وہ موضوعات زیرِ بحث رہے جو صرف سیکیورٹی تک محدود نہیں بلکہ علاقائی اثرات، سرحدی حدود اور بیرونی مداخلتوں سے بھی جڑے ہیں۔ اس حوالے سے فوراً خطرہ سیکیورٹی کی صورتِ حال کا ہے۔ چونکہ مذاکرات ناکام رہے، پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے حملے جاری رہیں تو وہ مناسب جواب دے گا۔ سرحدی تجارت اور رابطوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ سرحدی راستوں کی بندش، تجارت کی رکاوٹیں اور پناہ گزینوں کا بحران مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ علاقائی تعلقات میں تیزی سے کشیدگی آمیز ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ افغانستان-پاکستان تعلقات مزید متشنج ہوسکتے ہیں اور یہ کشیدگی دیگر علاقائی ممالک اور ثالث فریقوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ ترکیہ اور قطر کی ثالثی اس بار ٹھوس نتیجہ نہ دے سکی۔ پاکستان کو اپنے داخلی دفاعی اور مانیٹرنگ میکانزم کو سخت کرنا پڑسکتا ہے اور افغانستان میں بدلتے سیاسی منظرنامے کے تناظر میں پاکستان کو اپنی پالیسیوں کی تجدید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بات چیت کا اگلا دور شروع کرنے سے پہلے تحریری ضمانتیں لازمی ہونی چاہئیں، جن کی میکانزم کے ساتھ نگرانی کی جائے۔ اعتماد کی بحالی کے لیے مختصر اور قابلِ پیمائش اقدامات متعین کیے جائیں، مثلاً دہشت گرد تنظیموں کی شناخت، ان کی سرگرمیوں کا خاتمہ اور ثالثی رپورٹیں شائع کرنا۔ ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو مزید مثر بنانے کے لیے ثالثوں کو نگرانی میکانزم، رپورٹنگ میکانزم اور عملدرآمدی ٹائم لائن فراہم کرنی چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان صرف دو طرفہ پہلو نہیں، بلکہ علاقائی سلامتی، مہاجرت، تجارت اور معاشی روابط کا بھی سوال ہے۔ ان پہلوئوں کو شامل کرتے ہوئے ایک جامع فریم ورک تیار کیا جانا چاہیے۔ اگر مذاکرات آگے نہ بڑھ سکے، تو پاکستان کو اپنی اندرونی دفاعی اور سیکیورٹی کی حکمتِ عملی تیار رکھنی چاہیے اور ساتھ ہی معاشی اور معاشرتی رابطے بحال رکھنے کی متبادل راہیں تلاش کرنی چاہئیں۔ شفافیت سے پالیسی کی قبولیت میں اضافہ ہوتا ہے اور وساءل کا بہتر استعمال ممکن بنتا ہے۔ استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی، اگرچہ متوقع تھی، مگر اس نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ صرف ثالثی اور اچھے ارادے کافی نہیں۔ پاکستان کی بنیادی تشویش یعنی افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ابھی تک وہ عنصر ہے جس پر افغان طالبان نے مضبوط تحریری ضمانت نہیں دی۔ اس پس منظر میں، پاکستان کو اپنے قومی مفاد، خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے فعال رہنا ہوگا جب کہ افغان طالبان اور علاقائی فریقین کے ساتھ مشاورت جاری رکھنا بھی ناگزیر ہے۔ اگرچہ امن کی خواہش مشترکہ ہے، مگر عملی اقدامات اور اعتبار سازی کے بغیر مذاکرات محض دکھاوا بن کر رہ جائیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین امن کا عمل محض ایک سیاسی مرحلہ نہیں بلکہ علاقائی استحکام کا اظہار ہے۔ اس لیے ناکامی کے باوجود، یہ لمحہ ایک آزمائش ہے کہ کون اپنے وعدے پورے کرتا ہے اور کون مستقل حل کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔

 

شذرہ۔۔۔۔۔۔
ترسیلات زر میں حوصلہ افزا اضافہ
پاکستان کی معیشت ہمیشہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر پر انحصار کرتی آئی ہے۔ اکتوبر 2025ء میں ترسیلات زر کا حجم 3.4ارب ڈالر تک پہنچنا اہم سنگ میل ہے۔ یہ صرف ایک معاشی اعداد و شمار نہیں بلکہ اس بات کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ سمندر پار پاکستانی حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد رکھتے ہیں اور اپنے وطن کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت میں ترسیلات زر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان ذرائع سے ملنے والی رقم نہ صرف معیشت کو سہارا دیتی بلکہ ملکی درآمدات اور برآمدات کے بیچ توازن بھی قائم رکھتی ہے۔ اکتوبر 2025ء کے دوران ترسیلات زر میں 7.4فیصد ماہانہ اور 11.9فیصد سالانہ اضافہ دیکھنے کو ملا، جو حوصلہ افزا بات ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سمندر پار پاکستانی اپنی مالی حالت میں استحکام کے باوجود پاکستان کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے وزیرِاعظم شہباز شریف نے ترسیلات زر میں اضافے پر سمندر پار پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا ہے اور ان کی قربانیوں اور محنت کو سراہا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ ترسیلات زر میں اضافہ سمندر پار پاکستانیوں کی حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کی عکاسی ہے۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت نے پچھلے کچھ سال میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پالیسیاں بہتر کی ہیں، جن سے ترسیلات زر میں اضافہ ممکن ہوا ہے۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک سے ترسیلات زر کا آنا اس بات کا غماز ہے کہ پاکستانی کمیونٹیز ان ممالک میں مضبوط ہیں اور ان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جہاں بہت سے ہم وطن ملازمت کرتے ہیں، دونوں نے ترسیلات زر میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ سعودی عرب سے 820.9ملین ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے 697.7ملین ڈالر پاکستان آئے، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے ورکرز عالمی سطح پر اپنے وطن کو مضبوط بنانے میں پیش پیش ہیں۔ ان بڑھتی ہوئی ترسیلات زر کے اثرات پاکستان کی اقتصادی ترقی پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ جب ملک میں ڈالر کی آمد بڑھتی ہے تو اس سے روپے کی قدر میں استحکام آتا ہے، جو درآمدات اور قرضوں کے بوجھ کو کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ رقم مقامی معیشت میں کھپتی ہے اور کاروباروں کے لیے مواقع پیدا کرتی ہے۔ ترسیلات زر کا یہ سلسلہ حکومت کے لیے قیمتی اثاثہ ہے، جسے مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت ان پیسوں کے صحیح استعمال کے لیے حکمتِ عملی وضع کرے تاکہ یہ ترسیلات زر نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں بھی استعمال ہوں۔ آخرکار، یہ واضح ہے کہ سمندر پار پاکستانی نہ صرف ہمارے قیمتی اثاثے ہیں بلکہ ان کے ذریعے حاصل ہونے والی ترسیلات زر پاکستان کی معیشت میں ایک ستون کی طرح ہیں۔ ان کی محنت اور قربانیاں ملکی ترقی کے سفر میں ایک اہم جزو ہیں۔

جواب دیں

Back to top button